بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو گلے لگا نا چاہتی ہے۔۔ابھے کمار

کیا بی جے پی مسلمانوں کی صفوں میں سیندھ لگانے جا رہی ہے؟ آج کل اس موضوع پر میڈیا میں خوب بحث چل رہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا ایسا ماحول بنا رہا ہے گویا بی جے پی راتوں رات پسماندہ مسلمانوں کی سب سے بڑی خیر خواہ پارٹی بن گئی ہے اور پسماندہ مسلمان ان کی طرف تیزی سے دوڑنے لگے ہیں۔ پسماندہ طبقات سے جڑے ہوئے ایک قلم کار نے گزشتہ دنوں ہندی کے ایک بڑے اخبار میں لکھتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ“اب جب کہ وزیر اعظم نے پسماندہ مسلمانوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے تب پھر اس سماج کے لیے بھی یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ بھی اپنا ہاتھ بڑھائے”۔ کیا یہ مصنف کی انفرادی رائے ہے یا پھر وہ اپنی جماعت کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

بات کچھ یوں ہے کہ جولائی کے شروعاتی ہفتے میں بی جے پی عاملہ کا دو روزہ اجلاس حیدرآباد میں منعقد ہوا، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے کارکنان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر ہندو سماج کے محکوم طبقات کے بیچ جائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکار کی غریب حامی پالیسی کا فائدہ تمام محکوم طبقات کو ملا ہے ۔ راشن ،  سوئی گیس ، سرکاری مکان اور دیگر اسکیم سے سب مستفید ہوئے ہیں۔ لہٰذا پارٹی کو پسماندہ مسلمانوں کو جوڑنے کے لیے قدم بڑھانا چاہیے ۔حالانکہ مودی نے پسماندہ مسلمانوں کو جوڑنے کی بات خود پریس کے سامنے آ کر نہیں کی ہے اور نہ ہی انہوں نے اس متعلق کوئی ٹویٹ کیا ہے، جیسا کہ وہ اکثر دیگر مسائل پر کرتے ہیں۔ نہ ہی انہوں نے پسماندہ مسلمان کانام کسی ریلی کے دوران پُکارا ہے، جیسا کہ وہ دلت، آدی واسی، پچھڑا ، غریب کا نام اکثر لیتے رہتے ہیں ۔

پسماندہ اصطلاح منڈل سیاست کےعروج کے بعد کافی مقبول ہوئی۔ چونکہ بھارت میں مسلمان مذہبی اقلیت ہیں ، اس لیے ان کو “مونولتھ “سمجھنے کی غلطی کی جا تی ہے ۔ مسلمانوں کو” ایک سنگی” سمجھنے کی غلطی روایتی مسلم قائدین اور فرقہ پرست دونوں کرتے ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر   بھی ذات، طبقہ ، جنس، علاقہ، مکتب فکر اور مسلک کی بنیاد پر فرق پایا جاتا ہے

میرے حافظے کے مطابق  انہوں نے کسی بھی عوامی ریلی سے پسماندہ مسلمانوں کے دُکھ درد پر نہ ہی کبھی دو آنسو بہائے ہیں اورنہ ہی ان کی ترقی کی بات کسی بڑے جلسے  سے کی ہے۔پسماندہ مسلمانوں کے مسائل اور ان کی ترقی کے بارے میں بھی بی جے پی کا انتخابی منشور خاموش ہے، پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ اچانک سے وزیر اعظم کو پسماندہ مسلمانوں کی فکر کیسے ستانےلگی؟ مگر اُتر پریس بی جے پی اقلیت مورچہ نے وزیر اعظم کی نصیحت پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ میڈیا کو جانکاری دیتے ہوئے مورچہ نے کہا ہے کہ وہ پسماندہ مسلمانوں کے بیچ اپنے دائرےکو بڑھانے کے لیے بہت سارے منصوبہ بنارہے ہیں۔مثلاً، وہ پسماندہ مسلمانوں کے مابین جا کر یہ بتلانا چاہتا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسی کا فائدہ تمام کمزور طبقات کو ملا ہے، جن میں وہ بھی شامل ہیں۔ وہ پسماندہ مسلمانوں کو یہ بھی یقین دلانا چاہتا ہے کہ پارٹی کے اندر انہیں مزید نمائندگی دی جائے گی۔مورچہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پارٹی کی اقلیت یونٹ میں پسماندہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نمائدگی دی گئی ہے۔علاوہ ازیں ، مورچہ ۱۹۶۵ کی جنگ کے دوران پاکستان کے خلاف عظیم بہادری کا مظاہرہ کرنےو الے اور “پَرم ویر چَکر اَوارڈ” سے نوازےگئے عبدالحمید کا یوم ولادت منانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ویر عبدالحمید کا تعلق مسلمانوں کی ایک پسماندہ ذات ادرسی سے ہے۔

پسماندہ مسلمان کون ہیں؟ پسماندہ مسلمان اپنے سماج کے حاشیہ پرزندگی گزر بسر کرنے والےلوگ ہیں، جن کی آبادی مسلمانوں کی کُل آبادی کی اکثریت ہے۔ دلت، آدی واسی، بیک ورڈ مسلمان پسماندہ مسلمان کہے جاتے ہیں۔ پسماندہ اصطلاح منڈل سیاست کےعروج کے بعد کافی مقبول ہوئی۔ چونکہ بھارت میں مسلمان مذہبی اقلیت ہیں ، اس لیے ان کو “مونولتھ “سمجھنے کی غلطی کی جا تی ہے ۔ مسلمانوں کو” ایک سنگی” سمجھنے کی غلطی روایتی مسلم قائدین اور فرقہ پرست دونوں کرتے ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر   بھی ذات، طبقہ ، جنس، علاقہ، مکتب فکر اور مسلک کی بنیاد پر فرق پایا جاتا ہے۔

ہندوستانی سماج کی اہم تلخ حقیقت ذات پات پر مبنی غیر برابری معاشرہ ہے،جہاں اعلیٰ ذات کے مٹھی بھر لوگ دلت، آدی واسی، بیک ورڈ سماج کے لوگوں کے اوپر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پسماندہ مسلمان وہ لوگ ہے جو ذات پات کی عدم مساوات سے نجات پانے کے لیے اسلام کو قبول کیا، مگر مسلم سماج کے اشراف نے انہیں برابری کا درجہ نہیں دیا۔ قساب، چُڑی ہار، دھوبی، نَٹ، مَداری، مہتر، میریاسین، میرشکار، انصاری، رنگریز، رائین، ادرسی یا درزی، سائی جیسی ذاتیں پسماندہ مسلمان ہیں،منڈل کمیشن نے پسماندہ سماج کی درجنوں ذاتوں کو او بی سی ریزرویشن کے زمرے  میں شامل کر ایک انقلابی کام انجام دیا ہےپسماندہ ذاتوں میں میں انصاری کی بڑی آبادی بہار ، جھارکھنڈ اور اترپریدیش میں پائی جاتی ہے۔ اتر پردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے انصاری سماج سے آنے والے دانش آزاد انصاری کو وزیر مملکت بنایا تھا تاکہ انصاری سماج اوردیگر پسماندہ جماعتیں بی جے پی کی طرف راغب ہوں۔ ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کو دیکھ کر انہیں مزید لبھانے کے لیے بھاجپا کوشش کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ پہلے بھی پسماندہ مسلمانوں کو بی جے پی میں جوڑنے کی بات اُٹھی تھی۔ سال ۲۰۱۷ میں بھی شمالی بہار کے ایک بی جے لیڈر نے دہلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم میں مسلمانوں کی ایک ریلی منعقد کی ، جس میں بی جے پی کے بڑےمسلم چہرے مختار عباس نقوی کو بھی بلایا گیا تھا۔ اس ریلی میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنےکےلیے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بیک ورڈ کمیشن کو آئینی درجہ ملنے کے بعد انہیں مزید حقوق فراہم کیے جائیں گئے۔ مگر یہ وعدہ ابھی بھی وعدہ ہی ہے ۔

تین طلاق کے خلاف قانون پاس کرانے کے بعد بی جے پی نے میڈیا کی مدد سے بڑی مہم چلائی تھی کہ مسلم خواتین بی جے پی کو ووٹ کر رہی ہیں۔مگر اس بات کے کوئی پختہ ثبو ت پیش نہیں کیے گئے۔ تضاد دیکھیے کہ جب پسماندہ مسلمانوں کو جوڑنےکے لیے یوپی بی جے پی اقلیت مورچہ کام کرنے کا من بنا رہی ہے، اسی وقت ٹویٹر پر فرقہ وارانہ مہم چل رہی تھی کہ پنچر بنانے والے مسلمان کبھی غیر مسلموں کے دوست نہیں ہو سکتے ہیں! اگر بی جے پی واقعی پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف لانے کو سنجیدہ ہے تو وہ انہیں پارٹی کا ٹکٹ کیوں  نہیں دیتی؟

Advertisements
julia rana solicitors

آج بی جےپی کے پاس پارلیمنٹ میں بڑی اکثریت ہے،مگر اس کی پارٹی میں ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے۔ آخر وہ پسماندہ مسلمانوں کو ہی ایم پی کیوں نہیں بنا دیتی؟ سوال یہ بھی تو ہے کہ وہ کیسے وہ ہندو نسل پرمبنی اور اقلیت مخالف قومیت کے نظریہ کواپنائے ہوئے مساوات کی بات کر سکتی ہے؟ کیا وہ پسماندہ مسلمانوں کو بھی ہندوٴں کی طرح سچا الوطنی مانتی ہے؟ کیا بی جے پی دلت مسلمان اور دلت عیسائی کو ایس سی زمرےمیں شامل کرنے کو تیار ہے؟کیا فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آنے والے پسماندہ مسلمانوں کو انصاف ملے گا؟ کیا دہشت گردی اور نام نہاد ملک مخالف سرگرمیوں میں قید کیے گئے پسماندہ مسلمانوں جیل سے رہا ہوں گے ؟ لو جہاد، سی اے اے مخالف تحریک اور اہانت رسول کے معاملے میں ہزاروں کی تعداد میں پسماندہ مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا ہے، ان کو قید کیا گیا ہے، ان سے جرمانہ لیا گیا ہے اور ان میں سے بہت کے گھروں کو توڑا گیا ہے، کیا سب کو انصاف ملے گا؟ کیا ملک میں خوف کا ماحول کو ختم کیا جائے گا؟ پسماندہ مسلمانوں کے مفاد کو دھیان میں رکھنے ہوئے نجی کاری کی پالیسی روکی جائے گی؟ کیا بی جے پی کی سرکار ان سے اس بات کی ضمانت دے گی کہاب سے پسماندہ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت ہر صورت میں کی جائے گی؟ پسماندہ مسلمانوں کی ایک اہم مطالعہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا ہے ۔ کیا بی جے پی مردم شماری کرانے کو تیار ہے؟ مدرسہ پر ہو رہے حملے اور مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی مذموم مہم کو روکنے کے لیے کیا سخت قدم اٹھائے گی ؟ بھلا ان سوالوں کا جواب دیے بغیر بی جے پی اور پسماندہ جماعت کی دوستی کیسےپکی ہو سکتی ہے؟ سوالات کے گھیرے میں صرف بھاجپا ہی نہیں بلکہ مسلم سماج کی سیکولر قیادت ہے، جن سے بھی یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کب تو وہ پسماندہ مسلمانوں کی حق ماری کرتی رہے گی؟ 

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply