اے شہرِ مکّہ/ڈاکٹر اظہر وحید

اے شہرِ مکّہ!— تْو شہرِ عتیق ہے … کہ تیرے اندر بیت العتیق ہے۔
اے شہرِ مکّہ !—تْوشہرِ قدیم ہے—کہ تیرے اندر بیتِ ذاتِ قدیم ہے۔
اے شہرِمکّہ !—تْو اْمّ القریٰ ہے—تْو اْس مشفق ماں کی طرح ہے جو ہرقریے ‘ہر شہر سے آنے والوں کواپنی محبت بھری آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔
اے شہرِ مکّہ!—تْو بَلَدْ الامین ہے— جو تیرے پاس پہنچا‘ اْس نے امن پایا— خوف اور بھوک سے نجات حاصل کی۔جس نے اس شہرِپْرسکوں کا سکون برباد کیا وہ خود برباد ہوا — اُس کا زمانے میں نشان تک نہ رہا — اگر کوئی نشان رہا تو وہ نشانِ عبرت رہا۔کتنے ہی زمانے تیرے آگے پیچھے اوردائیں بائیں گْم ہوگئے مگرتْو زمانے میں کبھی گْم نہ ہوا— زمانے کا ہر نشان مٹ جائے گا مگر تیرانشان باقی رہے گا—کہ تیرے اندر اْس خدائے حیّ و قیّوم کا گھر ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والاہے—اور وہ ایسا قائم ہے کہ ہر زمانہ ‘ اْس کا زمانہ ہے — بلکہ وہ کہتاہے کہ زمانہ وہ خود ہے۔
آدمؑ تا ایں دم کتنے ہی انسانوں نے تیری گود میں سانس لیااور اپنی روح اور جسم دونوں کاسامان لیا۔ تیرے اندر محبت کاایک نہ ختم ہونے والازم زم ہے — جوکبھی نہیں ٹھہرتا — یہ زمزمۂ فیض تیری فضاؤں اور نداؤں میں چاروں اَور بہہ رہاہے۔
اے شہرِ مکّہ !“— تجھے زمانے میں ثبات کیونکر نہ حاصل ہو— کہ تیرے یہاں ہی تو اللہ کے دوست کا پائے ثبات ثبت ہے۔ مقامِ ابراہیم ؑ — نشانِ قَدم بھی ہے اور نشانِ قِدم بھی!
اے شہرِ مکّہ!— تیری عظمت کا سکّہ دوسرے شہروں پر اِس طرح قائم ہے‘ جس طرح قرآن کی عظمت دوسری کتابوں پر!! تیری عظمت کا ڈنکا چار دانگِ عالم میں بج رہا ہے۔ تیری فضیلت دنیاکے ہر شہر پر کیسے قائم نہ ہو —کہ دنیائے عالَم میں جہاں بھی بندگانِ خداہیں ‘ اْن کی جبینِ نیاز تیری ہی زمینِ ناز کی جانب جھکی ہوئی نظرآتی ہے۔تُو مرکز البلاد ہے۔ دنیاکے ہر شہر کی مسجد تیری ہی جانب قبلہ رْو ہے۔اطرافِ عالَم سے تیری طرف سفر کرنے کا قصد کرناعبادت ہے۔اِس متناہی دنیا میں تْو لامتناہیت سے عبارت ہے۔اگر کسی نے شمار کرناہوکہ سمندر میں کْل کتنے قطرے ہیں تووہ بس یہ شمار کرلے کہ حرم کی زمین پر آج تک کتنی جبینیں سجدہ ریز ہوئی ہیں— اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ صحرا میں کُل کتنے ذرّے ہوتے ہیں تو وہ فقط یہ شمار کرے کہ مطافِ حرم میں اب تک کتنے قدم کعبے کے گرد دوڑاکیے۔ مطاف حرم— تیرے گلے کا گلو بندہے۔
اے شہرِ مکّہ!— تُومخلوقاتِ عالم کی پناہ گاہ ہے—تجھ میں کعبۃ اللہ ہے۔وہ ذات جس کے لیے کوئی سمت، زمان اور مکان تجویز نہیں کیا جاسکتا— زمان و مکان کے ایک مجمع البحرین میں ایک مکان ایسا ہے جسے اُس ذات نے خود اپنا گھر قرار دیا۔ گو— ہر دل کی طرح ہر مکان اُس کا اپنا ہے‘ خوشا وہ دل اور وہ مکان جسے اُس نے اپنا کہا ہے۔ مومن کے دل کو عرش اللہ کہا ہے تو اُم القریٰ کے اس سیاہ پوش چوکور مکان کو اُس نے اپنا گھر کہا۔ فلیعبدو رب ھٰذا لبیت—،— لااقسم بھٰذالبلد —او ر— ببکۃ مبارکاً کی آیاتِ قرآنی کی ترتیل جب صحنِ حرم میں زایر کی سماعت سے گزر کر دل میں اترتی ہے تو اُس کا بچپن میں سنا ‘پڑھا‘ غیب پر ایمان مشہود ہونے لگتا ہے۔ قال گویا حال میں بدلنے لگتا ہے۔
بادشاہوں کے اْٹھائے ہوئے محلات اورفلک بوس عمارتیں عظمتِ کعبہ کے سامنے زمین بوس ہوئی جاتی ہیں مگر بیت اللہ کی عمارت ہے کہ اِس کی ہیبت و جلالت ہر آن بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اللہ اکبر!— کعبہ کی عمارت ’’اللہ اکبر‘‘کی ایک تفسیر ہے۔ فانی انسانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں اور اَمارتوں کو وقت کی دیمک کھا جاتی ہے۔ جب وقت کا پہیہ چلتاہے توبلندو بالاعمارتیں اپنے ہی بوجھ سے گرنے لگتی ہیں— مگر سیاہ پتھروں کی ایک سیاہ پوش عمارت ہے جو سادگی سے عبارت ہے — مگر حال یہ ہے کہ ہرحال میں عظمت میں سب سے بلند نظرآتی ہے— قہرِ جلالت میں یہ ہرعمارت سے بالارہتی ہے—اور پھر ایساکیوں نہ ہو کہ — کعبہ کی دیواریں اینٹ، چونے اور پتھر سے نہیں‘ بلکہ خونِ وفا سے تعمیر کی گئی ہیں۔ اِس کی بنیادوں میں آدمؑ کی صفاوت ہے —اِس کی دیواروں میں اِبراہیم ؑکی خلّت اور اسماعیل ؑ کی تسلیم و رضا ہے۔ صدق وصفا اور تسلیم ورضا خلیل اللہ کے ہاتھوں میں اِس طرح مرتب اورمرکب ہوئے کہ اِس عمارت میں یکجائی ویکتائی کی ایک شان پیداہوگئی — اِس کا قیام قیامت تک قائم ہوگیا۔
اے ربّ ِکعبہ ! تیری شانِ قِدم کا جلوہ اِس عمارت کی صورت میں اْس مخلوق کے سامنے عیاں ہے جو قدم قدم پر حَدث کاشکارہے۔ اے معبودِقدیم! بے شک تیرا قِدم ہی تیری بڑائی ہے— اوربندے کا حَدث ہی اِس کی عاجزی ہے۔قِدم نے جب چاہا کہ وہ حدث کا منظر دیکھے تو اُس نے حادث انسان تخلیق کیے۔ کعبے کے ارد گرد کا منظر وحدت ہی نہیں بلکہ وحدت الوجود کی گواہی دے رہا ہے— عجب نہیں جو شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ نے فتوحاتِ مکیہ کا متن کعبے کے سائے میں بیٹھ کر لکھا ہے— کعبے کے جلووں کی ضیاباری نےیقیناً اُس ولی کبیر کے دل میں القاء کا سامان کیا ہوگا۔
اے معبود ِمطلق!— تجھے نیند آتی ہے‘ نہ اونگھ— اور نہ تجھے تھکن ہی لاحق ہوتی ہے— مگر یہ کہ مخلوق بندگی کرتے کرتے تھک جاتی ہے— طواف کرتے کرتے قدم تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا—کہ ا نسان کا دل بھی تیراہی گھر ہے!!
اے معبودِ برحق ! —یہ حق ہے کہ تْو بے نیاز ہے‘ مخلوق کی سب عبادتوں سے‘ سب ریاضتوں سے— تْو چاہے تو محبت سے بھری اْس ایک نظر کو قبول کرلے جو بے اختیار ‘بار بار تیرے گھر پر پڑتی ہے—تْو چاہے تو صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے والے کا دِل صدق وصفا سے بھر دے —تْو چاہے تو اِس کی آنکھوں میں مروّت و مودّت کی جوت جگا دے — یہ ہوتو سعی بھی قبول ہو— وگرنہ ہر سعی — ایک سعیٔ لاحاصل!!
اے شہرِ مکّہ!— تْوہر شہر کا سحر توڑ کر رکھ دیتاہے۔ دنیاکے کسی شہر کا کوئی باشندہ ایسانہیں جو تیری حدود میں داخل ہو‘ اور تیری دل کش فضاؤں کےسحر میں گرفتار نہ ہو۔ کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جو تیری مشفق فضاؤں میں سانس لے اور اُسے کبھی اپنے شہر کی یاد بھی آئے۔
اے شہرِ مکّہ !—تْواْس وقت بھی میٹروپولیٹین تھا جب انسان نے ابھی میٹروپولیٹین کے ہجّے کرنا بھی نہیں سیکھے تھے۔دراصل تْوہر اْس روح کا آبائی شہر ہے جس نے روزِ الست ”الست بربکم “ کی صدا پر لبیک کہا تھا۔
انسانی شعور جو دائروں کااسیر رہتاہے— وہ اْس آسمانی نکتے تک کیسے پہنچے جو کعبے کی صورت ایک چوکور نقطہ بن کر زمین پر اْتر آیا ہے۔یہ نقطہ —درحقیقت چوکھٹ کا نکتہ ہے —اہلِ جہاں کی جبینوں میں تڑپتے ہوئے سجدوں کیلئے زمین پرایک چوکھٹ!
اے شہرِ مکّہ!— تْوشہرِ تحیّر ہے۔ جب کوئی تیری زیارت کا قصد کرتاہے تو وہ تیری حدود میں داخل ہوتے ہی پہلے قدم پر پہلے ہی لمحے اپنی عقل کو حیرت کے سمندر میں گم کربیٹھتاہے —اور پھر اگلے لمحے اپنا دل بھی ہار دیتاہے۔تیرا زائر اِس طرح واپس آتاہے کہ اپنا دل اور آنکھیں وہیں چھوڑ آتاہے— تاکہ تمام عمر تیری یاد میں تڑپتارہے اور بِن دیکھے آنکھ بند کرکے تیری زیارت کرتارہے۔
اے شہرِمکّہ!— تیری فضاؤں میں لاتعداد مناظر ہیں جو دھڑکتے دل کو تھام تھام لیتے ہیں—ایک دل اور دو آنکھوں کی بساط ہی کیا —بھلا کون کون سا منظر اپنی نظر میں سمیٹوں اور کس کس منظر سے صرفِ نظر کروں۔ ٹھہر ! ٹھہر ! اے مہلتِ عمر! — میں دل کو آنکھ بنالوں اور آنکھ کو دل —تاکہ اپنے مقدر کے حصے میں آنے والے سب کے سب مناظر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے اندر سمیٹ سکوں…!!
’’کْلّ یومٍ ھْو فی شان‘‘ کی تجلی یوں تو ہر جگہ ہے مگر کعبہ کے درو دیوار پراِس کا ظہور بدرجہ اْتم ہے۔ حرم کا نظارہ عجب ہے اور مطافِ حرم میں محوِ طواف جھلمل کرتے چہروں کا نظارہ عجیب تر۔ وہی تجلی جس سے کعبہ نَو بہ نَو سیراب ہورہا ہے — کعبے کے گردجمگھٹا کیے ہوئے زائرین بھی اْسی تجلی کی زد میں ہیں۔ مختلف النوع رنگ اور نسل کے چہروں کا کعبہ کی طرف رجوع کرنا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ربِّ کعبہ ہی ربّ العالمین ہے۔
مجھے رشک آتاہے اْن ابابیلوں پر جو سرِ شام حرم کی فضاؤں میں یوں پرواز کرتی ہیں جیسے محوِ طواف ہوں — جو یہیں پیداہوئی ہیں اور یہیں مر جائیں گی۔ مجھے رشک آتاہے اْن کبوتروں کے غولوں پر جو حرم کے دروازوں کے باہر‘ مکّہ کی گلیوں بازاروں میں زائرین کے قدموں کے درمیان غٹر غوں کرتے پھرتے ہیں… اے شہر مکّہ! — تیری حْرمت کے سبب انہیں بھی بھوک اور خوف سے نجات مل گئی ہے۔ یہ کبوتر حرم سے باہر رہتے ہیں اور مطاف میں داخل نہیں ہوتے … غالباً بااَدب ہو کر مطاف کی فضائیں اْن ابابیلوں کیلئے خالی کر دیتے ہیں ‘ جنہوں نے اَبرہہ کے لشکر پر کنکریاں برساکر کعبہ کی حفاظت کے فرائض سر انجام دئیے تھے۔کتنے خوش قسمت ہیں یہ کبوتر— زائرین اِن کے حوالے سے راستوں کی پہچان کرتے ہیں —گویا یہ مکّہ کی گلیوں کے نشاناتِ راہ ہوں۔ ’’بھائی !آپ کدھر ٹھہرے ہوئے ہیں ؟‘‘— جواب ملتاہے ’’ میں کبوتروں والے چوک کے پاس ہوں‘‘— سب زائرین جن فضاؤں میں آخری سانس لینے کی آرزو دل میں لیے اپنے اپنے وطن لوٹ جائیں گے‘ یہ کبوتر‘ یہ ابابیل‘ یہیں پیدا ہوئے اور اِن ہی فضاؤں میں اِن کا دم نکلے گا۔
اے حرمِ کعبہ ! تیری عظمت کتنی بلندیوں پر پہنچ گئی ہو گی جب تیرے رب کا محبوب رسولﷺ تیرے گرد محوِ طواف ہوگا۔اے مطافِ حرم! — ایک کلمہ گو کے نزدیک تیری حرمت کیلئے یہی کافی ہے کہ تْوسرکارِ دوعالم ؐ کی اونٹنی کے تلووں تلے لوٹ پوٹ ہوئی۔ اے سرزمینِ مکّہ! — تیری عظمت کیلئے یہی کافی ہے کہ تو ترپن (۳۵) برس مسلسل آقائے دوجہاںؐ کے نعلین کو چومتی رہی— دیکھ !نقشِ کفِ پائے محمدﷺ کے صدقے تیری عمر اب حشر تک دراز کر دی گئی—تْو اب کبھی پائمال نہ ہوپائے گی۔ اپنی بلند نصیبی پر ناز کر— تجھے ایسے فاتحِ عالم ؐ نے بغیر جنگ کیے فتح کر لیا ہےکہ اب تْوکبھی مفتوح نہ ہوگی۔ اَے فضائے مکّہ! —تجھ میں کبھی اْس مشامِ جاںؐ نے سانس لیا تھا‘جو کْل کائنات کی رْوحِ حیات ہے۔پس اْسیؐ کے دَم قدم سے تْوہمیشہ کیلئے ایسے معطر ہوگئی کہ اب تیری ہوائیں تاقیامت ہر زائر کو معطر بھی کرتی رہیں گی اور مطہر بھی!
اے شہرِ مکّہ! … تْو عالم کو محبوب کیوں نہ ہو‘ جب تو محبوبِ ؐربّ العالمین کو محبوب ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply