• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”(آخری قسط)… ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”(آخری قسط)… ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

1979 انقلاب کے بعد  کا ایران

1979 کا ایک اور اہم واقعہ ایران کے نئے آئین کی بحث ہے جس کی بنیاد پر نئے ایران کے سیاسی کلچر کے خدوخال طے ہونا تھے۔ اس  بحث میں شامل ہر گروپ نے مستقبل کے ایران کو اپنی آنکھ سے دیکھا۔ امام خمینی بنیاد پرست مذہبی آئین کے حق میں تھے جبکہ سیکولر خیالات اور درمیانے طبقے کی خواتین نے اس آئین اور نقطہ نظر  کی مخالفت کی۔ جب امام خمینی اور ان کی سیاسی تنظیم اسلامک ری پبلک پارٹی کو انقلاب کے بعد  1980 میں ہونے والے پہلے انتخابات میں پسپائی ہوئی تو انہوں نے اسے لمحہ فکریہ جانا۔ اس انتخاب میں صدارت کے لئے  ابوالحسن بنی صدر کی جیت نے امام خمینی کو “اسلام سیاست ہے” کے نظریہ کو عملی شکل دینے کے لئے اسے نئے سرے سے دیکھنے پر مجبور کیا۔  آزاد خیال بنی صدر نے صدارتی انتخاب تو جیت لیا مگر امام خمینی کے ماننے والوں نے “مجلس” کے اندر اور باہر ان کے لئے زمین تنگ کر دی۔  قریبا” ایک سال کے بعد بنی صدر کو بھی ایران سے فرار ہونا پڑا۔ صاحبان دانش کے لئے یہ بات حیرت کا باعث  ہو گی کہ فرانس نے بنی صدر کو اس شرط پر  سیاسی پناہ دی کہ وہ امام خمینی کے خلاف کسی کاروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس شرط  کی وجوہات پر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔

 

شاہ ایران نے اپنے دور حکومت میں کچھ ذاتی تحفظات کی بنا پر اور  کچھ سرمایہ دارانہ مغربی طاقتوں کے ایما پر بائیں بازو والوں پر اور آزاد خیال قوم پرست نظریات رکھنے والوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ پابندی لگا رکھی تھی۔  بنی صدر کو سیاسی پناہ دیتے ہوئے عین ممکن ہے کہ مغربی طاقتوں کے ذہن میں 1953 اور وزیراعظم مصدق کی یاد تازہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ مغربی سرمایہ دار طاقتوں نے سوچا ہو کہ مستقبل میں بائیں بازو  کی جماعتوں اور لبرل قوم پرستوں کے ساتھ معاملہ کرنا مشکل ہو گا جبکہ مذہبی علماء کے ساتھ پہلے بھی معاملات بخوبی نبھائے جا چکے ہیں، اس لئے انہوں نے شروع سے بائیں بازو اور قوم پرستوں کے مقابلے میں مذہبی راہنماوں کی بہت واضح تو نہیں مگر حمایت ضرور کی۔ایران کے منتخب صدر مگر ایران سے مجبورا” فرار ہو کر آنے والے ابوالحسن بنی صدر کی سیاسی پناہ کی شرائط طے کرنے میں شاید اسی سوچ کا ہاتھ ہو۔ شاید؟

 

دنیا کے ہر انقلاب کی کہانی ایک ہی ہے کہ انقلاب کے بعد  تمام گروپ طاقت حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ بات بھی پہلے ہو چکی ہے کہ انقلاب کے بعد  جو گروپ تشدد کو حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب ہو، وہ طاقت کے مراکز پر قبضہ کر لیتا ہے۔ “مجاہدین” نے ایران کی پارلیمنٹ پر حملہ کر کے امام خمینی سے تعلق رکھنے والے تہتر اہم اراکین کو مار دیا۔ ان میں ایران کے چیف جسٹس محمد بہشتی بھی شامل تھے۔ وہ آیت اللہ کا درجہ رکھتے تھے اور امام خمینی کے بعد دوسرے نمبر پر سمجھے جاتے تھے۔ انقلاب میں تشدد کے استعمال کی بات پہلے بھی ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ پر بم مارنے کے بعد امام خمینی کے ایماء پر مخالفوں کو چن چن کر مارا گیا اور یوں ایرانی انقلاب جو ملک کے ہر شخص، ہر طبقے اور ایران  کی ہر  فکری نہج کا مشترکہ ورثہ تھا، امام خمینی کے شیعہ اسلامی انقلاب تک محدود ہو کر رہ گیا۔ انقلاب کی کامیابی میں تشدد  کی تھیوری کے بہت سے ثبوت ہیں، ایران کی مثال ان میں سے ایک ہے۔

 

انقلاب کے فورا” بعد عراق کے ساتھ جنگ نے ایران کے لئے مشکل حالات پیدا کر دیئے اور ساتھ ہی ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے بھی مشکلات میں بڑا اضافہ ہوا۔ اس وقت یہ بحث مقصود نہیں کہ کس ملک نے کس کے ساتھ زیادتی کی یا عالمی سیاست کے ان امور کو کیسے سنبھالا جا سکتا تھا۔ مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ ایران کے پاس موجود وسائل جنہیں ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا، انہیں ایران سے باہر علاقائی اثرورسوخ کے لئے فراخ دلی سے استعمال کیا گیا ۔ انقلاب کے بعد اس پالیسی کے ایران کے معاشرے پر  اثرات  پر تجزیہ نگار گفتگو کرتے رہیں گے۔ایران اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی آج کی دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام پر چند ممالک کی اجارہ داری پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ضمنی بحث ہے۔ ایران اپنے کلچرل تحفظات کے باوجود اسی پرانے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے اور  اس میں مزید  قریبی حصہ دار  بننا چاہتاہے۔

 

انقلاب کے کافی عرصہ بعد ایران میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی لاگو کی گئی۔ اس پالیسی کو لاگو کرنے میں مذہبی علما اور حکومت کا مشترکہ کردارہے۔ یہ بات قابل تحسین ہے۔ یہ پالیسی مستقبل میں مفید  ثابت ہو گی ۔ اسے حکومتی پالیسی کہیں یا انقلاب کے بعد مسائل سے نمٹنے کی نئی بصیرت۔ یہ یقینا ایک انقلابی پالیسی ہے۔ تاہم انقلاب صرف ایک پالیسی کا نام نہیں۔ انقلاب ایران کو سیاسی، معاشی اور سماجی پہلووں سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

انقلاب کے بعد عام انسانوں کے سروں پر شاہ کی فوجی آمریت کی جگہ مذہبی آمریت مسلط ہو گئی جو اپنے جلو میں جدید یت اور روشن خیالی کی مخالفت لے کر آئی۔ اس نے مغرب اور مغرب سے تعلق کو شیطانی صفت قرار دے کر ملک میں اپنے اقتدار کی بنیادیں مضبوط کرنے کی کوشش کی اور اسی نعرے کا سہارا لے کر اپنے سیاسی مخالفین کو  راستے سے ہٹایا۔ شاہ کی آمریت ختم ہو  گئی اور ملک میں انتخابات ہونے کے باوجود، انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی، مذہبی علماء کی دست نگر ہو گئی اور ابھی تک اسی طرح ہے۔ علما اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کون انتخاب میں حصہ لینے کے قابل ہے اور کون نہیں۔ اس وجہ سے ایران کے اندر سیاسی آزادی محدود ہے۔ سیاسیات کے نقطہ نظر سے اسے عوامی جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لئے کون سی اصطلاح بہتر ہے، اس پر گفتگو ہم کسی اور دن پر چھوڑ دیتے ہیں۔انقلاب کے بعد اٹلی کی صحافی اوریانا فلاچی نے امام خمینی کے ساتھ انٹرویو میں انقلاب کے بارے میں کو کئی سوال کئے۔ اس سلسلے  میں ان کا امام خمینی کے ساتھ  انٹرویو ایران میں عوامی جمہوریت  کے بارے میں ان کے خیالات کی وضاحت کرنے میں مدد دے گا۔ جرنلسٹ فلاچی کا ایک سوال:

“فلاچی: آئین کے مسودہ کا ایک آرٹیکل ۔۔۔ ریاست کا سربراہ مذہبی اتھارٹی ہو گا۔ جو قرآن کو اچھی طرح سے جانتا ہو۔ جس کا سیدھا مطلب ہے ۔۔۔ “مذہبی علماء”۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ آئین کے مطابق ملکی سیاست پر مذہب  اور مذہبی علماء کی اجارہ داری ہوگی؟

امام خمینی: یہ قانون جس کی عوام توثیق کریں گے، یہ جمہوریت سے متصادم نہیں۔ عوام اپنے مذہبی علماء کو پسند کرتے ہیں، ان پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی راہنمائی چاہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم اور صدر کے کام کی نگرانی ملک کی سب سے بڑی مذہبی اتھارٹی کرے گی مگر  صرف اس لئے کہ وہ کوئی غلطی نہ کریں اور قرآن کے خلاف کوئی کام نہ کریں۔”

 

ابو الحسن بنی صدر اپنی کتاب ” مائی ٹرن ٹو سپیک” میں لکھتے ہیں کہ امام خمینی جب فرانس میں تھے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جمہوریت، انسانی آزادی، سیاست میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو معاشرے کی  ترقی کے بنیادی اصول گردانتے تھے۔ بنی صدر  کی کتاب کے مطابق امام خمینی نے ایران واپس پہنچ کر اپنا وعدہ توڑ دیا۔ واپس کے بعد امام خمینی فرماتے ہیں، “جب میں پیرس میں تھا تو  خاص طرح کی باتیں کرنا قرین مصلحت تھا۔ ایران میں اپنی ان کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے میں مصلحت ہے اور میں یہ بلا حیل و حجت کرتا ہوں” [مائی ٹرن ٹو سپیک – ص 2]۔

 

انقلاب ایران کے بعد سیاسی، سماجی، مذہبی اور کلچرل فضا کو  بنی صدر کی کتاب کی روشنی میں اور خمینی صاحب کے جرنلسٹ فلاچی کے انٹرویو  کے تناظر میں سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ انقلاب کے بعد خمینی صاحب کی ایران واپسی کے ساتھ ہی  مذہبی فکر کےسیاست پر اور کلچر پر اثرات کے  ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ انقلاب کے بعد  ایران کے اندر مذہبی اقلیتوں کے لئے عدم برداشت کی فضا پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ملک کے اندر ان کی تعداد  آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی۔ سیکولر، آزاد فکر اور روشن خیال لوگوں کے لئے بھی زمین سکڑتی چلی گئی۔ اس نے انقلاب کی کامیابی پر کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔

 

انقلاب کے بعد عالمی معاشی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔  پابندیوں کی وجہ سےعوام اور حکومت کی معاشی مشکلات سمجھ میں آنے والی بات ہے، مگر ملک کی معیشت جیسے شاہ کی زمانے میں تیل پر انحصار رکھتی تھی، وہ ابھی تک ایک “انحصاری معیشت” ہے۔ اگر انقلاب کے بعدکے ایران کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں دیکھنا ہو تو ، ایران ابھی تک اسی نظام کا حصہ ہے جیسے شاہ کے زمانے میں تھا۔ کیا اسے انقلاب کہا جا سکتا ہے؟ یہ ایک علیحدہ بحث طلب نکتہ ہے۔

 

ایران میں انسانی حقوق کی روایت شاہ کے زمانے سے ناپید تھی۔ انقلاب کے بعد بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی کوئی نئی روایت وجود میں نہیں آئی حالانکہ انقلاب کی خشت اول انسانی حقوق اور  آزادی کی خواہش ہے۔ اوپر دیئے گئے امام خمینی کے انٹرویو کے حوالے سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا تصور عوامی جمہوریت نہیں۔ اگر کسی جگہ تمام شہریوں کے حقوق برابر نہ ہوں اور انہیں اپنے حقوق کے واسطے کسی دوسرے کا محتاج ہونا پڑے تو  یہ اکیسویں صدی کے انسان کی حسیات اور ذکاوت کو مجرم قرار دینے کے مترادف ہے۔ یہ خیال اور قانون اور پالیسی ایرانی قوم  کو یک جان بنانے کی راہ میں بہت بڑی روکاوٹ ہے۔ خیال تو یہ تھا کہ انقلاب سے وابستہ آزادی اور حقوق کی بحث، انقلاب فرانس کے بعد طے ہو چکی ہے مگر آج ہم واپس اسی پرانی بحث کی طرف لوٹ آئے ہیں۔  انقلاب فرانس کے دانشور “ایبے سیعس Abbe Sieyes ”  کے ایک مضمون سے اقتباس:

 

“انسان کی سماجی اور سیاسی زندگی کے جتنے اجزا ہیں جن سے قوم کا خمیر اٹھتا ہے، ان میں  اشرافیہ کے واسطے خاص حقوق متعین کرنا ممکن نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ قوم میں کئی افراد  ہیں جو  بیمار، اپاہج یا سخت سست ہیں، یا ان کا معیار سے گرا ہوا اخلاق انہیں معاشرے کے لئے کارآمد بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔  قانون کے ہوتے ہوئے بھی وسیع سلطنت میں استثنا اور بد عنوانی موجود رہتے ہیں لیکن ہم اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ بد عنوانی اگر کم ہو تو  یہ ریاست کے حق میں بہتر ہے۔ اس سے بری بات کیا ہو گی کہ ریاست میں صرف چند افراد  ہی نہیں بلکہ شہریوں کا ایک پورا طبقہ کام نہ کرنے کو اپنی عزت سمجھے اور  جو بھی محنت کر کے بنایا گیا ہے، اس کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے اس کا بہترین حصہ اپنے تصرف میں لانے کا پلان کرے۔ ایسا طبقہ قوم کے تصور سے ناآشنا ہے اور اسے کاہلی کہتے ہیں۔ ۔۔ یہاں میرا مطلب مذہبی علماء نہیں۔ میرے  خیال میں عالم ہونا طبقاتی معاملہ نہیں کیونکہ عالم بننا عوام کی خدمت کے لئے ایک پیشہ ہے ۔۔۔”

خیال تو یہ تھا کہ انقلاب فرانس نے فرد، طبقہ اور معاشرےکے حقوق و فرائض طے کردیئےتھے اور روشن خیالی اور انسانی آزادی کا پرچم ساری دنیا کے لئے لہرا دیا تھا۔ ہم اکیسویں صدی میں ابھی بھی انسانی آزادی کی رنگ،نسل، مذہب اور مرد عورت کی برابری کی بنیادی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر فیض صاحب بے طرح یاد آئے۔ ایران میں وہ انقلاب جس کے لئے جواں لہو کی چھن چھن گرتی اشرفیاں کشکول کو بھرنے نکلی تھیں، اس کشکول کو بھرنے میں ابھی کچھ دن اور لگیں گے۔ ع:  وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔

قسط چہارم……..           https://www.mukaalma.com/109350/

قسط سوئم………       https://www.mukaalma.com/109157/

…….       https://www.mukaalma.com/108912/

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.mukaalma.com/108812/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply