• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاک بھارت جنگ، کون درست سمت کھڑا تھا؟-آغر ندیم سحرؔ

پاک بھارت جنگ، کون درست سمت کھڑا تھا؟-آغر ندیم سحرؔ

22 اپریل سے شروع ہونے والی کشیدگی چھ اور سات مئی کی درمیانی شب جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ بھارت نے حد درجہ در اندازی کی، ہماری سرحدوں کو عبور کیا، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی، ہمارے بچوں اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا، ہماری مساجد کے ساتھ قرآن مجید کے نسخوں کو نشانہ بنایا اور ہم مسلسل خاموش رہے۔

ہم عالمی دنیا کو بتاتے رہے کہ بھارت اور مودی سرکاری کی لگام کھینچی جائے، اسے بتایاجائے کہ ہم امن چاہتے ہیں۔ اس لیے خاموش ہیں مگر ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں، جیسے اس سے قبل تین جنگوں مین ہم نے اپنا بھرپور دفاع کیا تھا۔ بھارت اس ساری صورت حال میں ہمیں کمزور اور ڈرپوک سمجھتا رہا، رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح وار کرتا رہا، دو دنوں میں نوے کے قریب ڈرون ہم نے مار گرائے، یہ ڈرون اسرائیلی ساختہ تھے۔ اسرائیل نے بھارت کی حمایت کا پورا حق اداکیا، اسے اپنااسلحہ بھی بھیجا اور اپنے جذبات بھی۔

دس مئی کی صبح نماز فجر کے بعد پاکستانی افواج نے بھارت کو لگام ڈالنے کی کوشش کی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی افواج نے درجنوں اہم ترین بھارتی تنصیبات کے پرخچے اڑا دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی بھارت کا غرور زمین بوس ہوگیا، بھارت کی جگ ہنسائی کے بعد امریکہ بھی میدان میں کود پڑا، وہ امریکہ جو ایک دن پہلے تک کہتا رہا کہ ہم اس جنگ میں شامل نہیں ہوں گے، جس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ جب بھارت مسلسل کئی روز تک، پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنا رہا تھا، امریکہ کشیدگی کم کرنے پر زور تو دیتا رہا مگر اس درجہ شدت اس کے لہجے میں نہیں تھی، دس مئی تین سے چار گھنٹوں میں پاکستان نے بھارت کا تمام قرض چکا دیا، اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اب امریکہ ثالثی پر اتر آیا۔

جنگ میں سیز فائر ہو چکا مگر ہمارے بنیادی اختلاف حل نہ ہو سکے، مسئلہ کشمیر ہو یا پھر سند طاس معاہدہ، سیز فائز کے بعد بھی یہ دونوں مسئلہ حل طلب ہیں۔ کشمیر کا ایشو ایک مدت سے حل نہیں ہو سکا، ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں، اس مرتبہ چوتھی جنگ بھی شروع ہوئی مگر یہ مسئلہ اسی طرح موجود ہے۔ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا، سندھ طاس معاہدے کو ختم کیا، سیز فائر کے بعد اس کی کوئی بہتر صورت نظر نہیں آ رہی۔

جب ہمارے دو بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہوئے تو سیز فائز کس بات کا، بھارت سے جنگ بندی کس بات کی، امریکہ کی ثالثی کس مسئلے پرتھی، کیا صرف انڈیا کو محض چھترول سے بچانا مقصودتھا۔ پاکستان سے کسی طرح کی دل چسپی نہیں تھی؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس جنگ میں ہمیں یہ بھی پہچان ہوگئی کہ ہمارا دوست کون تھا اور دشمن کون، چین، آزربائیجان اور ترکیہ نے جس درجہ ہمت اور محبت سے ہمارا ساتھ دیا، ہماری نسلیں بھی ان کی مقروض رہیں گی۔ سعودی وزیر خارجہ برائے مملکت نے بھی اگر چہ دونوں ملکوں کے دورے کیے اور اس کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا مگراس نے حق ادا نہیں کیا۔

پاک بھارت جنگ میں سیاست دانوں کے کردار نے بھی بہت دکھ دیا، نواز شریف اور ذرداری کی خاموشی، تحریک انصاف سے سیاسی محاذ آرائی بھی قطعا درست نہیں تھی مگر ان کا ایک پوائنٹ جس کی حمایت کرتا ہوں، وہ سیاسی اتحاد تھا۔ اگر مودی اس نازک صورت حال میں راہول گاندھی سے ہاتھ ملا سکتا ہے تو پاکستانی سیاست دان کیوں نہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ ہم آل پارٹیز کانفرنس کرتے، ہم ایک پیج پر اکٹھے ہوتے اوربھارت کو پیغام دیتے کہ “اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں”۔

بہرحال پاکستانی سیاست بھی بہت گندی ہے، یہاں سیاسی اختلاف انا کا مسئلہ بن جایا کرتا ہے اور یہ مسئلہ جنگ اور نفرت تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس نفرت میں عوام اور پارٹی ورکرز بھی شامل ہو جاتے ہیں، یہاں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ سیاسی اختلاف نے سانحہ نو مئی کو جنم دیا اور اس کے بعد یہ معاملہ سویلینز کے ملٹری ٹرائل تک پہنچ گیا، پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے تاریخ کے میزان میں تولا جائے گا کہ جب پاکستان ایک جنگی بحران سے گزر رہا تھا، ہم نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا فیصلہ دے دیا گیا۔ یہ بھی وہ سیاسی جنون ہے جس میں بہرحال عام آدمی مارا گیا۔

عام آدمی اس نظامِ انصاف سے پہلے بھی کوئی مطمئن نہیں تھا۔ اس جنگ میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم رہا، بھارتی میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، وہاں کے عوام کو غلط معلومات پہچانے سے لے کر اپنی حکومت کو دھوکہ دینے تک، میڈیا نے انتہائی دوغلے پن کا کردار ادا کیا، حقائق کو چھپایا اور بھارتی عوام الناس سے مسلسل جھوٹ بولا، پاکستان مخالف پراپیگنڈا کیا اور وہاں کے لوگوں کے دل میں پاکستان کے لیے نفرت ڈالی۔ دونوں طرف کے قلم کاروں کی خاموشی بھی اس موقع پر بہت اہم تھی، جاوید اختر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان مخالف بیان دیا اور یہاں کے لوگوں کو بہت دکھ دیا، اس سے قبل بھی جاوید اختر ایسے ہی بیانات داغ چکا جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔

julia rana solicitors london

پاکستانی کے “سرکاری” دانش وروں اور شاعروں کی خاموشی بھی حیران کن تھی، مشاعرے چھن جانے کا خوف یا پھر سرکاری عہدے اور سرکاری تمغے نہ ملنے کے خوف میں کسی بھی طرح کا مزاحمتی بیان نہ دیا، ایسے خاموشی اختیار کی جیسے ہمارا اس جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں ہی نہیں۔ جنگ تو کسی کے لیے بھی اچھی نہیں مگر قلم کاروں نے تو حد ہی کر دی، دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کا ڈھونگ رچانے والوں کو بھی سانپ سونگھ گیا، بھارتی تنظیموں کے دعوت ناموں پر “ادب کی خدمت”کرنے والوں کی مجرمانہ خاموشی یاد رکھی جائے گا، ہم انھیں بھولنے نہیں دیں گے، خیر پاکستانی افواج نے آپریشن بنیان مرصوص سے ملک و قوم کی عزت اور وقار کو بچا، ہم اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply