نہلے یہ دہلے۔۔۔۔حسن نثار

آقاﷺ نے فرمایا’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔کیا ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھوں اور زبانوں سے محفوظ ہیں؟میرا سوال بہت سادہ ہے لیکن اس کا جواب؟ ہے کوئی عالم، فاضل، مفتی، علامہ، دانشور، لیڈر، مذہبی یا سیکولر جو مجھے اس انتہائی بنیادی اور سادہ سے سوال کا سیدھا، سچا، صاف اور غیر منافقانہ جواب دے سکے۔ جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو ایسا جواب دینے والے پر اللہ رحم فرمائے، اس کی ذہنی، جسمانی، روحانی، نفسیاتی، جذباتی، معاشرتی کیفیتوں پر کرم فرمائے۔ وہ اندھا ہے تو اسے آنکھیں عطا فرمائے، بہرہ ہے تو قوت سماعت بخشے۔ جواب ’’ناں‘‘ میں ہے تو لازم ہوگا اس فرمان کی روشنی میں اپنے اجتماعی گریبان کے اندر دور تک دیکھا، جھانکا اور پھر سوچا جائے۔برکت کب کی رخصت ہو چکی رحمت جیسے روٹھ گئی ہونہ حکام کو سکھ چین نہ عوام کو قرارحکومتوں کے خزانے خالی محکموں کے پیٹ خالی بادشاہوں کی بڑھکیںرعایا کی آہیںظالم ہذیان کا شکارمظلوم ہیجان میں مبتلاواقعی شاعر سچ کہتا ہے….’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘سب ایک اور اصلاً ایک جیسے ہیںناکام تو ناشاد ہے ہی کامیاب بھی نامراد ہےحکمران بولائے پھرتے ہیں کہ نہ باگیں ہاتھ میں نہ پائوں رکاب میںاپوزیشن ’’اندر‘‘ نچڑی پڑی یا باہر لڑکھڑاتی پھر رہی ہے۔کوئی سابق صدر ہو یا سزا یافتہ وزیراعظم… حاضر سروس وزیراعظم یا کوئی مولانا میل ملاپ، بھاپ میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔رہ گئے عوام تو وہ نجانے کب کے کہاں رہ گئے کہ عملاً صرف اور صرف شناختی کارڈ نمبرز ہیں اور جن کے ابھی شناختی کارڈز نہیں بنے ان کی کُل شناخت یہ کہ کچھ لئے دئیے بغیر، کچھ کئے کرائے بغیر مقروض اور گروی پڑے ہیں لیکن زبانی کلامی ’’شاہین‘‘ ہیں جنہیں زاغوں، کوئوں کے بھائو بیچ دیا گیا۔نوبت یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ حکومت فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرتے ہوئے بینک لاکرز تک جا پہنچے کہ قرضوں کی قسط بھی چکانی ہے لیکن ایک کے بعد دوسری، تیسری، چوتھی… علی ہٰذا القیاس قسطیں ہی قسطیں۔ منیر نیازی مرحوم کو تو ایک دریا عبور کرنے کے بعد دوسرے کا سامنا تھا جبکہ یہاں تو قرضوں کی قسطوں کا لامتناہی سلسلہ ہے اور وہ بھی ایسا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ خرگوشوں اور قرضوں میں سے زیادہ ’’افزائش‘‘ کس کی ہوتی ہے۔ ایک قدم آگے سو قدم پیچھے۔مسائل اور چیلنجز کے گوہ گراں ایک طرف۔گراں خوابی کی انتہا یہ کہ چاند کون دیکھے گا؟ مفتی منیب یا مفتی فواد… ورلڈ کپ آئے گا یا نہیں؟ اور میں سوچتا ہوں کہ دنیا کے چند، صرف چند ملکوں میں کھیلے جانے والے کھیل کا یہ نام نہاد ’’ورلڈ‘‘ کپ مل بھی گیا تو کیا اس سے الٰہ دین کے چراغ جیسا کوئی کام لیا جا سکے گا؟ کرکٹر پرائم منسٹر ورلڈ کپ کے پہنچتے ہی اسے اپنی کرکٹ ٹیم سے لے کر کابینہ کے اجلاس میں پہنچ کر زور سے پی ایم ہائوس کے فرش پر رگڑے گا تو جن حاضر ہو کر کورنش بجا لانے کے بعد عرض کرے گا’’کیا حکم ہے میرے منتخب جمہوری آقا؟‘‘تبدیلی کابینہ دیوانہ وار تالیاں بجائے گی اور نعرے لگائے گی’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے‘‘پھر وزیراعظم جادوئی ورلڈ کپ (سابق چراغِ الٰہ دین) کے غلام جن کو مطالبات، احکامات، خواہشات کی طویل فہرست تھمائیں گے جس میں قرضوں کی یکمشت ادائیگی (مع گردشی قرضے)، 50لاکھ تا ایک کروڑ یا زائد فلی فرنشڈ ائیر کنڈیشنڈ گھر (جس کے پورچ میں ایک ایک گاڑی بھی کھڑی ہو)، تجارتی خسارہ کا خاتمہ بلکہ اسے ریورس کرنا، 6ڈیم بنانا، ڈالر اور روپے میں مساوات، تمام بے روزگاروں کے لئے روزگار، ہر محلہ میں ہسپتال، 5بلین درختوں کی شجرکاری، ہر سال ایک کروڑ سیاحوں کی آمد، درجہ اول کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کی ملک گیر چین وغیرہ وغیرہ شامل ہوں گے۔جن سرِ تسلیم خم کرے گا۔احکامات کی تکمیل کے لئے جانے کی اجازت چاہے گااور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا، ورلڈ کپ کو الٰہ دین کے چراغ کی طرح بار بار رگڑا جائے گا لیکن وہ نہیں آئے گا بلکہ اس کی بجائے یہ بریکنگ نیوز آئے گی کہ…’’ایک جن نے وزارت خزانہ کے سامنے خود کشی کرلی‘‘اوپر سے لے کر نیچے تک، ایوانِ بالا سے لے کر مکانِ ادنیٰ تک خواہشوں، خوابوں، بڑھکوں، دعوئوں، سرابوں کا سیلاب (سونامی) ہے لیکن ڈھنگ کی کوئی بات نہ سنائی دے رہی ہے نہ دکھائی دے رہی ہے۔کسی نے چاند دیکھنا ہے، کسی کو ورلڈ کپ چاہئے، حکمرانوں کا زور بہانوں، بیانوں اور افسانوں پر کہ ہم سب نہلے پہ دہلے ہیں اور کوئی کسی کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہیں۔ الامان الحفیظ، الامان الحفیظ!

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply