سی پیک پروجیکٹ کی ازسرِ نو شروعات/عامر کاکازئی

“پروجیکٹ عمران” کا سب سے بنیادی مقصد سی پیک پروجیکٹ کو بند کروانا تھا۔ جس دن چین کے صدر نے پاکستان آ کر سی پیک پروجیکٹ کا اعلان کرنا تھا، ان ہی دنوں میں عمران خان نے بے کار کی ضد میں اسلام آباد میں دھرنا  دے دیا، باوجود چین کے صدر اور سفیر کی ذاتی ریکوئسٹ پر بھی دھرنا  ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر جس دن پہلی شپمنٹ نے سنکیانگ سے گزر کر پاکستان گوادر پہنچنا تھا ان ہی دنوں پھر  آکر اسلام آباد بیٹھ گئے کہ چین کی پہلی شپمنٹ نہ  گزر سکے۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب عمران خان کو حکومت ملی تو سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ چینی اور پاکستانی حکومت کےدرمیان ہوئے سارے خفیہ اگریمنٹ آئی ایم ایف اور امریکہ کے حوالے کر دیے۔6اگست   2019 کو آئی ایم ایف کی ٹیریسا ڈابن سانشے نے ایک میڈیا کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ عمران حکومت نے ہمیں سی پیک کے سارے منصوبوں اور چین اور پاکستان کے درمیان ہوئے سارے اگریمنٹس کی تفصیلات دے دی ہیں۔ اب جو بزنس کرتے ہیں وہ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا بلنڈر تھا کہ دو فریقوں کے درمیان ہوئے معاہدوں کی بھنک کسی تیسرے فریق کو پڑ جائے۔ ریلوے کے پروجیکٹ ایم ایل ون کے اگریمنٹ کو شیخ رشید نے یہ کہہ کر ریجیکٹ کر دیا کہ پروجیکٹ میں گڑبڑ ہے اور اس پر کک بیکس لی گئی ہے اس لیے پروجیکٹ پر کم ریٹس پر دوبارہ معاہدہ  ہو گا۔ عمران خان نے ایک انتہائی کرپٹ، ناکارہ اور نااہل انسان کو سی پیک کا چیئرمین بنا دیا، جس کی ایمان داری کی گواہی خود وزیراعظم صاحب نے دی۔ نتیجہ چین نے سی پیک پروجیکٹ کو آہستہ  کرتے ہوئے روٹ کو کرونا کے نام پر مکمل بند کر دیا۔

ایک ہندی کہاوت ہے کہ بھوجن ، بھجن، خزانہ، یاری،یہ سب پردہ کے ادھکاری
ہم وہ بےوقوف کہ اپنا سب کچھ کھول کر کسی دوسرے کے آگے الف ننگے ہو گئے۔

پاکستان کو پہلی بار موقع  ملا تھا کہ وہ اپنی  جغرافیائی حیثیت کا “مالی” فائدہ اُٹھاتا۔ اس روٹ سے پاکستان – ہندوستان، افغا نستان ،ایران، چین ، سنٹرل ایشیاء، مڈل ایشیا ، حتیٰ  کہ یورپ اور افریقہ سے بھی جُڑ جاتا۔ چین نے اپنی زیادہ تر چھوٹی انڈسٹری پاکستان لانی تھی۔ کیونکہ چین اب ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کی طرف جا رہا تھا۔ چین کے آنے سے جہاں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ،وہاں نوجوان ہنرمند بننا شروع ہو جاتے۔ پاکستان دہشتگردی سے شفٹ ہو کر بزنس ماڈل پر چلا جاتا۔ چھوٹی انڈسٹری میں تقریباً ہر چیز سوئی سے لے کر گاڑی تک شامل تھی۔
ہم بخشو کے سٹیٹس سے اپگریڈ ہو کر برابر کے بزنس پارٹنر بن جاتے ، مگر شاید بخشو کو اپگریڈیشن منظور نہیں تھی۔

مختصراً  یہ بھی بتا دیں کہ ایم ایل ون (مین لائین – ۱) پروجیکٹ کے ذریعے ہماری پشاور سے کراچی تک کا ریل وے ٹریک اپ گریڈ ہو کر ڈبل لائین والا ہو جاتا۔ سارا ٹریک نیا بچھتا۔ ٹرین کی سپیڈ ساٹھ سے ایک سو ساٹھ ہو جاتی۔ راستے کے تمام بڑے پُل دوبارہ تعمیر ہوتے، ریلوے کے  سگنل اور ٹیلی کام سسٹم کو ماڈرن کیا جاتا۔ والٹان کی ریلوے ٹریننگ ایکڈیمی کو اپ گریڈ کر کے ماڈرن کیا جاتا۔ حویلیاں کے نزدیک ڈرائی پورٹ نے بننا تھا۔ پورے ٹریک کی سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے فینسنگ ہونی تھی۔ جہان جہاں سے کراسننگ ہوتی ہے، اُدھر اُدھر انڈر پاسز اور پُل بننے تھے کہتریفک اور  ریلوے حادثات  مکمل ختم ہو جاتے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سی پیک تھا کیا؟ سی پیک منصوبہ صرف سڑکیں بنانے کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک ست رنگی منصوبہ تھا جس میں مکمل ریلوے کا نظام، سڑکیں، ٹرانسپورٹیشن، توانائی کے منصوبے، ٹیلیکام پلس ٹیکنالوجی سیکٹر اور مختلف انڈسٹریز کو کھولنا تھا، پاکستان ایک ہائی ٹیک ماڈرن ملک بن جاتا، وہ بھی تقریباً بیس سے پچیس سال میں۔ ہماری آنے والی نسلیں سنور جاتیں۔
اس وقت پراپر پلاننگ کے ساتھ سی پیک کے خلاف مختلف پروپیگنڈہ کیے گئے، جیسے کہ چینی قرضوں سے ملک ڈوب جاتے ہیں، چینی لڑکے، پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی کر کے ان کے جسم کے اعضا بیچ دیتے ہیں، چینی پاکستان پر قبضہ کر لیں گے، ساری  نوکریاں چھین لیں گے۔ لوکل انڈسٹریز تباہ ہو جائیں گی۔ چین اپنا پیسہ پرافٹ کے ساتھ نکال کر ہمیں قرضے  میں ڈبو دے گا۔ چینی  پاکستان پر قبضہ کر لیں گے، پاکستان ایک لادینی ملک بن جاۓ گا۔ وغیرہ وغیرہ!

اگر سی پیک آ جاتا تو پاکستانیوں کے لیے کتنی نوکریاں پیدہ ہوتیں  اور عام پاکستانی کو کتنا بزنس ملتا، یہ ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ پاکستانیوں کی قسمت بدل جاتی۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی مکمل نجات مل جاتی۔ پاکستان ستر سال بعد پہلی بار سکیورٹی سٹیٹ سے بزنس سٹیٹ کی طرف پلٹ جاتا۔ جب حکومت اور عوام خوشحال ہوتی تو آہستہ آہستہ یہ ریاست ویلفیئرسٹیٹ کی طرف پلٹ جاتی۔ بزنس سٹیٹ بننے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ ہم مذہبی انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل کر لیتے۔

جو محنت پیپلز پارٹی کی حکومت نے چین کے ساتھ سی پیک شروع کرنے میں کی اور پھر اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مسلم لیگ کی حکومت نے محنت کی، اس محنت کو تقریباً  دس سال لگے، بیچ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشتگردی تھی جس سے یہ دونوں حکومتیں نمٹیں۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ  ہم یہ کہنے  پر   مجبور ہیں کہ پروجیکٹ عمران کے صرف تین سال کے دورِ حکومت نے دس سال کی محنت پر پانی پھیر دیا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ قومیں سڑک بنانے سے نہیں بنتیں۔ ہم انقلاب لائیں گے۔ ارے بابا کرانتی بعد میں لانا پہلے گھر میں روٹی تو لاؤ۔
گو کہ دل ابھی بھی ڈر رہا ہے مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ چین کی ناراضگی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ نیو ون نیٹورک کی خبر ہے کہ ” پاکستان اور چین کے سی پیک روٹ کو تجارتی مقاصد کے لیے تین سال کے وقفے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔ آزمائشی طور پر اس سال 30 جنوری سے 10 فروری کے درمیان 12 دن کے لیے خنجراب پاس کھولا گیا تھا، جبکہ پورٹ 19 سے 20 جنوری کے درمیان کھلی تھی۔کاشغر کے حکام کے مطابق دو عارضی افتتاح نے سرحد پار اہلکاروں کے 128 دوروں، 328 نقل و حمل کی گاڑیوں کے گزرنے اور 6,000 ٹن سے زیادہ سامان برآمد کرنے میں سہولت فراہم کی گئی تھی۔”

خوشی کی خبر یہ ہے کہ “شاید” پروجیکٹ عمران کی مکمل بندش کی یقین دہانی کے بعد چین نے یہ قدم اُٹھایا ہے۔ چلتے چلتے دو خبریں بھی سُن لیں کہ شاید سعودیہ کو بھی پروجیکٹ عمران کے مکمل شٹ ڈاؤن ہونے کی خوش خبری سُنا دی گئی ہے۔ سعودیہ کے کنگ سلمان عبدل عزیز ال سعود نے نواز شریف اور شہباز شریف کو سعودیہ آنے کی دعوت دے دی ہے۔ رمضان کے آخری دس دن عمرہ کرتے ہوئے دونوں بھائی کنگ اور پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ ملیں گے۔ نوازشریف کنگ کے رائل گیسٹ ہوں گے۔ دوسری خبر ہے کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے پیسے ارینج کر کے دے دیے جائیں کہ آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ سے جان چھوٹ سکے۔ اس کامیابی میں شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو تک کی محنت شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صولت پاشا صاحب نے ایک ترکی حکایت  فیسب وال  پر شیئر کی ہے کہ “جب کوئی مسخرہ محل کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ محل کو سرکس بنا دیتا ہے۔”
پاکستان بھی چار سال تک سرکس بنتا رہا۔ افسوس اس کے لانے والوں کی عقل پر۔
مضمون اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ “پروجیکٹ عمران” کے لانے والوں کو خدا ہدایت دے کہ وہ اپنی غلطی سدھار سکیں،آمین!

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply