عمران خان کا مخمصہ/محمد منیب خان

بہت تکلیف دہ مناظر ہیں۔ ہر چند گھنٹوں بعد پاکستان کے کسی نہ کسی بڑے شہر کے پریس کلب میں کوئی نہ کوئی سیاسی چہرہ نمودار ہوتا ہے اور تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتا ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں۔

یہ بات درست ہے لوگ لیڈر سے زیادہ نظریے سے جذباتی اور قلبی لگاؤ رکھتے ہیں لیکن عمران خان نے کرپشن کے خلاف اپنا پورابیانیہ رکھنے کے باجود اپنی سیاسی جماعت کو نظریے سے زیادہ اپنی ذات اور کرشماتی شخصیت کے گرد رکھا۔ پچھلے والےحکمران  غلط تھے وہ پروٹوکول لے کر قوم کا  پیسہ برباد کرتے تھے ،خان صاحب نے پروٹوکول لیا کیونکہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔پچھلے والے سب حکمران بیرون ملک دوروں پہ قوم کا پیسہ ضائع کرتے رہے جبکہ خان صاحب نے سب دوروں میں ملک اور قوم کا نا م روشن کیا اور پاکستان کی  عزت بڑھائی۔ پچھلے حکمرانوں کے کھانے ہیلی کاپٹر میں جاتے تھے جبکہ خان صاحب آئے روز بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس ہیلی کاپٹر پہ جانے لگے ،تاکہ قیمتی وقت بچا کر زیادہ کام کیا جا سکے۔ اور تو اور حکومت سے نکلنے کے بعد بھی خیبر پختونخوا کا ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے اور اسمبلیاں توڑنے سے پہلے  دسمبر 2022 میں ہیلی کاپٹر کے استعمال کا بل بھی اسمبلی سے منظور کروا لیا گیا۔ تاکہ کسی غیر حکومتی رکن کے استعمال کرنے کی وجہ سے احتساب نہ ہو سکے۔ پچھلے حکمران غلط تھے کہ وہ توشہ خانہ کو باپ کا مال سمجھتے تھے، اونے پونے چیزیں خرید کر گھر لے جاتے تھے البتہ خان صاحب نے جوتحائف بیچے وہ ان کی ملکیت تھے اور انہوں نے توشہ خانہ کے قانون کے مطابق وہ تحائف خریدے تھے۔ پچھلے حکمران غلط تھے کہ وہ منی لانڈرنگ سے پیسے باہر بھیجتے تھے البتہ جب خان صاحب کو موقع ملا کہ باہر سے پاکستان کا پیسہ واپس ملے تو انہوں نےخود کابینہ سے اس پیسے کو ایک اور جرمانے میں ایڈجسٹ کروانے کی منظوری لی۔

پچھلے والے حکمران غلط تھے اس لیے فوج کی ان سے نہیں بنتی تھی لیکن عمران خان کی رخصت پہ پتہ چلا کہ فوج ہی غلط ہے،  یہ  نہیں ہیں ۔عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں جلسہ کرتے ہوئے بتایا کہ انکی حکومت کے خلاف بیرون ملک سے سازش ہوئی ہے اس سازش کی وجہ سے اس وقت کے ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا اور پوری اپوزیشن کو بیرونی ایجنڈے کا آلہ کار بتا کر اسمبلی توڑ دی۔ البتہ اگلے ماہ میں پتہ چلا کہ وہ بیرونی سازش امریکہ نے کی تھی اور اس سے اگلے ماہ میں پتہ چلا کہ سازش تو فوج نے کی تھی۔ اور اگر نہیں بھی کی تھی تو وہ سازش کو روک تو سکتے تھے اور ابھی دس روز قبل امریکہ کوخان صاحب کی وساطت سے یہ پتہ چلا کہ اصل سازش تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے کی تھی۔ یعنی تقریباً تیرہ مہینوں بعد امریکہ معصوم عن الخطا نکلا۔

عمران خان کے وہ سب بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں وہ بارہا بتاتے رہے کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو اس کے بُرے نتائج ہوں گے۔ کئی روز تک ٹوئیٹر پہعمران خان ہماری ریڈ لائن ہےکا ٹرینڈ ٹاپ پہ رہا۔ اس سب کے باجود خان صاحب کے پاس اچھا موقع تھا وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے اور اپنے کارکنوں کے لیے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، خان صاحب نے اس واقعہ کی مذمت کرنا مناسب نہیں سمجھا، کارکنان کو own نہیں کیا۔ شاید وہ کسی طرح سمجھتے ہوں کہ یہ جماعت کی قیادت اور کارکنان پہ ان کا حق ہے۔  اس لیے اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ حیران کن نہیں۔ یہ مناظر بارہا دیکھے گئےہیں۔

70,72 سال کی تاریخ کو چھوڑیں، گذشتہ  22  سال کی سیاست پہ نظر دوڑائیں، 1999 کے بعد مسلم لیگ ق کا ظہور مسلم لیگ  ن کے بطن سے ہوا، جبکہ پیپلزپارٹی سے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ نکالی گئی۔ مشرف کی رخصتی ہوئی تو بہت سے پنچھی اڑان بھر گئے۔نواز شریف بار ہا کہہ چکے تھے کہ مشکل وقت میں پارٹی چھوڑنے والوں کو واپس نہیں لیا جائے گا لیکن سیاست کے زمینی حقائق ا ن دعوؤں کے بر خلاف حالات بنا دیتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں واپس چلے گئے۔ پھر 2011 میں بقول ظہیر اسلام جب تیسری قوت بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اگلے چند سال میں ان پنچھیوں کا بسیرا تحریک انصاف کی جماعت رہی۔ اس دوران پیپلز پارٹی کو میمو گیٹ اور اس کے بعد نواز شریف کو ڈان لیکس کے ذریعے ملک دشمن بتایا جانے لگا۔ اور تحریک انصاف کاسارا بیانیہ ہی اس بات پہ بنا کہ عمران خان باقی سب سے بہتر ہے۔

بظاہر تو تحریک انصاف کے پاس نظریہ تھا لیکن انہوں نے اس نظریے پہ سنجیدگی سے عملدرآمد کی بجائے اس بات پہ تکیہ کرنابہتر سمجھا کہ عمران خان واحد چوائس ہیں اور ہینڈسم ہیں۔ یہ سب سوچ راتوں رات پروان نہیں چڑھی البتہ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف اور عمران خان کسی بھی قسم کی کارکردگی دکھانے کے دباؤ سے آزاد  رہے۔بدترین حکومتی کاکردگی  کے باوجودعمران خان نے حکومت سے رخصت ہونے کے بعد ایک سال میں اپنے بیانیے کو اس قدر مضبوط بنا لیا تھا کہ وہ خود کو اس نظام سےبھی بڑا سمجھنے لگے گئے تھے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کی بھی اسٹبلشمنٹ کے روپ میں ڈھل رہے تھے۔ لیکن مئی کے انتشار نے عمران خان  کے اپنے  وجود کو نقصان پہنچا دیا۔

چند ایک کے سِوا جو لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ روائتی طور پر چھوڑ کر جانے والے تھے۔ کچھ ایسے تھے جو جیل کی صعوبتیں نہیں برداشت کر سکتے، وہ ہنس کر اعتراف کر رہے ہیں کہ اڈیالہ میں گرمی کا دن کاٹنا مشکل ہے۔ کچھ چھوڑ کر جانے والوں پہ حیرت ہے کہ یہ لوگ جماعت بنانے والوں میں شامل تھے اتنی جلدی کیوں  بدل گئے؟ ان کے بارے میں افواہوں کے بازار گرم ہیں۔ کونسی بات سچ ہے یہ وقت آنے پہ پتہ چلے گا۔ لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ انقلاب کا راستہ آسان نہیں ہوتا؟ عمران خان نے 17 دن بعدکہا ہے کہ میں مذاکرات کرنے کو تیار ہوں۔ کاش یہ الفاظ عمران خان نے جولائی 2018میں کہے ہوتے۔ جب ان کے پاس اقتدار بھی تھااور اقتدار کی روایات کو درست کرنے کا موقع بھی۔ لیکن اس وقت تو انہیں مخالفین کو رُلانا تھا۔ اب ایسے وقت میں جب  ان کی نامزدکردہ مذاکراتی کمیٹی کے ممبران تک کا اتہ پتہ معلوم نہیں، مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کرنا بے وقت کی راگنی ہے۔

عمران خان کا مخمصہ محض یہ ہے کہ وہ دامے درمے سخنے دوبارہ اقتدار کا حصول چاہتے ہیں۔ انکی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ  اپنی سیاسی شکست کو کبھی باوقار انداز میں قبول نہیں کر سکے۔ 2013 کے انتخابات میں شکست ہوئی تو پاکستان کو 126 دن کا دھرنا بھگتنا پڑا۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں شکست سامنے نظر آئی تو عملہ ہی دھند میں غائب ہو گیا۔ قومی اسمبلی میں عد م اعتماد کامیاب ہوتی نظر آئی  تو اسمبلی توڑ کر گھر چلے گئے۔ اس کے باجود جب جلد جنرل انتخابات کی کوئی اُمید نظر نہ آئی توصوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے سسٹم کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان کا مخمصہ اقتدار ہے ان کو آج اقتدار کے  سنگھاسن پہ بٹھا دیا جائے تو وہ جنرل عاصم منیر کی ویسے ہی تعریفیں کریں گے جیسی وہ جنرل باجوہ کی کیا کرتے تھے۔نوید عباس کی ایک خوبصورت غزل۔

غلط کہا ہے کسی نے ہوا منافق ہے

ہمارے شہر کا ہر اک دِیا منافق ہے

جسے سمجھتا رہا میں خلوص کا پیکر

وہ کائنات کا سب سے بڑا منافق ہے

تجھے سمجھنا مری دسترس سے باہر ہے

تو  اپنی طرز کا بالکل  نیا  منافق  ہے

میں اس لیے تو پلٹ کر کبھی نہیں آیا

مجھے خبر تھی کہ تیری صدا منافق ہے

تمھارے دوست سے پوچھا تمھارے بارے میں

بس ایک  لفظ ہی اس نے کہا،منافق ہے

دلوں سے نکلی دعائیں قبول ہوتی ہیں

فقط زبان سے نکلی دعا منافق ہے

نوید میں نے اسے ہر طرح سے پرکھا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ہر حوالے سے بے انتہا منافق ہے!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply