وفاق اور قوم

جس طرح ہمارے ہاں ایک فکری مغالطہ مسلم قوم کے تصور کے باے ہے وہاں ایک اور فکری مغالطہ پاکستانی قوم کے بارے ہے۔ یہ مغالطہ بھی پنجاب اور اردو بولنے والے مہاجروں میں ہے۔ پختون ، بلوچ اور سندھی اس معاملے میں واضح ہیں۔ پنجاب میں ایک موثر اور با اختیار اقلیت ہمیشہ سے اپنے زیر اختیار نصاب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرتی آئی ہے کہ پاکستان ایک قوم ہے جس کی خاطر دوسری شناختیں ختم کرنا ہوں گی۔ حالانکہ دوسرے صوبوں خصوصا بنگالیوں، اور اس کے بعد بلوچوں، سندھیوں اور پختونوں نے بارہا یہ تاثر دور کرنے کی کوشش کی اور یاد دلایا کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں مختلف اقوام آباد ہیں اور جس کے مختلف سٹیک ہولڈرز ہیں۔ مگر ہم نے ایک مضبوط فوج اور ایک مضبوط سول سوسائٹی کے ذریعے اس وفاق کو چلانے پر ترجیح دی ہے۔ اور پہلے پنجابیوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو پاکستانیت کی بنیاد پر پنجابیت اور پنجابی سے دستبردار ہو گیا اور اس کے بعد دوسری اقوام سے بھی یہی مطالبہ کیا۔ جس سے بنگالیوں سے خون آشام تصادم اور علیحدگی ہوئی، بلوچ اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور سندھی اور پختوں اپنی شناخت پر اڑے ہیں۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ سمجھنے میں ابھی بھی کافی وقت لگے گا کہ پاکستان ایک وفاق کا نام ہے جس میں مختلف قومیں رہتی ہیں۔ ان تمام اقوام کی قومی شناخت اور قومی زبان کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کو آئینی حیثیث دینا ہوگی۔ اور ایک ایسا وفاق تشکیل دینا ہوگا جس میں ہر زبان بولنے والے اور ہر ثقافت کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ کوئی دوسری زبان یا ثقافت اس کو معدوم کر دے گی۔ یا کراچی میں بلوچ بستیاں کی طرح ریڈ انڈین کا درجہ دے گی۔ اگر ہم عوامی سطح پر اس وفاق اور اس کے تقاضوں کے بارے آگہی پیدا کر لیں اور تمام اکائیوں کو ریاستوں کا درجہ دے دیں، جو اپنی آزاد مرضی اور خوش دلی سے اس وفاق کا حصہ ہوں، تو ہم اپنے میں موجود اکائیوں کو بھی اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم وفاق کے قائل ہوں گے اور اس میں شامل مختلف اقوام کا وجود تسلیم کریں گے تو اس کے بعد ہم ایک رابطے کی زبان کی ضرورت محسوس کریں گے جو قومی زبان یا قومی رابطے کی زبان نہیں کہلائے گی بلکہ وفاقی رابطے کی زبان کہلائے گی

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply