ایرانی احتجاج کی تازہ لہر۔۔عمیر فاروق

ایران میں پھر ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جمعرات کے روز مشہد کے ہنگاموں کی لہر ملک کے دوسرے حصوں تک پھیل گئی اور اب تک دو افراد ان میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اور اب تک اس لہر میں کمی نظر نہیں آرہی سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔
ایران میں اس سے قبل بھی ہنگامے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار ان کی نوعیت مختلف ہے۔ اس سے قبل ہونے والے ہنگامے زیادہ تر سخت گیر عناصر کی مخالفت یا انتخابی نتائج پہ عدم اطمینان کا اظہار کرتی تھی البتہ اب ان کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔اس دفعہ براہ راست ایرانی سسٹم پہ عدم اعتماد یا انکار کا رجحان سامنے آیا ہے۔
جہاں تک ایرانی سسٹم کا معاملہ ہے تو ایرانی جمہوریت کو کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہی کہا جاسکتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمندوں کو ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے جو اجازت دیتے وقت اس کی اہلیت کی بنیاد فرد کی ممکنہ پالیسیوں کو بناتی ہے۔ اس کے بعد ہی ریاستی اجازت یافتہ امیدوار میدان انتخاب میں اترتے ہیں لہذا کسی بڑی تبدیلی کا تصور ہی محال ہے۔ سسٹم کی دوسری تہہ پاسداران انقلاب کی فوج ہے جو روایتی فوج سے الگ ایرانی انقلاب کی محافظ ہے جس کے مقاصد سراسر سیاسی ہیں۔
ایرانی سسٹم پہ ایرانی مذہبی قیادت کی مکمل اور گہری گرفت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ممکنہ طور پہ جیتنے والے امیدوار کا انتخاب نہایت ہوشیاری سے کرتی ہے اس میں آنے والے سالوں میں عالمی سیاست کے رخ کے علاوہ عوامی موڈ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ایرانی سیاسی دھاروں کو سخت گیر اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عوامی بے چینی زیادہ بڑھتی محسوس ہو تو اعتدال پسند امیدوار کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ عوامی دباؤ کے لئے ایک سیفٹی والو کاکام کرتا چلا آیا ہے۔
راقم الحروف ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی قابلیت کا ہمیشہ معترف رہا انہوں نے مساعد حالات میں بھی علاقائی سیاست میں قابل رشک کامیابیاں حاصل کیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس گنجائش کم ہوتی جارہی ہے اور اس کی وجہ معاشی ہے۔ موجودہ ایران بے پناہ معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ بے روزگاری کی شرح چالیس فیصد کے قریب ہے اور کم و بیش اتنی ہی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار ر ہی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کا بوجھ عوام کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
حیرت انگیز طور پہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ایرانی عوام غریب ہوں۔ ان کے پٹرولیم کے وسائل سعودیہ کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن عرب ملکوں کی طرح ان کی معیشت صرف تیل پہ منحصر نہیں ہے بلکہ معدنیات حرفت زراعت پہ مشتمل متنوع معیشت ہے۔
ایرانی صنعت زیادہ تر حکومتی کنٹرول میں ہے اور زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ ایران پہ عائد معاشی پابندیاں بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہیں اور اس کے ساتھ ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے اخراجات، یہ سب کچھ مل کے ایران کے معاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔
اس بحران کا ایرانی اسٹیبلشمنٹ کو کافی پہلے سے اندازہ تھا اس لئے اعتدال پسند روحانی کی جیت کی راہ ہموار کی گئی تاکہ وہ امریکہ سے کوئی نیوکلیئر ڈیل کرکے ان پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرے۔ عوام کو بھی احساس دلایا گیا تھا کہ اس ڈیل کے نتیجے میں ان کی زندگی پہ مثب اثرات پڑیں گے اسی لئے عوام نے اس ڈیل کا خیرمقدم کیا۔ یہ ڈیل بھی ہوگئی لیکن اس کے کوئی مثبت معاشی اثرات پیدا نہ ہوئے۔ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی مشکل یہ ہے کہ بدتر معاشی حالات اعتدال پسند حکومت کے دور میں پیدا ہورہے ہیں اور ان کے پاس اب حکومت تبدیلی کی امید کا کوئی کارڈ بھی عوام کو پیش کرنے کے لئے نہیں کیونکہ یہ سبھی کو علم ہے کہ متبادل سخت گیر قیادت زیادہ جارحانہ پالیسیاں اختیار کرت گی اور معاشی بحران کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ انہیں ٹرمپ سے درپیش ہے سخت گیر ٹرمپ ایرانی نیوکلیئر ڈیل کا سخت مخالف ہے اور ایران سے معاشی پابندیاں ہٹانے کا کٹر مخالف۔ تو اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا کمی ہرگز نہیں۔
ایرانی اسٹیبلشمنٹ اپنی علاقائی سیاسی کامیابیوں کو عوام کے سامنے میڈل کی طرح پیش تو کرتی رہی لیکن عوام میں یہ احساس جڑ پکڑتا گیا کہ لبنان، شام و عراق میں داعش کے خلاف کامیابیوں کی قیمت وہ غربت میں اضافہ کی شکل میں چکا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان ہنگاموں میں یہ نعرہ لگا کہ میری زندگی شام و لبنان میں نہیں بلکہ ایران میں ہے۔ ایرانی عوام کو یہ بھی یاد ہے کہ شاہ ایران کے دور میں وہ خطے کا خوشحال ترین ملک تھے اسی لئے بہت سے نعروں شاہ کے دور کا ناسٹیلجیا بھی موجود تھا۔ لیکن سب سے نمایاں اور حیران کن بات ایرانی انقلاب کے رہبر آیت اللہ خامینائی کے خلاف نعرہ بازی اور ان کی تصویروں کا اتارا جانا تھا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ سسٹم ہی عوامی حمایت کھو چکا ہے۔
خود بہت سے ایرانی مبصرین کے لئے بھی یہ ردعمل حیران کن تھا۔ مظاہرے بلاشبہ معاشی بنیادوں پہ شروع ہوئے لیکن بہت جلد سیاسی رنگ لے گئے۔ ان مظاہرین کی کوئی سیاسی قیادت بھی موجود نہیں۔توقع یہی ہے کہ ایرانی حکام بہت جلد ان پہ قابو پالیں گے اور ان کو کچل دیا جائے گا لیکن یہ ایک ایسے رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آنے والے وقت میں بڑھے گا۔ یہاں براہ راست ایرانی نظام ، انقلاب اور اسٹیبلشمنٹ سے انکار کیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مشکل یہ ہے کہ جن وجوہات کی بنا پہ اس کا آغاز  ہوا  اس کو دور کرنے کا کوئی روایتی طریقہ ان  کے پاس نہیں حکومت پہلے ہی اعتدال پسندوں کے ہاتھ میں ہے اور معاشی پابندیاں ہٹنے کے آثار موجود نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کا بھی خدشہ ہے کہ مزید پابندیاں نہ عائد ہوں۔
ایرانی نظام بیک وقت سیاسی، سماجی اور معاشی جمود کا حامل ہے۔ ایسے میں اگر معاشی جمود سے ہی نجات مل جاتی تو سسٹم کی دیرپا گارنٹی دی جاسکتی تھی لیکن اس کا امکان موجود نہیں۔ ایک ایسا ٹائم بم موجود ہے جس کی گھڑی ٹک ٹک کررہی ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply