• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صنعتی ایمرجنسی/رضوان ظفر گورمانی

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صنعتی ایمرجنسی/رضوان ظفر گورمانی

بجٹ میں حکومت نے 450 ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے مختص کیے جس پہ سوشل میڈیا پہ ایک ٹرینڈ دیکھنے کو ملا کہ انکم سپورٹ پروگرام کو بند کر کے 450 ارب روپے کی صنعتیں لگائی جائیں۔یہ ادھوری معلومات پہ مبنی آدھا غلط اور آدھا ٹھیک مطالبہ ہے۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ غربت کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی مد میں عالمی سطح پہ ڈونرز نے غریب خواتین کو کیش کی مد میں امداد دینے کا آغاز کیا تھا۔اس کے 80 فیصد سے زائد ڈونرز غیر ملکی ہیں۔اس پروگرام کے ذریعے بنگلہ دیشی خواتین کو کیش دینے کا آغاز کیا گیا تھا مگر چند سال پہلے بنگلہ دیش نے اس امداد کو شکریہ کے ساتھ لوٹا دیا کہ اب ہماری خواتین کو اس امداد کی ضرورت نہیں۔بنگلہ دیش یہ اپنی صنعت اور صنعتی پیداوار میں خواتین کے کردار کی وجہ سے کر پایا۔بھارت میں پچاس فیصد سے زائد خواتین کسی نہ کسی روزگار سے منسلک ہیں ۔بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت بہت ترقی کر چکی ہے جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ،بھتہ مافیا اور انرجی کے بحران کے باعث انڈسٹریز بند ہو رہی تھیں۔سیٹھ اپنے کارخانے اپنی فیکٹریاں بنگلہ دیش میں شفٹ کر رہے تھے‍۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ آخر کیسے 71 میں ہم سے ہی الگ ہونے والا بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا۔

میری سمجھ میں جو بنیادی دو وجوہات ہیں وہ ایک تو مذہب کا ریاستی معاملات سے دور رکھنا ،دوسرا خواتین کو صنعتی پیداوار کا حصہ بنانا۔ٹکے کی ویلیو والا ٹکہ آج پاکستانی روپے کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔پاکستانی سیٹھ سرمائے سمیت بنگلہ دیش شفٹ ہو چکے ہیں۔

ہم آج بھی اپنی اکڑ فوں اورپھونک پھانک کے الیوژن کا شکار ہیں کہ ہم اور ہمارا ملک دنیا کے لیے ناگزیر ہے۔

اس ملک کے ساتھ سیاستدان بیوروکریسی فوج اور تاجر سب نے ظلم کیا۔آج کشمیر علیحدگی چاہتا ہے بلوچستان الگ ہونا چاہتا ہے۔پختون افغانستان کا دم بھرتے ہیں۔سندھ والے سندھو دیش کا نعرہ لگاتے ہیں۔چڑھدا اور لہندا پنجاب کے نام سے گریٹر پنجاب کی بھی سُن گن سننے کو مل جاتی ہے لے دے کر ہم سرائیکی وسیب والے ہی بچتے ہیں جو سب سے پسماندہ ہیں سب سے زیادہ محب وطن ہیں اور سب سے اہم کسی بھی علیحدگی یا جغرافیاتی تبدیلی کے بغیر اپنی علیحدہ شناخت کے طلبگار ہیں۔

ہم اگر موٹروے کی مثال لیں تو دنیا بھر میں موٹر ویز مال کی تیز ترین نقل و حمل کے لیے بنائی جاتی ہیں۔آپ کسی بھی ملک کی موٹر وے کی ویڈیو اٹھا کر دیکھیں آ پ کو کنٹینرز اور ٹرکوں کی لمبی لمبی قطاریں فراٹے بھرتی ہوئی نظر آئیں گی۔اب پاکستان کی موٹرویز کا نقشہ کھول کر دیکھیں اک تو صرف تیس تیس چالیس کلومیٹر کے فاصلے سے دو دو موٹر ویز بنائی گئی ہیں اور اربوں روپے جھونکنے کے بعد بھی وہ جزوی طور پہ سرگودھا کے علاوہ کسی اور شہر کو فائدہ نہیں دے رہیں ۔اربوں روپے لگا کر یہ موٹر ویز اس لیے بنائی گئیں تاکہ ہم لوگ کار پہ تیز ترین سفر کر سکیں آپ کو ان کے ارد گرد کوئی صنعت کوئی صنعتی یونٹ نہیں ملے گا۔

سی پیک بننا شروع ہوا تخت پنجاب نے گوادر سے اسلام آباد کا راستہ لاہور سے ہو کر بنا لیا ،سرائیکی وسیب میں موٹر وے نہیں شامل کی جو سب سے کم فاصلہ رکھتی ہے۔

نہری نظام دیکھ لیں گریٹر تھل کینال بند کھچی کینال بند کالاباغ ڈیم متنازع اور لیڈر اس کی جو وجہ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بجلی بنا کر ساری پاور تو پانی سے نکال لیں گے ہمیں تو بِنا طاقت والا پانی ملے گا۔

کوئی یقین کرے گا کہ  یہ اکیسویں صدی کا لیڈر ہے۔آپ کی نا اہلی کی وجہ سے سالانہ 1600 ارب روپے کا میٹھا پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے یہ صرف پانی کی قیمت ہے اگر تھل کینال کھچی کینال وغیرہ بن جائیں اور یہ 1600 ارب روپے کا پانی ان علاقوں کو مل جائے تو لاکھوں ایکڑ رقبہ قابل کاشت بن جائے گا اور اس سے زراعت کو کتنا بوسٹ ملے گا آپ سالانہ سینکڑوں ارب روپے کمائیں گے لیکن یہ سوچنے والا کوئی نہیں۔

اس ملک کو چلانے والے سب کے سب دہری شہریت رکھتے ہیں ان کے بچے باہر کی یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں یہ ریٹائر ہو کر یہاں سے باہر نکل لیتے ہیں جس کا جتنا بس چلتا ہے ہمیں لوٹتا ہے سرمایہ باہر منتقل کرتا ہے معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

کرنل ہو ،ڈی پی او ہو، سیکرٹری ہو یا پھر سیاستدان یہ انگریزوں کی نئی شکل ہیں پاکستان کو کالونی سمجھ کر لوٹ لوٹ کر باہر جا رہے ہیں۔

پاکستان کو صنعتوں کی اشد ضرورت ہے مگر بے نظیر انکم سپورٹ والے پیسے سے نہیں کیونکہ یہ پیسہ صرف غریب خواتین کے لیے آتا ہے اگر آپ نے یہ پروگرام بند کر دیا تو حکومت کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آنا۔اس پیسے کی وجہ سے غریب خواتین اب اپنے بچوں کو سکول بھیج رہی ہیں کہ ان کے بچوں کو اس پروگرام کے تحت پیسے ملتے ہیں۔

اس پیسے سے  خواتین مرغیاں پالتی ہیں بکریاں پالتی ہیں دیہاتی خواتین کی اک چھوٹی سی اکانومی ہے جو اس پیسے سے چل رہی ہے اور یہ واحد ایسا پروگرام ہے جس سے غریب کو ڈائریکٹ کچھ مل پا رہا ہے۔اور کچھ لوگ اسے بھیک کہہ رہے ہیں یہ بھیک ہرگز نہیں فلاحی ریاستیں عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔فلاحی ریاستیں مکان خوراک کرائے علاج کی مد میں بہت کچھ اپنے افراد کو دیتی ہیں یہ ان کو بھکاری نہیں بناتی بلکہ ریاست اپنا فرض پورا کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستانی ریاست نے غربا کو آج تک مہنگائی کے علاوہ کیا دیا ہے؟ ایسے میں یہ چند ہزار کسی کی بیٹی کی بالیاں بنا دیتے ہیں کسی کے عید کے کپڑے آ جاتے ہیں کسی کا ادھار اتر جاتا ہے کسی کا علاج ہو جاتا ہے۔غریبوں سے یہ واحد نعمت مت چھینیں صنعتیں لگائیں ہنگامی بنیادوں پہ لگائیں۔خصوصاً چھوٹی صنعتوں پہ توجہ دیں گھر گھر میں پیداواری یونٹ لگے ہوں کوئی گھر جوتے بنا رہا ہو، کوئی گھر شاپر بنا رہا ہو ،کوئی پلاسٹک کے برتن بنا رہا ہو، کوئی پلاسٹک کی بوتلیں بنا رہا ہو اور کسی گھر سے ڈسپوزیبل برتن بن رہے ہوں ۔یہ چھوٹی صنعتیں ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں کردار ادا کریں اور پاکستان امپورٹ سے جان چھڑائے جب تک ہماری درآمدات زیادہ رہیں گی ہم قرض بھی لیں گے غریب بھی رہیں گے۔جب ہم دنیا سے چیزیں خریدنے کی بجائے بیچیں گے تب کم خوشحال ہوں گے تب ہی ترقی کر پائیں گے۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply