سید ثاقب اکبر نقوی/حیدر جاوید سیّد

ہفتہ بھر سے چند دن اوپر ہوگئے سید ثاقب اکبر نقوی کےسانحہ ارتحال کو اس دوران بہت کوشش کی ان سے جڑی یادوں کو یکجا کرکے کچھ لکھ سکوں۔ کئی بار یادوں نے دستک دی لیکن حرف جوڑنے کی ہمت نہیں ہوئی، آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔
اگلے روز ایکسپوسنٹر میں قدیم محبی آغا سلمان باقر سے دو اڑھائی عشروں کے بعد ملاقات ہوئی۔ ذہن میں خیال آیا کہ آغا جی سے ثاقب نقوی کی مشترکہ یادوں پر کچھ گفتگو کی جائے مگر عین اسی لمحے خبط عظمت کے شکار ایک ادیب دوست کی بے پر کی نے اچھے بھلے ماحول کا ستیاناس کردیا۔ غیرضروری بحث ختم ہوئی تو آغا جی سے ہاتھ ملاکر رخصت چاہی۔
اب یہ سطور لکھتے ہوئے اس بات کا ملال عود آیا ہے کہ اگر خبط عظمت کا مریض اپنے مالک کی نئی ملازمت سے وفاداری کے اظہار کا بازاری انداز نہ اپناتا تو آغا سلمان باقر سے سیدی ثاقب نقوی کے حوالے سے ڈھیروں باتیں کی جاسکتی تھیں۔
سید ثاقب اکبر نقوی زمانہ طالب علمی میں سید ثاقب نقوی کے نام سے معروف ہوئے تب وہ لاہور کے فعال طالب علم رہنما سمجھے جاتے تھے آئی ایس او کے مرکزی صدر بھی رہے ۔ ایرانی انقلاب سے متاثر بہت سارے ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے اپنے بنیادی شعبوں کی بجائے دینی تعلیم کی طرف رجوع کیا۔
انجینئر سید ثاقب نقوی ان نوجوانوں میں سے ایک تھے۔
ہم یہاں اس پر مکالمہ نہیں اٹھارہے کہ اپنے بنیادی شعبہ کو ترک کرکے مذہبی طرز پر اصلاح معاشرہ کا راستہ اپنانے کا فیصلہ درست تھا یا غلط کیونکہ کسی بھی نظریہ سے عین جوانی میں متاثر ہونے والے نیا راستہ اپناتے ہوئے بہت جذبائی ہوتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے نظریہ کو نہ صرف ان کی اشد ضرورت ہے بلکہ اگر انہوں نے اس ضرورت کے سامنے سر تلیم خم کر کے اسلامی و انقلابی دعوت پھیلانے میں کردار ادا نہ کیا تو یہ غیرذمہ دارانہ طرز عمل ہوگا۔
ہم اور آپ اسی طرح سوچنے اور فیصلہ کرنے والوں کی فہم سے اختلاف یا اس کی تائید کا حق رکھتے ہیں۔ اختلاف رائے ہی اصل میں زندگی کا حسن ہے۔
تاریخ و سیاست اور صحافت کے اس ادنیٰ طالب علم کی ہمشیہ یہ رائے رہی ہے کہ آپ جو سوچتے اور جسے درست محسوس کرتے ہیں اس پر عمل کرکے دیکھائیں۔ زبانی جمع خرچ بیکار چیز ہے۔ اس فہم کی وجہ سے کم از کم میں ہمیشہ اپنے ان مختلف الخیال عزیزوں اور دوستوں کا احترام کرتا ہوں جو اپنے نظریہ پر عمل کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر میں جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے ناقد رہا ہوں اس کی جہادی تجارت امہ دوستی اور عالمگیر انقلاب اسلامی تینوں کو بے وقت کی راگنی اور وقت، وسائل اور افراد کا ضیاع سمجھتا ہوں حالانکہ میرے والد بزرگوار فوج سے رخصت کئے جانے کے بعد سے آخری سانس تک جماعت اسلامی کی فکر کے ہمنوا رہے نہ صرف ہمنوا بلکہ انہوں نے اس افغان جہاد میں اپنی جان دی جسے میں امریکہ سوویت یونین جنگ سمجھتا ہوں اور یہ رائے رکھتا ہوں کہ دستیاب مسلم امہ عموماً اور پاکستان بالخصوص عالمی سیاست میں عدم توازن برپا کرنے کے مجرم ہیں۔
معذرت کہ اپنی بات کی وضاحت کے لئے ذاتی حوالہ دینا پڑا۔
لگ بھگ یہی رائے میری ان دوستوں اور عزیزوں کے لئے رہی اور ہے جنہوں نے اپنی تعلیم کے بنیادی شعبہ میں تحقیق و جستجو کے نئے در وا کرنے کی بجائے بالکل نئے شعبہ کا انتخاب کرکے نیا جہان آباد کرلیا۔
نیا جہان آباد کرنے والوں کی فکر اور فیصلے دونوں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن نیا جہان آباد کرنے والے دوستوں اور عزیزوں نے اس ضمن میں کیا کیا یہ بہرطور ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔
سید ثاقب نقوی سے تعارف سال 1985ء میں ہوا ان دنوں میں ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور کا ایڈیٹر تھا اور شام میں ایک نئے نکلنے والے روزنامے ’’صباح الخیر‘‘ میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض کی ادائیگی کرتا۔
ان سے تعارف کے ابتدائی مہینوں میں معمول کی گپ شپ ہی رہی۔ ستمبر 1985ء کی ایک شب اپنے اخبار کے دفتر سے فلیٹ واپسی کے سفر میں پیش آنے والے حادثے میں ٹانگ تڑواکر پہلے سروس ہسپتال اور پھر 2 دیو سماج روڈ کی ایک عمارت کے بالائی کمرہ کا مکین ہوگیا۔
ماڈل ٹاون میں واقع اپنے فلیٹ کی بجائے اس جگہ قیام کی وجہ یہ رہی کہ فلیٹ پر دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہسپتال سے 2 دیو سماج روڈ کی عمارت کے بالائی کمرے میں منتقل کرنے کا فیصلہ خالصتاً ڈاکٹر محمدعلی نقوی شہید کا تھا۔
سیدی ثاقب نقوی اور ڈاکٹر سید محمد علی نقوی ان برسوں میں ایک پنتھ دو کاج کے مصداق تھے۔ دونوں صاحبان اور آغا سلمان باقر ہفتہ روزہ ’’رضاکار‘‘ کی مجلس ادارت کے رکن بھی تھے بیماری اور بے نوائی کے ان دو تین مہینوں میں یہی تین دوست ہمارے لئے والدین بھی بنے دوست بھی اور بھائی بھی۔
اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر گھنٹوں میرے پاس بیٹھتے حوصلہ بڑھاتے۔ ڈاکٹر سید محمدعلی نقوی اور سید ثاقب نقوی نے ان دنوں جس طرح دیکھ بھال کی ایسی دیکھ بھال صرف والدین ہی اولاد کی کرتے ہیں۔
بیماری کے ان دو تین مہینوں میں سید ثاقب نقوی سے روزانہ گھنٹوں نشست رہتی اور مختلف موضوعات پر بحث چھڑتی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اس لئے بہت ساری وہ باتیں برداشت بھی کرجاتے تھے جنہیں سن کر تازہ انقلابی توبہ توبہ کا ورد کرنے لگتے تھے ۔
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آیت اللہ سید ناصر مکارم شیرازی کی سربراہی میں لکھی گئی تفسیر قرآن، ” تفسیر نمونہ ” کے فارسی سے اردو ترجمہ کے لئے سیدی علامہ سید صفدر حسین نجفیؒ کی سربراہی میں جو بورڈ بنا سید ثاقب نقوی اس بورڈ کے سب سے فعال رکن تھے۔
ان کی نثر کے مجھ طالب علم سمیت دوسرے لوگ بھی ہمیشہ گرویدہ رہے اور ہیں۔ اپنی فہم پر وہ سختی سے عمل کرنے پر یقین رکھتے اور کوئی مصلحت آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔
طلباء سیاست اور پھر پاکستان میں ایرانی انقلاب پرستوں کے کئی ریاستی و امریکہ مخالف سیاسی معرکوں میں وہ پیش پیش رہے۔
بعدازاں وہ دینی علوم کے حصول کے لئے ایرانی حوزہ علمیہ چلے گئے۔ واپس آئے تو ’’البصیرہ‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کرنے سے قبل غالباً کسی اور نام سے تحریر و اشاعت کا سلسلہ شروع کیا پھر ’’البصیرہ‘‘ کے نام سے اپنا ادارہ بنالیا۔
ثاقب نقوی ہمیشہ وحدت اسلامی کے علمبردار رہے۔ اپنی رحلت کے وقت بھی وہ مذہبی تنظیموں کے ایک ملک گیر اتحاد ’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔ اپنی فکر و فہم کے ساتھ میدان عمل میں بھرپور کردار ادا کرنے کے بعد وہ دنیائے سرائے سے رخصت ہوئے۔
ان کا سانحہ ارتحال دوستوں عزیزوں محبین اور ان کے خانوادے کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ 1985ء سے 1990ء کے درمیان ان سے تقریباً روزانہ ملاقات رہتی کچھ دیگر امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ بنیادی موضوع ہفتہ روزہ ’’رضاکار‘‘ ہی رہتا۔
ایرانی انقلاب کے لئے ان کی رائے تھی کہ اس سے رہنمائی لے کر حکومت الٰہی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے اس موضوع پر جب بھی بات ہوئی انہوں نے میری کڑوی کسیلی باتوں سوالوں اور اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ کبھی کبھی یہ ضرور کہہ اٹھتے ’’اندر کا سرخا ابھی مرا نہیں‘‘۔
سیدی ثاقب نقوی ہمہ جہت شخصی تھے پچھلے ڈیڑھ دو عشروں سے لکھنے پڑھنے اور مکالمے کے لئے خود کو وقف کرچکے تھے۔ جوانی کے ایام میں غضب کے بزلہ سنج رہے۔ ایسے غضب کے جملوں کی مار مارتے کہ خدا کی پناہ۔
رفاقت و تعلق کے برسوں میں ایک بار معمولی سے خفا ہوئے اس خفگی کی وجہ مسئلہ تقلید تھا۔ اُن دنوں وہ ایک کالا بیگ ہمیشہ ساتھ رکھتے۔ اس میں پڑھنے کے لئے ایک کتاب اور ’’تفسیر نمونہ‘‘ کے ترجمہ شدہ مسودے کا حصہ ہوتا میں کبھی کبھی ان کی ہمہ جہتی پر حیران ہوتا وہ یہ سب کیسے کرلیتے ہیں ابھی گپ شپ کررہے تھے پھر مطالعہ کے لئے کتاب کھولی دو چار صفحات پڑھ لئے۔ ایکاایکی بیگ میں رکھے ’’تفسیر نمونہ‘‘ کے ترجمہ شدہ مسودے کو نکال کر دیکھنے بیٹھ گئے۔
اس دوران اگر کوئی انہیں مخاطب کرتا تو پوری توجہ سے بات سنتے جواب بھی دیتے۔ سید ثاقب نقوی تب بھی اپنے چار اور موجود لوگوں کے بلاامتیاز ثاقب بھائی تھے۔ ہر شخص اس امر کا دعویدار رہا کہ ثاقب بھائی اس پر خصوصی توجہ دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں۔
ان کے سانحہ ارتحال کے بعد برادرم سید نثار علی ترمذی نے جو مضمون لکھا اس میں بلاشبہ انہوں نے دل کھول کر رکھ دیا۔ ترمذی صاحب بھی گزرے عشروں کے ان انقلابیوں کی بچی کھچی نشانیوں میں سے ہیں جو ہر وقت ڈاکٹر محمدعلی نقوی اور سید ثاقب نقوی کے نئے حکم کے منتظر رہتے اور کام کام پھر کام میں مصروف بھی۔
عزیزم سید انجم رضا ترمذی بھی ان برسوں کے خوش مزاج دوستوں میں سے ہیں۔ ایک طرح سے یہ سارے دوست انجمن متاثرین ڈاکٹر سید محمدعلی نقوی قرار دیئے جاسکتے ہیں۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے سیدی ثاقب اکبر نقوی کی دوستوں اور عزیزوں کا بڑا حلقہ ایک صاحب علم و فکر شخصیت سے محروم ہوگیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply