عورت اور مرد کے کچھ روایتی صنفی کردار ہیں جو کہ انسانی نفسیات میں حد سے زیادہ سرائیت کئے ہوئے ہیں اور ان کو ہم نکال نہیں سکتے ہیں۔
جیسا کہ,ایک عورت چاہے جتنی مرضی آزاد ہو جائے وہ ہمیشہ چاہے گی کہ ایک مرد ہو جو کہ اس کو سُنے، سمجھے اور اس کی جذباتی ضروریات کا خیال رکھے اور سماج میں اس کو سکیورٹی دے۔ یہ وہ جینڈر رول یا پھر صنفی کردار ہے جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی عورت نہیں بھاگ سکتی۔
وہیں پر ایک مرد ہمیشہ چاہتا ہے کہ ایک عورت جو کہ اس کے ساتھ جی رہی ہے وہ اس کے ساتھ ہی رہے اور اس دوران کسی اور کا نہ سوچے۔
اب آپ دیکھیں،یہ جینڈر رول اتنے زیادہ مضبوط ہیں کہ ایک عورت جس کے ساتھ مرد جتنا مرضی مخلص ہو جائے اگر وہ اس کے احساسات کا خیال نہیں رکھے گا ،وہ اس کو چھوڑنے کا سوچنا شروع ہو جائے گی۔
بالکل ایسے ہی ایک مرد کو اگر عورت ذرا برابر پیار نہ دے ،اس کے احساسات کی قدر نہ کرے ،وہ اگر غلطی سے بھی کسی اور مرد میں دلچسپی ظاہر کر دے تو وہ مرد آنکھیں بند کر کے چھوڑنا پسند کرے گا۔ ایک مرد سالوں ایک عورت سے ناقدری کروانے کے باوجود اس کو بس بے وفائی پہ ہی چھوڑے گا کوئی مرد بھی کبھی کسی عورت کو پیار کی کمی کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔
اب ان جینڈر رولز پر ایک پوری سوشل فیبرک قائم ہے جس میں مختلف ذمہ داریاں بانٹی گئیں جیسا کہ چونکہ انسانوں کے بچوں کا Gestation period کافی لمبا ہوتا ہے اور انہیں نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے لہذا یہ بچے سنبھالنے کی ذمہ داری ایک عورت لے گی اور وہ خاندان شروع کرے گی۔
وہیں پر مرد اس گھر کو چلانے کی ذمہ داری نبھائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مرد ہمیشہ جنگ لڑنے کے لئے سب سے آگے رہتا ہے کیونکہ وہ ان صنفی کرداروں کو نبھانا جانتا ہے۔ کیونکہ لاکھوں سالوں کے ارتقاء نے اس میں ایک حکمت عملی بنانے اور لڑنے کی صلاحیت پیدا کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک عام سے عام مرد بھی اتنا زیادہ مسل ماس رکھتا ہے کہ اگر اس کا اوپن ماحول میں کسی فائٹر عورت سے مقابلہ ہو تو وہ اس سے جیت جائے گا۔
اب ہوتا یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان صنفی کرداروں کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس دوڑ میں اکثر وہ صرف اس چیز سے بھاگتے ہیں جو وہ انہیں دینا ہوتی ہے وہیں پر وہ لینے کے معاملے میں کبھی بھی پیچھے نہیں بیٹھتے۔
اور ان کی یہ سادہ سی حرکت ان کی مجبوری اور صنفی کرداروں اور ان کے ارتقاء کی تصدیق ہے۔
کوئی بھی عورت اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ کر کسی مرد سے اس کے مکمل جینڈر رول نہیں مانگ سکتی اگر مانگ رہی ہے تو اس کی تصیح کریں اور کوئی بھی مرد ایسا کرے تو اس کو بھی سیدھا کریں۔
مگر اس سے بھاگ کوئی نہیں سکتا۔ حتی کہ ڈیٹنگ چوائس آج کی سب سے آزاد خیال لڑکی کی بھی دیکھ لیں تو وہ انہیں جینڈر رولز پر مبنی ہونگی جن سے وہ بھاگنا چاہتی ہے۔
کیونکہ یہ سب ہمارے اندر کوڈڈ ہے۔

اور یوکرائن میں جنگ پر عورتوں کے برابری کے نعرے سے غائب ہونے کی مثال آئیڈل مثال ہے کہ سروائیول کے وقت یہ جینڈر رول سب کے ری سیٹ ہو کر وہیں جا ٹھہرتے ہیں جہاں ٹھہرنے کو اکثر لوگ toxicity مانتے ہیں۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں