ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔رفعت علوی/آخری قسط

“گبرائیل ڈولبرو مومچے” (گبرائیل اچھا لڑکاہے)۔۔۔نیچے وادی میں پہنچ کر میں نے گبرائیل کا کندھا چھوڑ کر ایک گہری سانس لی اس کے سخت بالوں سے بھرے گالوں کو تھپتھپایا اور ہم دونوں ہی بےدم ہوکر آسمان کی طرف منہ کرکے گھاس پر لیٹ گئے ۔نیلا بےانت آسمان ہمارے سروں پر تھا اس کے کناروں پر اودے، کالے اور بھورے بادلوں کی بےحرکت تہیں جمی ہوئی  تھیں، حرارت، حدت، تپش، گرم دھوپ، رنگا رنگ پھولوں کے سلسلے، قدرتی ہری گھاس  اور  دور  کہیں جلترنگ بجاتے  چشمے کی ترل ترل۔۔ہمارے سامنے زندگی کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے بھرپور سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا، صبح کی تر و تازہ ہوا ہمارے چہروں کو چھو رہی تھی، وہ درہ ہمارے بالکل سامنے تھا جہاں سے گذر کر ہم پرامن علاقے میں داخل ہوجاتے جہاں گستاپو کی پہنچ نہیں تھی پھر ہم آزاد ہوتے۔۔ ہمارے اپنے فیصلے ہوتے، آزاد دنیا کے  سکول جاتےہوئے بچے، آلو اور چاولوں کے کھیتوں میں ہل چلاتے کاشتکار، ڈکراتی گائے بھینسوں کا دودھ دوہتی عورتیں اور آفس جاتے ہوئے خوش پوش مرد، یہ سب تو میں اپنے بارے میں سوچ رہی تھی اور یہ بیچارا گبرائیل؟۔۔۔۔۔۔یہ کیا کرے گا، مجھے اپنی خود غرض سوچ پر شرم آنے لگی،

گبرائیل بلغاریہ پہنچ کر کیا کرے گا؟

میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔؟

وہ چپ رہا ۔۔اس کی ماں، بیوی بچے کس شہر میں ہیں؟

میں نے کروٹ بدل کر گبرائیل کے چوڑے سینے پراپنا ہاتھ رکھ دیا، ماں تو مر چکی ہے، بیوی نہیں ہے، اس لئے بچے بھی نہیں، اس نے میرا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹایا نہیں اور اسی طرح لامتناہی آسمان کی طرف دیکھتا رہا اور۔۔۔گرل فرینڈ؟

 میں نے کسی انجانے جذبے اور رشک سے پوچھا۔۔۔ گرل فرینڈ بھی نہیں، مجھے دوست بنانے کا وقت ہی نہیں ملا، میرا باپ دہقان تھا، میں پڑھتا تھا اور کھیتوں میں اس کا ہاتھ بٹاتا تھا، ایک دن جبری بھرتی کا حکم آیا، میں بیس سال کا تھا میرے باپ کی مزاحمت کے باوجود انھوں نے مجھے فوج میں بھرتی کرکے محاذ پر بھیج دیا، خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا، خوبوف مومیچی (خوبصورت لڑکی) کے تو بہت بوائے فرینڈ ہوں گے۔۔۔۔

اس نے مجھ سے آنکھیں ملائے بغیر پوچھا۔۔

اس کے لہجے میں جیسے ایک شک ایک شبہ سا تھا “ماریا اچھی لڑکی ہے”۔۔۔۔میں مارے طیش کے اٹھ کر بیٹھ گئی، ماریا۔۔۔۔۔کا کوئی بھی بوائے فرینڈ نہیں۔۔۔۔۔

مجھے میری سب دوست مریم کہتی تھیں، میں اس پر جھک گئی اب اس نے میری طرف کروٹ لی، ہماری آنکھیں ایک دوسرے کے بالکل قریب آگئیں، میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی سیاہ آنکھوں کے ساتھ شرارت سے مسکرا رہا تھا، اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، یہی وہ لمحہ تھا جب فطرت مسکراتی ہے، دھرتی کی نشہ آور مہک اور بےکنار آسمان جس کے منتظر رہتے ہیں، فرشتے انسان پر رشک کرتے ہیں اور اس بیکراں کائنات میں بسنے والی عورت اور مرد کی ذات کی تکمیل ہوتی ہے۔۔

چشمے کا پانی اسی طرح ترل ترل کرکے بہتا رہا، کائنات کے ازلی سناٹے میں، موت کے بھیانک پنجوں سے کچھ لمحوں کی دوری پر قدرت خداوندکریم کی عظمت کے گیت گاتی رہی، عظیم الشان پہاڑ، برف، پھول، دور تک پھیلے ہوئے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگل اور اوپر نیلے آسمان نے جھک کر انسان کی تخلیق کا گیت گایا، اور کائنات کی اس قوت نمو اور زندگی کے اس عظیم راز کی تعظیم میں اپنی آنکھیں بند کرلیں!

گبرائیل کا چہرہ  کسی انجانے جذبے کی پرکیف مسرت سے دمک رہا تھا، مصائب کے دوران غیر متوقع طور پر ملنے والی خوشی سے وہ آنے والے  وقت کی سختی کو بھول چکا تھا اور ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سرشاری کے عالم میں اس درے میں داخل ہو رہے تھے جس کو پار کرکے ہم روس میں داخل ہوجاتے۔ ہم اپنے بچے کا نام کیا رکھیں گے گیبری؟ میں نےچلتے چلتے رک کر پوچھا۔۔

کوئی بھی اچھا سا نام ۔۔گیبرائیل نے پیار سے جواب دیا !
ہم کہاں رہیں گے؟

رومانیہ  یا  بلغاریہ جہاں ماریا رہے گی وہیں  گبرائیل بھی رہے گا میں خوش ہوگئی۔۔۔ نہیں ہم وہاں اس گاؤں میں رہیں گے جہاں تمھاری ماں کا گھر ہے، تم کھیتوں میں کام کرو گے میں ٹریکٹر چلاؤں گی اور ہم اپنے بچے کانام “امن” رکھیں گے، امن جس کی دنیا کو سخت ضرورت ہے!

دفعتاً گیبرائیل ٹھٹھک کر رگیا ہم۔۔ اس درے کے اختتام  تک پہنچ چکے تھے مگر یہاں سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہ تھا، مایوسی سے ہمارے چہرے بگڑ گئے، ہمارے سامنے ایک فلک پوش پہاڑ سر اٹھائے کھڑا تھا جس کے ایک طرف گہری کھائی تھی، جہاں بہت نیچے کچھ خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں نظر آ رہی تھیں اور دوسری طرف پرشور جھاگ اڑاتی سر پٹختی ندی بہتی جا رہی تھی۔۔

اچانک اوپر آسمان پر کسی جہاز کی گھن گرج سنائی دی، لعنت ہے۔۔۔لعنت ہے۔۔۔۔گیبرائیل نے غصیلی آواز میں کہا، اب یہ مردود کہاں سے آگیا، جہاز قریب آگیا یہ ایک چھوٹاجرمن جاسوسی کا جہاز تھا، اس نے وادی کے دو چکر لگائے اور واپس لوٹ گیا، اس کھلے علاقے میں ہمارے لئے چھپنے کی کوئی جگہ نہ تھی ،وہ لوٹیں گے۔۔۔۔۔۔۔گبرائیل بڑبڑایا۔

وہ ہم کو زندہ آزاد دنیا میں نہیں جانے دیں گے اس نے دانت کچکچائے، کوئی امید نہیں۔

ہم نہیں بچ سکتے۔۔۔۔گبرائیل بدستور غراتا رہا!

ہم ان کے ہاتھ نہیں آئیں گے گبرائیل ، تمھارے پاس رائفل ہے، میرے پاس یہ کلھاڑی ہے، ہم مقابلہ کریں گے میں نے عزم سے کہا!

موت آتی ہے تو آئے، ہم زندہ ان کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔

ذرا ہی دیر میں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں، ہم نے امید و بیم کی حالت میں درے کے داخلے پر نظریں جما دیں، کیا ہم کسی غیبی مدد کے منتظر تھے؟۔۔۔۔۔۔۔

نہیں ہم کتوں کے انتظار میں تھے کہ کب کتے آئیں اور کب ہم ان کی خاطر تواضع کریں، مگر کتوں سے پہلے چھ جرمن فوجیوں کا ایک دستہ وادی میں داخل ہوا، انھوں نے ہم کو دیکھ کر استہزائیہ جملے کسے، گالیاں دیں اور قہقہے لگائے ۔۔مگر آگے نہیں بڑھے آگے بڑھو کتوں کے بچوں، میں نے چلا کر کلہاڑی لہرائی۔

مگر وہ کچھ نہ بولے، قریب آنے کے بجائے ان میں سے ایک فوجی نے اپنی بیلٹ سے کوئی چیز نکال کر ہماری طرف پھینکی جو ہمارے سروں پر سے گذرتی ہوئی اونچے پہاڑ کی   طرف چلی گئی، پھر ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا، ہم منہ کے بل گرے پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کے بڑے بڑے تودے ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے، برف کے چھوٹے ٹکڑے اڑ اڑ کر ہمیں بھی لگے مگر ہم ان سے زخمی نہ ہوئے، برف کا ایک بہت بڑا تودہ لڑھکتا ہوا ہمارے قریب سے گزرا اور ہمارے سامنے آ کر رک گیا، قدرت نے ہمارے لئے ایک وقتی پناہ مہیا کردی تھی، ابھی ہم دھماکے سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ ہمارے سامنے وادی کے داخلے پر تین خوفناک کتے نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہماری طرف لپکے، گبرائیل نے گولی چلائی، ایک کتے نے پٹخنی کھائی مگر بقیہ دو اسی جوش و خروش سے ہماری طرف لپکتے رہے، دو گولیاں اور چلیں مگر گبرائیل کا نشانہ خطا ہوا، رائفل خالی ہو چکی تھی۔۔

اس نے کلہاڑی میرے ہاتھ سے لے لی اور خالی رائفل میری طرف پھینکی، کلہاڑی کا چمکدار پھل قریب آتے ہوئے کتے کے سر پر پڑا، وہ ایک بھیانک چیخ مار کر دوسری طرف الٹ گیا، اسی وقت مشین گن کا برسٹ مارا گیا، چنگاریاں اڑاتی گولیاں برفیلے تودے میں گھس گئیں، مشین گن کی تڑتڑاہٹ پھر گونجی، اس بار گولیاں ہمارے سروں کے اوپر سے گزر گئیں

“تم اس کھائی میں چھلانگ لگاؤ میں اس کتے کو جہنم رسید کرکے تمھارے پاس آتا ہوں، ہم ساتھ مریں گے”،

گبرائیل نے مجھے ہلکے سے دھکا دیا،

میں نے بلا کچھ سوچے دوڑ لگائی، پھر آدھے راستے سے پلٹ کر آئی اور گبرائیل کے گالوں پر دو پیار کیے

“جاؤ وہ آگیا ہے” گبرئیل کے یہ جملے میں نے آخری بار سنے اور برف کے تودے کے پیچھے سے اٹھ کر کھائی کی طرف بھاگی، مشین گنز کی آواز پھر گونجی گولیاں میرے سر پر سے سنسناتی ہوئی گزر  گئیں، میرے پیر لڑکھڑائے سردی ، تھکان اور بھوک سے بے جان کپکپاتا میرا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا،

میرے منہ سے ایک چیخ نکلی اور میں ہزاروں فٹ اونچے پہاڑکی دوسری طرف عمیق گہرائی میں گرنے لگی۔۔۔۔۔

مجھے گرتے ہوئے بھی مشین گن کی گولیوں کی تڑتڑاھٹ اور شیپرڈ کتوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی ۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین سے نئی کونپلوں نے سر نکالا اور مسکرانے لگیں، دور تک پھیلے ہوئے میدانوں میں خودرو پودوں میں شگوفے کھلے اور چاروں طرف رنگا رنگ پھول مہکنے لگے، ٹنڈ منڈ  درختوں پر نکلنے والے ہرے بھرے پتوں نے جھوم کر نئی صبح کو خوش آمدید کہا، خوش رنگ پروں والے پرندوں نے فضاؤں میں آزادانہ اڑان بھری، تخریب کے ملبے سے تعمیر کے پہلو نکلے اور انسان نے انسانیت کی قدر پہچان لی۔ دو طرفہ درختوں سے سجی کشادہ اور طویل صاف ستھری شاہراہوں والے شہر بخارسٹ میں آج بہت چہل پہل تھی، قانون ساز ادارے چیمبر آف ڈپٹیز کے وسیع ہال میں ایک باوقار اور خوبصورت محفل سجی تھی، ملک کے چیدہ چیدہ اور معزز مہمانوں سے گیلریاں بھری ہوئی تھیں، ملک کے سربراہ نے عزت و تکریم سے وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی مضبوط ہاتھ پیروں اور سفید بالوں والی خوبصورت اور باوقار معمر خاتون کی طرف دیکھا اور اقوام متحدہ میں رومانیہ کے مستقل مندوب مسٹر گیبرئینوف کو خطاب کی دعوت دی ۔۔۔

سیاہ بالوں اور سیاہ آنکھوں والے نوجوان گیبرائیلنوف نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے طلائی تمغے کی طرف دیکھا اورحاضرین کو مخاطب کرکے بولا کہ قبل اس کے میں یہ تمغہ اپنے ملک کی بہادر اور باہمت خاتون کو پیش کروں میں درخواست کروں گا  کہ مسز “ماریا گبرائیل الونوف” اس اسمبلی کو اپنی زندگی کی جدوجہد بھرے ولولہ انگیز تجربات سے آگاہ کریں!!

 اور میں اپنی کہانی سنا چکی تھی میں اپنی داستان ختم کر چکی تھی، ہال میں خاموشی تھی سسکیاں تھیں اور آنسوں میرے اسکارف میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم۔۔

میری آواز بھرا گئی تھی، آنسوؤں کے قطرے میرے چہرے سے ٹپک ٹپک میرے اسکارف میں جذب ہورھے تھے، ہال میں حیرت استعجاب غم غصے صدمے اور ترحم میں لپٹی خاموشی طاری رہی، میں نے ذرا توقف کے بعد اپنی اپنی بات جاری رکھی

” میں پہاڑ کی اونچائی سے گری تھی مگر نیچے جھونپڑیوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں نے مجھے بچا لیا تھا، کچھ دن وہ لوگ مجھ پر اپنا دیسی علاج آزماتے رہے جب میری حالت کچھ بہتر ہوئی اور جسم میں جان آئی تو شہر کے اسپتال میں داخل کراگئے، میں آج چالیس سال بعد بھی ان مہربان چرواہوں غیرتعلیم یافتہ اور غیر مہذب جیپسیز کے احسان کو نہیں بھولی، صحت یاب ہو کر میں اپنے وطن واپس ہوئی، میں نے اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ دوبارہ  یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا، اخبارات میں کالم لکھے، ٹی وی پر شوز کیے  اور کالجز میں لیکچر دیے، جنگ کی تباہ کاریوں اور قید و بند کی تکالیف کا نقشہ کھینچا، گبرائیل کے بچے کو جنم دیا، اس کی تربیت کی، تعلیم دلوائی پڑھا لکھا کر بڑا کیا اور اس کو امن و شانتی کا پیغام دینے کے قابل کیا،

آج گبرائیل کا بیٹا “امن گیبرائیلنوف ” اقوام متحدہ میں رومانیہ کی طرف سے دنیا کو بتا رہا ہے کہ جنگ اچھی چیز نہیں۔۔۔۔۔۔بچوں کو ہنسنے دو، پھولوں کو کھلنے دو،انسان کو جینے دو۔

وفور جذبات سے میری آواز ٹوٹ گئی اور سیاہ بالوں اور کالی آنکھوں والے “امن” نے آگے بڑھ کے میرے گلے میں تمغہ ڈال کر میرا ماتھا چوم لیا،ہال میں موجود ہر شخص اس مظلوم عورت کی ہمت خلوص جذبے اور معصوم محبت بھری داستان کے تاثر سے ملغوب ہوکربھیگی آنکھوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور تالیاں بجانے لگا۔

شاید یہ تالیاں سامنے بیٹھی ہوئی باہمت عورت کے لئے نہیں بلکہ اس عظیم کائناتی اور نا قابل بیان الوہی اور آفاقی جذبے کے لئے تھیں جس کی حرارت سے زندگی کو زندگی ملتی ہے۔

کس کو شکوہ ہے گرشوق کے سلسلے ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے،

قتل گاہوں سے چن کےہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!

Advertisements
julia rana solicitors

(رفعت علوی جی کے نام پر کلک کرکے گزشتہ دونوں اقساط  پڑھی جاسکتی ہیں )

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔رفعت علوی/آخری قسط

Leave a Reply