خبط عظمت

ہم تقریبا پندرہ سال بعد ملے تھے، وہ نوجوانی کے ایام تھے جب ہم دونوں گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے ایک دوسرے سے کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں اور پھر خوبصورت اشعار تلاش کرکے ایک دوسرے کو بتلانا، اور ایک ایسی دنیا کے بارے سوچنا جو ہماری سوچوں کے علاوہ کہیں وجود نہ رکھتی، اس کا شاداب چہرہ، ہنستا اور سدا مسکراتا انداز دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا، میں اسے اکثر کہتا، تم کاش میں تم کو حاصل کر سکتا مگر کیا کروں میں نے ابھی ایک بڑا آدمی بننا ہے ایک عظیم آدمی، وہ اس پر ہنس پڑتی اور میں بڑے اہنماک سے اس کا چہرہ دیکھتا، مگر اب پندرہ برس بعد ایسی کوئی بات نہیں تھی اب میرے سامنے ایک تاثرات سے عاری چہرہ تھا اور اس کے ساتھ اس کے پانچ بچے جن کی عمریں مختلف تھیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اس کا مسکراتا چہرہ اب کہیں بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا تھا میں نے اس کی تلخ ازواجی زندگی بارے بہت کچھ سنا تھا مگر گذشتہ پندرہ برسوں میں ہم مل نہیں سکے تھے ہم نے بمشکل ایک دوسرے کا حال پوچھا پتہ چلا کہ ہمارے پاس اب ایک دوسرے کو سنانے کے لئے زیادہ باتیں نہیں ہیں۔ جب ہم روز ملتے تھے تو ہماری باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں اور اب جب ہم برسوں بعد ملے تھے تو ہمارے پاس اب ایک دوسرے کو سنانے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ جب ہم ایک دوسرے کو الوداع کہنے لگے تو میں نے پوچھا کیسی ہو، وہ بولی اچھی ہوں، کوئی بات کرو، وہ تلخی سے میری طرف دیکھ کر بولی، فقط ایک بات،میں نے پوچھنا ہے کہ تم واقعی بڑے آدمی بن گئے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply