امن کا سورج

امن کا سورج
وطن عزیز آج بہت نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ پیش آچکا ہے، جس میں ناقابل تلافی نقصان نے ہمیں بحیثیت قوم امتحان میں ڈال دیا ہے۔دشمن کی طرف سے پے در پے حملوں کا مقصد ہماری قومی وحدت کو بکھیرنا اور مایوسی کا ماحول پیدا کرنا ہے اور یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم ان حالات سے مایوس ہو کر دشمن کے ارادوں کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ یا اپنی تکلیف، درد، غم اور محرومی کو اپنی قوت بنا کر مثبت سوچ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر کے دنیا کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ ہم سیسہ پلائی دیوار ہیں اور ہمیں توڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ایک انگریز مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے اکیس تہذیبوں کے فلسفیانہ مطالعہ کے بعد 1954 میں ایک کتاب لکھی (A study of History )تاریخ کا مطالعہ کے نام سے جسے بہت شہرت حاصل ہوئی، اس کتاب میں وہ قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات میں لکھتا ہے کہ کسی قوم کا ابھرنا، اورترقی کرنےکی وجوہات یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی اعلٰی نسل سے ہے یا جغرافیائی اعتبار سے بہتر حالات اسے حاصل ہیں بلکہ اس کا انحصار کسی قوم کی اس صلاحیت پر ہے کہ پیش آمدہ چیلنج کا جواب وہ کس طرح دیتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ وہ قومیں ابھرتی ہیں جو خصوصی مشکلات پیدا ہونے کے وقت خصوصی جدوجہد کر سکیں: تہذیبوں کے ابھرنے کے بارے میں ٹائن بی کی توجیہات اس نظریہ پر قائم ہیں کہ جو چیزیں قوموں کے اندر احساس یکجہتی پیدا کرتی ہیں اور انہیں ابھرنے میں مدد دیتی ہیں وہ مشکل حالات ہیں،نہ کہ آسان حالات۔
*The rise of a civilization was not the result of such factors as superior racial qualities or geographical environment but rather as a people's response to a challenge in a situation of special difficultly that rouses them to make an unprecedented effort. Difficult rather than easy conditions prompted men to cultural achievement (4/659).*
مشکل حالات میں گھری ایک قوم اگر “ردعمل”کی نفسیات میں مبتلا ہو تو وہ اپنے حالات سے صرف فریاد و احتجاج کی غذا لے گی؛ اور اگر وہ حالات سے اوپر اٹھ کر مثبت طور پر سوچے تو اس کو نظر آئے گا کہ اس کے مشکل حالات اس کو نئی بلندیوں تک پہنچنے کا راستہ فراہم کر رہے ہیں۔(اقتباس ۔راز حیات )
“ٹائن بی”کے اس نظریہ کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست جو “مدینہ منورہ”کے نام سے وجود میں آئی سے لے کر اسلام کے نام پر بننے والی آخری ریاست “پاکستان “تک وہ کون سے حالات تھے جن سے مقابلہ کر کے اہل اسلام نے دنیا بھر کو ایک قوم ہونے کا احساس دلایا۔اسلامی تاریخ سے وابستہ افراد بخوبی جانتے ہیں کہ جب رحمت دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے جانثاروں کو کیا حالات درپیش تھے۔ عالم کفر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی جانوں کے دشمن بن چکے تھے، مگر اللہ رب العزت پر کامل یقین کی بدولت ہجرت فرمائی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مدینہ منورہ کے باسیوں نے اخوت اور بھائی چارے کی وہ مثال قائم کی جس کا زمانہ قیامت تک ثانی نہیں ڈھونڈ سکتا اور عظیم لیڈر دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو؛ دنیا نے دیکھا کہ اس ریاست نے کتنے لاکھ مربع میل پر اسلام کا پرچم بلند کیا ۔اب آتے ہیں چودھویں صدی میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست” پاکستان ” کے حالات کی طرف جو اس کی تکمیل کی راہ میں حائل ہوئے مگر ایک بار پھر بتوں کے پجاریوں نے دیکھا اور زمانہ گواہ ہے کہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “کی گونج میں توحید کے دیوانے اپنی جانوں اور عزتوں کی قربانی دینے سے نہ ہچکچائے اور 14 اگست 1947 کو “پاکستان ” ایک اسلامی ریاست کے طور پر دنیا میں اپنا وجود قائم کرنے میں کامیاب ہوا، وجود سے لے کر اب تک اہل کفر مختلف طریقوں سے اس پاک دھرتی کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں اور ان کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ہم پر مسلط اس حکمران طبقہ کا ہے جنہوں نے ہمیشہ قومی و ملی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔
جنہوں نے قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر(کہ پاکستان میں اسلامی نظام زندگی یعنی شریعت کا نفاذ ) کو صرف چند قوانین کی صورت میں وہ بھی صرف قانون کی کتابوں تک محدود رکھا اور قوم کو تقسیم در تقسیم کر دیا،قوم میں علاقائی،صوبائی تعصب کو ابھارا جس کے نتیجے میں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب 16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا، جس کی وجوہات میں سیاستدانوں کی حصول اقتدار کے لئے جنگ، ادھر ہم ، ادھر تم کا نعرہ، دیرینہ دشمن کے مذموم عزائم سے مجرمانہ چشم پوشی، لوگوں میں احساس محرومی، دفاعی افرادی قوت کی کمی اور امت مسلمہ میں تعصب کو ہوا دینا تھا ۔1971کی جنگ میں پاک فوج کے مدمقابل 1965کی طرح بھارتی فوج نہیں تھی، بلکہ اس کے اپنے تربیت یافتہ جنرل ، سپاہی اور ناراض ہم وطن شامل تھے۔
اس جنگ میں وہ پاکستانی بھی شامل تھے جو’’را‘‘سے تربیت حاصل کرچکے تھے۔ وسیع پیمانے پر فوج کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کارفرما تھا، اور سب سے بڑھ کر سیاسی انتشار کا پورا پورا فائدہ بھارت نے حاصل کیا تھا۔ فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں صدر کو رپورٹیں دے رہی تھیں کہ بھارت واضح طور پر مشرقی پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ صدر کو بتایا جاتا کہ بھارت، مشرقی پاکستان میں خودارادیت کی تحریک کی براہِ راست مدد کر رہا ہے۔ ایک دوست ملک نے بھی انہیں اس قسم کی معلومات فراہم کیں۔ جنرل یحییٰ خان نے ان الزامات کو سنجیدگی سے نہ لیا، لیکن جس وقت انہوں نے حقیقت کاادراک کیا تو صورتِ حال قابو سے باہر ہو چکی تھی۔ ان کی کابینہ کے بہت سے ساتھیوں نے بھی پاکستان کو دو حصوں میں توڑنے کی بھارتی سازش کی عوامی جلسوں میں بات کی تھی اور عوام اور صدر کو متنبہ کیا تھا۔ لیکن عوام نے بھی اور صدر نے بھی ان کے اس واویلے پر کان دھرنا مناسب خیال نہ کیا۔جس کے نتیجے میں وطن عزیز کے دوٹکڑے ہوئے، مگر پھر بھی “پاکستان “اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔آج ایک دفعہ پھر کچھ ایسی ہی بلکہ اس سے بھی بدتر صورتحال سے ہم دوچار ہو چکے ہیں۔
ہمیں ماضی سے سبق حاصل کر کے ان اسباب کو ختم کرنا ہوگا جن کی وجہ سے دشمن پہلے بھی اپنے مضموم عزائم میں کامیاب ہوا اور اب بھی مختلف طریقوں سے ہم پر حملہ آور ہے ۔اس کے لیے عام فرد سے لے کر قومی اسمبلی میں موجود قائدین، علماء کرام اور ملکی سالمیت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم و ملت کا دفاع کرنے والے اداروں کے ارباب اختیار کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔دوست اور دشمن کی پہچان کرنی ہو گی اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پاکستان کے وسیع تر مفاد کو ترجیح دینی ہو گی۔انشاءاللہ ظلم کی اندھیری رات ضرور ختم ہو گی اور میرے پاک وطن پر امن کا سورج اپنی کرنیں جلد بکھیرے گا ۔

Facebook Comments

عبدالرحمن نیازی
میں گمشدہ ۔۔۔۔ اپنی تلاش میں ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply