بھٹو ، سپریم کورٹ اور عمران خان/علی نقوی

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ سیاہ ہے اور چار اپریل سیاہ ترین دن!

میں بھٹو صاحب کی برسی پر پہلے لکھنا چاہتا تھا لیکن سوچا کہ  موجودہ چیف جسٹس محفوظ فیصلہ سنانے سے پہلے شاید ایک بار کلینڈر کی طرف دیکھ لیں اور شاید انہیں 4 اپریل دِکھ جائے اور وہ کوئی فیصلہ دینے سے پہلے یہ سوچیں کہ 4اپریل 1979 کو اسی سپریم کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ بھی دیا کہ جو اتنا بدصورت اور کریہہ تھا کہ آج تک کسی کیس کے لیے تعزیر کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی کوئی کبھی سوچ سکتا ہے، لیکن پاکستانی عدلیہ اور پاکستانی فوج کو شاید اپنے اوپر پوتی کالک مٹانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔

ہمارے تحریکِ  انصاف کے حامی بھائیوں کا کہنا ہے کہ بھٹو کے بعد اگر کوئی ایسا لیڈر آیا کہ جس نے امریکہ اور فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے وہ عمران خان ہے، اور اگر خدانخوستہ اسکو مارا گیا تو اس ملک میں وہ احتجاج ہوگا کہ لوگ بھٹو کو بھول جائیں گے، میں جب جب یہ اور اسی طرح کی عمران خان سے متعلق باتیں سنتا ہوں تو اندر ہی اندر ہنس کر رہ جاتا ہوں کہ کاش ہمارے لوگوں نے کبھی تاریخ کی ایک کتاب چاہے متعصب ہی کیوں نہ ہو ،پڑھی ہوتی یا کاش ان کی بینائی ہی درست کام کر سکتی ،کہ وہ موجودہ حالات دیکھ سکتے یا کاش انہیں اتنی ہی سمجھ ہوتی کہ اخبار اور ٹی وی چینلوں میں سے کون سا دیکھنا چاہیے؟  یا کاش وہ اس ملک کی اشرافیہ کی اصلیت جان پاتے کہ جس کو یہ ریاست اور ریاستی ٹھیکے دار محترم اور مکرم جانتے ہوں وہ مکروہ اور جس پر یہ ریاست غداری کا الزام لگائے وہ عزت مآب ہوتا ہے۔

جس کیس میں بھٹو کو پھانسی دی گئی اس کیس کی توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور ٹیریان وائٹ کیس کے سامنے وہی اوقات ہے کہ جو اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف کے سامنے ہے لیکن کیا یہ سوچنا بھی ممکن تھا کہ بھٹو کو عدالتیں بلائیں اور وہ نہ جائے ؟؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بھٹو گاڑی میں بیٹھا رہے اور اسکی حاضری لگ جائے؟؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بھٹو یا بینظیر اپنی سیکورٹی کا بہانہ کر کے کوئی رعایت لے سکیں اگر ریاستی ادارے ان کو یہ کرنے بھی دیں تو جس بھٹو اور بینظیر کو دنیا جانتی ہے، وہ فوڈ پانڈہ کے ہاٹ باکس میں کہیں ڈیلیور ہونے پر ہزار بار مرنے کو ترجیح دیں گے۔

میں آج اپنے ہر دوست، بھائی اور ہم وطن کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بھٹو مارا نہیں گیا تھا، وہ کوئی راہگیر نہیں تھا کہ جو کسی دہشت گرد کی اندھی گولی یا ہوائی فائرنگ کی زد میں آ گیا تھا، وہ اس ملک کے کسی بارڈر کو ٹاپتے ہوئے کسی ایف سی کے نوجوان کا نشانہ بھی نہیں بنا تھا، وہ کسی لانچ میں بیٹھ کر اس ملک سے غیر قانونی طریقے سے فرار نہیں ہو رہا تھا کہ جس کو میری ٹائم ایجنسی یا پاکستان نیوی کے جانبازوں نے نشانہ بنایا تھا، وہ کسی سازش کا تانا بانا بنٌتے کسی محبِ  وطن سپاہی کی جانفشانی کا شکار بھی نہیں ہوا تھا، بھٹو کال کوٹھڑی میں بھی کسی فوجی افسر کی توجہ کا  طالب نہیں ہوا تھا، پاتال کی گہرائیاں، کرنٹ والی شٹرنگ، اسکے تکیے کے ساتھ لگا ہوا فلش، روتی ہوئی بیوی اور سسکتی ہوئی بیٹی بھی اس کو اسکی کسی ایک بات سے یو ٹرن لینے پر مجبور نہیں کر سکیں، میں آپکو بتانا چاہتا ہوں کہ بھٹو نے موت قبول کی تھی، بھٹو نے زندگی ٹھکرائی تھی، بھٹو ایک دن بھی  گھر میں دبٌک کر نہیں بیٹھا تھا، ہاں یہ اور بات ہے کہ اس ملک کا کوئی ادارہ اس کو یہ سب کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا کیونکہ یہ اجازت صرف اینٹی بھٹوز کے لیے ہے، چاہے وہ نواز شریف ہو، ضیاء الحق ہو، عمران خان ہو یا احسان اللہ احسان۔

جو آگ اس ملک کے اداروں کے ،خالصتاً پیپلز پارٹی کے لیے بھڑکائی تھی وہ آگ آج ان اداروں کے غرور، ساکھ، عوامی پذیرائی، بھرم اور یہاں تک کہ انکا بنایا ہوا ڈر کا کاروبار تک تیزی سے جلا کر راکھ کر رہی ہے، وہ آگ کہ جس کو پیپلز پارٹی اور بھٹو کے لیے دہکایا اور بھڑکایا گیا تھا آج سپریم کورٹ اور راولپنڈی جی ایچ کیو میں نصب بڑے بڑے ائیر کنڈیشنرز کی پرفارمنس کو بھی شدید متاثر کر رہی ہے ،یہ آگ تھی نفرین کی غداری اور کفر کے فتوؤں کی، کرپشن کے بے بنیاد الزامات کی، جعلی، جھوٹی، اور مضحکہ  خیز ایف آئی آرز کی، بے بنیاد کیسز میں لگی پیشیوں کی، اُس  وقت اس آگ کو بینظیر بھٹو کی جعلی ننگی تصویروں سے تازہ کیا جاتا تھا لیکن اب اس میں چیئرمین نیب، عدلیہ کے ججز، فوجی جنرلوں اور بیوروکریٹس کی آڈیوز اور ویڈیوز بھی شامل ہو گئیں ہیں، کیا ہی قدرت کا انتظام ہے کہ کل جو لوگ زلفی بھٹو کے ختنے کے نشان کھوجنے نکلے تھے انکے ہاتھ زلفی بخاری اور بشریٰ خاور  مانیکا کی آڈیو ٹیپیں  لگ گئیں ہیں، جو کل تک بینظیر بھٹو اور آج مریم نواز کی شادیوں پر ہر طرح کی بات کرتے تھے اور ہیں کہ بینظیر کی شادی اسکی چند برہنہ تصاویر اور مریم کی شادی اسکے ناجائز تعلقات کا پیش خیمہ تھیں ،آج عمران خان کی شادیوں کے تذکرے پر بھی مچل مچل جاتے ہیں۔

جنہوں نے ایک باپ کے اپنی بیٹی کو دیے  گئے نک نیم (پنکی) کو اسکی بدکرداری سے جوڑ دیا تھا، آج وضو کر کے قبلہ رو ہو کے اپنی روحانی مرشد کے نام کا پہرہ دیتے ہیں کہ کہیں کوئی انہیں انکے معروف نام پنکی پیرنی سے ہی نہ بلا لے، یہ بھی قدرت کا ہی انتظام ہے کہ عمران خان جیسا غلیظ الدہن بھی بھٹو کے خلاف ایک لفظ نہیں بول پاتا۔

جس کیس میں بھٹو کو پھانسی دی گئی اس کیس کی توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور ٹیریان وائٹ کیس کے سامنے وہی اوقات ہے کہ جو اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف کے سامنے ہے لیکن کیا یہ سوچنا بھی ممکن تھا کہ بھٹو کو عدالتیں بلائیں اور وہ نہ جائے ؟؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بھٹو گاڑی میں بیٹھا رہے اور اسکی حاضری لگ جائے؟؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بھٹو یا بینظیر اپنی سیکورٹی کا بہانہ کر کے کوئی رعایت لے سکیں اگر ریاستی ادارے ان کو یہ کرنے بھی دیں تو جس بھٹو اور بینظیر کو دنیا جانتی ہے، وہ فوڈ پانڈہ کے ہاٹ باکس میں کہیں ڈیلیور ہونے پر ہزار بار مرنے کو ترجیح دیں گے۔

بھٹو جس کا نام تھا اس نے کبھی لاٹھیاں کھانے، آنسو گیس جھیلنے اور پولیس کے تشدد کے آگے کارکن نہیں ڈالے، اس کا ایک دن کو روپوش یا غائب ہو جانا تاریخ ثابت نہیں کر سکتی۔ دیواریں ٹاپ جانا، لوکیشن ہائیڈ کر لینا، گرفتاری سے بچنے کے لیے کارکن جھونک دینا، کبھی کسی ایک بھی بات پر قائم نہ رہنا صرف اسکے نصیب میں ہے کہ جس کی پرورش لے پالک کرتے رہے ہوں، جس کا زمان پارک والا گھر جنرل برکی اور بنی گالا کا گھر جمائما گولڈ سمتھ کی بھیک ہو، جس کی کرکٹ ماجد خان اور کپتانی ضیاء الحق  کی مہربانی ہو، جس کا شوکت خانم نواز شریف کی عطا ہو، جس کی سیاست ضیاء ، حمید گُل، پرویز مشرف ، پاشا، ظہیر الاسلام ، راحیل شریف اور باجوہ کے باہمی اختلاط کا ناجائز نتیجہ ہو اور ان تمام عناصر کے مجموعے پر جب گندی آڈیوز اور ویڈیوز، اپوزیشن کو کرش کرنے کا ہر ہر منصوبہ، باجوے کی تاحیات ایکسٹینشن، بشریٰ بی بی کے تعویز، ارسلان بیٹے کی ہشیاری، علی امین گنڈاپور کی مونچھیں، مراد سعید کی چیخیں، کسی کے بارے میں سوچ کر نکلنے والی کریم، حریم شاہ، صندل خٹک اور مہر بانو قریشی کے الیکشن کا تڑکہ لگتا ہے تو پی ٹی آئی تیار ہوتی ہے یہ وہ ڈش ہے جو عرصہ چار برس باجوہ نے کھائی اور آخرکار بدہضمی کا شکار ہوئے اگر باز نہ آتے تو بواسیر یقینی تھی کیونکہ بواسیر پی ٹی آئی کی سگنیچر بیماری ہے، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ پی ٹی آئی میں ہیں تو کم از کم منہ کی بواسیر تو یقینی ہے۔

کچھ تذکرہ ہمارے موجودہ چیف جسٹس  کا ،تو یہ انکا فیصلہ ہے کہ انکا نام جسٹس منیر، مولوی مشتاق، نسیم حسن شاہ، افتخار چودھری اور ثاقب نثار جیسے بڑے ناموں کے ساتھ لکھا جائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور رہ گیا بھٹو تو اسکی فکر آپ نہ کریں کیونکہ آپکے ہی چند فوجی بھائی اسکو رات کی تاریکی میں نوڈیرو سندھ کے ایک ویرانے میں یہ سوچ کر دفنا آئے تھے کہ شاید انہوں نے بھٹو کا کام تمام کر دیا لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply