حافظ صاحب یہ ریاستی جبر اور ناانصافی ہے /گُل بخشالوی

نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے کٹر مخالف تھے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف صدائے حق کے جرم میں جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے ان کو مختلف جرائم جیسے توڑ پھوڑ، سول نافرمانی، نقض ِامن اور دوسرے جرائم کی پاداش میں قید ِ با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران میں لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔ یہ جزیرہ جنوبی افریقہ میں گوروں کی آبادی کا مخصوص شہر کیپ ٹاؤن کے   ساحل ِ سمندر سے کچھ فاصلے  پر ہے، جہاں دو سمندروں کا پانی دو رنگوں میں تقسیم ہے، یہ جزیرہ میں نے قریب سے دیکھا ہے۔

جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا نے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔ اور طاقت کا سرچشمہ عوام نے انتخابات میں نیلسن منڈیلا  کو تخت اقتدار پر بٹھایا تو انہوں نے خود پر اور اپنی قوم پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والو ں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ، اور جنوبی افریقہ میں فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ،آج نیلسن منڈیلا اس جہان میں نہیں لیکن جنوبی افریقہ اور تمام دنیا میں ایک تحریک کے  نام سے تابندہ ہے !

کھاریاں کے میجر آفتاب احمد آرمی چیف حافظ عاصم منیر سے کہہ رہے ہیں حافظ صاحب قدم بڑھائیں ، پاکستان میں عام معافی کی تاریخ دہرائیں ،معاف کر دیں  قوم کے ان بچوں کو جنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ،اگر کیا بھی ہے تو نظر انداز کر دیں ، غصے میں گھر کے برتن توڑنے والے بچوں کو والدین عقوبت خانوں میں ڈال کر سزا نہیں دیتے ، ان کی اصلا ح کرتے ہیں ، حافظ صاحب سرور کائنات کی غلامی میں نیلسن منڈیلا  کی صورت عام معافی کی تاریخ رقم کر دیں۔

جناب عاصم منیر صاحب یزید پرستوں کی سہولت کاری میں مذہبی اور منصبی عظمت داؤ پر نہ لگائیں ، تحریک ِ انصاف کو چھوڑنے والوں کے عمل پر خوشیاں منانے والے راکھ میں چنگاریاں دبا رہے ہیں۔ خدا نخواستہ بھڑک اُٹھیں تو انجام دیس اور دیس والوں کے لئے انتہائی افسوس ناک ہو گا ، مغرب پرستوں کا زور کمزوروں  پر  تو چل سکتا ہے مگر غیب کو جاننے والے کے حضور کسی کا زور نہیں چل سکتا ، مظلوم کا دل دکھانے سے ممکن ہے کسی ایک کی آہ فلک پر جا پہنچے ، اگر عمران خان کا خوا ب مدینہ ثانی دیکھنا جرم ہے تو بہتر ہو گا کہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں ۔ عمران خان کا بھی یہ ہی مطالبہ ہے ، لیکن اگر عام انتخابات کے لئے فضا ساز گار نہیں تو سول مارشل لاءکا نقاب اُتار دیں ۔ موجودہ نا گفتہ بہ  حالات میں بے نقاب مارشل لاءپاکستان کی عوام کو قبول کر لیں گے لیکن خدا را پاکستان کو مغرب پرستوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں ۔

پاکستان میں جیلیں درس گاہ ہیں اور نہ تربیت گا ہیں ، معاشرے کے خوبصورت لوگ خاص کر نوجو ان کسی ارادی یا غیر ارادی جرم میں جیل جائیں گے تو آرمی کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا پاکستانیوں کو ناکردہ جرائم میں قید رکھیں گے تو جیل سے وہ مجرم بن کر نکلیں گے ۔ریاست کے نوجوانوں کی اصلاح کریں انھیں دہشت گرد نہ بنائیں۔حافظ صاحب پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما عدالتوں سے رہائی ملنے کے بعد پارٹی چھوڑنے سے متعلق پریس کانفرنس کر کے گھر چلے جاتے ہیں مگر پارٹی کے عام کارکنان کے لیے یہ رعایت کیوں نہیں ہے۔ ؟یہ ظلم کے مترادف ہے، یہ عام اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کارکنوں سے سراسرزیادتی ہے۔

ایک روپوش نوجو ان سوشل میڈیا  پر لکھتا ہے “میں پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یا فتہ شہری  ہوں، میں تو تباہ ہو گیا ہوں ۔ میرا فون بند ہے، روز جگہ بدلنی پڑتی ہے، دوست دروازے پر دیکھ کر کہتے ہیں کہ گھر مہمان ہیں پھر آنا ۔ ہر روز گھر پر دو تین مرتبہ پولیس ریڈ کر رہی ہے۔ بڑی مشکل سے والدہ سے بات ہوتی ہے”۔

ایک وکیل صاحب لکھتے ہیں” اگر 9  مئی کے پُرتشدد واقعات کی سنگینی اور حساسیت اتنی زیادہ ہے تو سب کو آئین و قانون کے تحت کٹہرے میں لانا چاہیے۔ ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے کہ جو پریس کانفرنس میں پارٹی سے علیحدہ ہو جائے، ان کے سب داغ دھل جاتے ہیں، رہائی ہو جاتی ہے۔ انصاف کا معیار پریس کانفرنس کب سے ہو گیا۔”

Advertisements
julia rana solicitors

حافظ صاحب یہ ریاستی جبر اور ناانصافی ہے یہ ریاستی جبر تحریک انصاف کے خلاف نہیں بلکہ لگتا ہے انصاف کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply