بھارت کا ایجنٹ  بلتستان کے احتجاجی عوام یا ۔۔محمد حسین

پاکستان کے غیر آئینی صوبے کے وزیر اعلیٰ جناب حافظ حفیظ الرحمٰن نے گلگت بلتستان میں کئی  مہینوں سے  آئینی حقوق کے بغیر عائد کیے گئے ٹیکسوں کے خلاف جاری احتجاج کرنے والے عوام اور گزشتہ دس دنوں سے کم وبیش  منفی دس سے پندرہ ڈگری میں جاری  کھلے آسمان ہزاروں لوگوں کے شٹر ڈاون ہڑتال کے حوالے سے اسلام آباد میں  پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا  ہے کہ سکردو میں ایک  خاص مسلک کی اکثریت کی وجہ سے شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی ہے اور ان احتجاجی مظاہروں  کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سازش قرار دیتے ہوئے مظاہرین پر بھارت سے فنڈز لینے کا الزام عائد کیا ہے۔  اس حوالے سے بلتستان بھر میں شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور لوگوں غم و غصہ بڑھتا جا  رہا ہے۔سلسلہ ہمالیہ اور سلسلہ قراقرم کی وادیوں میں آباد چار اضلاع پر مشتمل   بلتستان کے باشندہ  ہونے اور مذکورہ بیان پر  دل دُکھنے پر  ہم  بھی اس حوالے سے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:

پاکستان میں بلتستان شاید وہ واحد علاقہ ہے جہاں آج تک مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر کسی ایک شخص کا بھی خون نہیں گرا۔ جبکہ پاکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں سو سے زاید افراد کی لاشیں بھیجی گئیں جنہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر شناخت کر کے مارا گیا۔ کتنی مرتبہ راستے میں مسافروں کو شنا ختی کارڈ چیک کر کے مارا گیا مگر کسی قسم کے مسلکی ردعمل میں بلتستان میں ایک پتہ تک نہیں ٹوٹا۔

Image may contain: text

No automatic alt text available.

جبکہ مختلف ملکی سرحدوں اور اندرون ملک مختلف شہروں/ علاقوں میں ملک کی تزویراتی گہرائی کی پروردہ دہشت گردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جان دینے والوں کا تناسب نکالا جائے تو آرمی خصوصاً  این ایل آئی رجمنٹ، پولیس، رینجرز، جی بی سکاؤٹس  کے افسروں اور جوانوں کی شہدا میں سے تعدا د  سب سے زیادہ بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔   صرف جنگی محاذوں  اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنوں   کے دوران شہید ہونے والے شہدا کی مجموعی تعداد تقریباً  پانچ سو ہے۔ بلتستان کے چند  بڑے  نام جن کو  ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ چند سالوں کے دوران  نشانہ بنا کر شہید کیا گیا ہے  ان میں    معروف سیاسی رہنما بیرسٹر  شہید سید اسد شاہ زیدی  سابق سپیکر جی بی سمبلی (گلگت )، شہید علامہ حسن ترابی  مرکزی رہنما متحدہ مجلس عمل، (کراچی)،  پروفیسر  شہید دانش استاد بلوجستان یونی ورسٹی (کوئٹہ)، شہید  اشرف نو ر اے آئی جی (پشاور)     کے نام سر فہرست  ہیں۔

اسی لیے بلتستان کا چپہ چپہ ایسے قبروں سے بھرا ہوا ہے جن میں شہداء کا   جسدِ  خاکی ہو نہ ہو مگر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا۔ ہر طرح اور ہرطرف سے نظر انداز کیے جانے اور آئینی حیثیت و حقوق سے محروم بلتستان کے بوڑھے والدین اپنے پیاروں کے خون کس کے ہاتھ تلاش کریں اگر وہ خود اپنے لخت جگروں کے خون کا سودا کر کے بھارت کے ایجنٹ بنے ہوں اور  اس سے سے فنڈز لیتے ہوں۔

قوموں کی تاریخ میں  متحد و متحرک عوام کو تقسیم کر کے اپنی حکومتوں کو طول دینا ایک معمول رہا ہے۔ لڑاؤ  اور حکومت کرو کی پالیسی خاص طور پر فرقہ وارانہ  اور علاقائی و نسلی بنیادوں پر گلگت بلتستان  کے عوام  تقسیم کرنے کی سازش نئی نہیں ہے۔ ماضی  میں  علاقے کے درجنوں چمکتے اور ابھرتے ستارے اسی آگ و خون کی نذر ہو چکے ہیں۔

بلتستان کے لوگوں کو کسی مسلک سے کوئی پریشانی ہوتی تو وہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے اور علاقے کے اکثریتی مسلک سے وابستہ سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، گندم سبسڈی کے خاتمے کے اوپر انہیں شدید عوامی احتجاج کے دباؤ  پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کرتے۔ان کے دور حکومت میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد ان کے خلاف ملک بھر میں بلتستان کے لوگ احتجاج کر کے استعفی نہ مانگتے۔

اگر بلتستان میں فرقہ وارانہ منافرت ہوتی تو بلتستان میں رہنے والے شیعہ اثنا عشری، نوربخشی، اسماعیلی، اہل سنت، اہل حدیث مسالک کے لوگوں کو ایک دوسرے سے کسی قسم کی سماجی تفریق یا منافرت یا امتیازی سلوک کی شکایتیں ہوتیں۔ وہ تو احتجاج میں صف اول میں شانہ بہ شانہ بلاتفریق مسلک شامل ہیں۔ نیز  بلتستان  والوں میں اگر نسلی یا علاقائی  تعصب  بھرا ہوا ہوتا تو  بلتستان کے چاروں اضلاع خاص طور پر سکردو شہر میں    مقیم    گلگتی، ہنزائی، غذری، کوہستانی، پٹھان، پنجابی اور  علاقے کے دیگر اضلاع سے آئے ہوئے سینکڑوں لوگ  یہاں کی  کاروباری سرگرمیوں میں پیش پیش نہ ہوتے۔  ظاہر ہے کہ  ان سب  کے عمومی مسالک مختلف ہوتے ہیں مگر وہ محفوظ، مطمئن اور خوش اس قدر ہیں کہ اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر یہاں مستقل آباد ہوئے ہیں۔  بلتستان کا سماجی تنوع ہی اس بات کا سب سے بڑا گواہ ہے کہ  یہاں مذہبی، نسلی اور علاقائی منافرت و تعصب  کی فضا نہیں ہے۔

بلتستان کے عوام اگر فرقے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے تو الیکشن پر کروڑوں خرچ کرنے والی مجلس وحدت مسلمین یا اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار جیتتے، مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے نمائندے نہیں۔

بلتستان کے لوگ اگر فرقے کی بنیاد پر سیاست کرتے تو “عوامی ایکشن کمیٹی” کے چیئرمین مولانا حافظ سلطان رئیس صاحب کی سربراہی کے بجائے کسی ہم مسلک مذہبی رہنما کو سرابرہی سونپنے کی ضد کرتے۔

راء کے  ایجنٹ وہ ہیں  جو سینکڑوں پاکستانیوں کو قتل کروانے والے بھارتی دہشت گرد “کلبوشن یادو” اور ٹی ٹی پی کے احسان اللہ احسان اور عصمت اللہ معاویہ کے لیے تو “انسانی بنیادوں” پر نرم گوشہ رکھتے ہیں، ان کی ملاقاتیں کرواتے ہیں، ان کے ذرائع ابلاغ پر انٹرویوز کرواتے ہیں، انہیں ریاستی مہمان بنا کر رکھتے ہیں مگر  معرکہ  آزادی کے بعد سن پینسٹھ ،  اکہتر  اور اٹھانوے کی جنگوں کے دوران بلتستان کے چھوربٹ، کھرمنگ اور گلتری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مہاجرین جو آج بھی بے گھر ہو کر درد بدر پھر رہے رہیں ان کو پوچھنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔

راء کے ایجنٹ وہ ہیں جو علاقے کے متحد عوام کو مسلک اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم بھی کر رہے ہیں اور عوامی نمائندہ کی حیثیت سے نیم صوبے کی وزارت اعلی کے منصب پر براجمان بھی ہیں۔

راء کا ایجنٹ وہ ہیں جو علاقے کے لاکھوں عوام کے سیاسی، اقتصادی اور قانونی حقوق کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنی کابینہ کو لے کر لاہور میں چوہدری برجیس طاہر  کے ہاں شادی کے ولیمے اڑاتے اور نواز شریف کا برتھ ڈے کیک کاٹتے رہے جبکہ عین اسی وقت اس کو منتخب کرنے والے ہزاروں عوام خون جام کرنے والی سردی میں کھلے آسمان اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔

حفیظ الرحمن صاحب باقی اضلاع اور وادیوں کی بات چھوڑیں سکردو بلتستان سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دُور آپ کے اپنے حلقے “کشروٹ” میں مکمل شٹر ڈاون کیوں اور کس کی طرف سے کیا گیا تھا اگر یہ احتجاج بلتستان کا معاملہ ہے تو؟

حفیظ الرحمن صاحب آپ  اگر  گلگت بلتستان جیسے حساس سرحدی اور سٹریٹجک علاقے کے سنجیدہ اور سنگین بنیادی انسانی حقوق کے مسائل   کو حل نہیں کر سکتے اور انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے  ہیں  تو ہمارا مشورہ ہے کہ یا تو  سیاسی بلوغت کے لیے کچھ سال مزید انتظار کریں یا کسی طرح دو ہزار اٹھارہ میں مسلم لیگ نون کی سیٹ پر پنجاب میں کہیں جا کر الیکشن لڑیں۔ آپ کی قربانیوں اور وفاداریوں کے بدلے آپ کو پارٹی ٹکٹ مل ہی جائے گا۔

آپ نے حالیہ ایک بیان میں کشمیر پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کئی مرتبہ انڈیا گئے ہیں۔ تو جاتے جاتے قوم کو بتا دیں کہ آپ بھارت کے دار الخلافہ دہلی اور سرینگر کون سے قومی مقاصد حاصل کرنے جاتے رہے ہیں؟

وزیر اعلیٰ صاحب!  کسی بھی ملک سے تعلق یا اس کا سفر یا حتی کہ اس کے کسی منصوبہ کا حصہ ہونا  اس گاؤں نما دنیا میں اصولی طور پر کوئی بری بات نہیں ہے۔ مگر جب ایک عوامی نمائندہ اپنے ہی عوام کو حقوق دینے کے سوال پر شک، نفرت ، عصبیت اور دیوار سے لگانے کی نیت سے ایک خاص پیرائے میں بغیر کسی ثبوت کے بات کرے گا   اور   ستر سالہ دشمنی پالنے کے باعث کے  جس بیان کے بھیانک مضمرات ہوں تو باقی لوگوں کو بھی پورا حق ہے کہ وہ آپ سے بھی پوچھیں۔

سینکڑوں جانیں پاکستان پر نچھاور کرنے اور کرگل، سیاچن اور شخمہ کے مشکل ترین سرحدوں پر سینہ سپر ہو کر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بلتستان کے لوگوں کو نیم صوبے کے وزیر اعلی کی طرف سے را کے ایجنٹ قرار دینے پر شدید مذمت کرتے ہیں۔

ہم علاقے کی وکلا برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعلی صاحب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور ان سے اس گھناؤنے الزام پر ثبوت مانگے۔ اگرچہ انہوں نے اس سے پہلے والے ویڈیو بیان میں اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج عوام کو دھمکی آمیز انداز میں ڈرانے کی ناکام کوشش کی مگر ان کے حالیہ الزام سے بلتستان کے لاکھوں عوام کی شدید دل شکنی و دل آزاری ہوئی ہے۔

آخر میں ہم گلگت اور دیامر ڈیویژنز کے چھ اضلاع (گلگت، ہنزہ، نگر، غزر، دیامر اور استور) سے تعلق رکھنے مختلف مسالک کے احباب سے استدعا کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان عوام کو ایک بار پھر علاقہ، مسلک اور نسل کی بنیاد پر  تقسیم کرنے والی اس سوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ آگے بڑھیں۔

اس حوالے  سے سب سے تازہ ترین بیان دیامر کے   اہل سنت علمائے کرام    پر مشتمل متحدہ علمائے دیامر کا بیان انتہائی خوش آئند ہے جس نے  وزیر اعلیٰ کی علاقے کو مسلکی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سوچ  کو ناکام بنا دیا ہے۔ گلگت بلستان کے عوام اب ہجوم نہیں قوم ہے۔ وہ لڑاؤ  اور حکومت کرو کی ہر سوچ کو باہمی اتفاق و اتحاد سے شکست دیں گے۔ اپنے بیان میں  انہوں نے حالیہ تحریک کو عوامی امنگوں کی ترجمان قرار دیتے ہوئے  حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ  وعدے اور معاہدے کے مطابق ٹیکسز کے نفاذ کو فورا ختم  نہ کیا تو وہ بھی  بھرپور   انداز میں تحریک کا حصہ بنیں گے۔

No automatic alt text available.

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply