نامورشاعرمنیرنیازی کوہم سےبچھڑے11 برس بیت گئے

شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔

اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں 1928 میں پیدا ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

منیر نیازی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔

منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔

شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

Advertisements
julia rana solicitors

میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply