• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ستاروں کا فاصلہ کیسے ماپا جاتا ہے؟/قسط1-ڈاکٹر حفیظ الحسن

ستاروں کا فاصلہ کیسے ماپا جاتا ہے؟/قسط1-ڈاکٹر حفیظ الحسن

آپ نے اپنا قد ناپنا ہو تو کسی دیوار کے ساتھ لگے سکیل کے قریب ٹھہر کر سر پر ہاتھ رکھیں گے اور پیچھے موجود نشان کو چھوئیں گے۔ سکیل پر ایک ایک انچ ایک ایک لکیر سے ظاہر ہو رہا ہوگا۔ آپکو اپنا قد معلوم ہو جائے گا۔ گویا آپ نے پہلے سے ماپے گئے فاصلے سے جو سکیل پر بنا تھا، کی مدد سے اپنا قد معلوم کیا۔ ایسے ہی اگر اپ نے قریب پڑے کسی ٹیبل کی لمبائی ماپنی ہو تو شاید کسی فٹے یا مستریوں والی “انچی ٹیپ” سے ماپیں گے۔ فاصلہ زیادہ ماپنا ہو تو اس سے بھی لمبی انچی ٹیپ جو میٹر کے حساب سے ہو، سے فاصلہ ماپیں گے مگر دور کی کسی شے مثال کے طور پر اگر آپکے گھر کے سامنے کوئی پہاڑ ہو، تو اس تک کا فاصلہ آپ کیسے ماپیں گے؟
اسکا ایک جواب تو یہ ہے کہ آپ پہاڑ تک چل کر جائیں اور یہ نوٹ کریں کہ آپ نے پہاڑ تک پہنچنے میں کتنے قدم اُٹھائے اور ہر قدم اوسطاً کتنے فاصلے کا تھا۔ فرض کیجئے آپ نے پہاڑ تک جانے میں 1 ہزار قدم اُٹھائے اور آپکا ہر قدم اوسطاً آدھا میٹر تھا تو آپ نے پہاڑ تک پہنچنے میں 500 میٹر فاصلہ طے کیا۔ یوں آپکے گھر سے پہاڑ کا فاصلہ 500 میٹر بنا۔
لیکن یہ ایک تھکا دینے والا کام ہے اور یہ کوئی اتنا صحیح طور پر فاصلہ ماپنے کا طریقہ نہیں اور فرض کیجئے پہاڑ آپ سے بے حد دور ہو تو اپ چکتے چلتے تھک جائیں گے۔تو اسکا کیا حل ہے؟
اسکے لیے ایک اور سادہ سا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کے پاس ایک سادہ سی گھڑی ہو جس پر آپ وقت کو منٹوں یا پھر سیکنڈز میں دیکھ سکتے ہوں تو آپ ایک گاڑی میں بیٹھیں۔ جس وقت گاڑی میں بیٹھیں ، اس وقت گھڑی پر وقت نوٹ کریں اور پھر ایک مستقل رفتار کے ساتھ گاڑی اپنے گھر سے کسی دور کے پہاڑ تک سیدھی لائن میں چلائیں۔ فرض کریں گھڑی پر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وقت 10 بجے تھا۔ آپ 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہیں اور 10 بج کر 10 منٹ تک پہاڑ تک پہنچتے ہیں تو آپکو پہاڑ تک پہنچنے میں کل وقت 10 منٹ لگے۔ یوں آپ جب 10 منٹ کو گاڑی کی رفتار سے ضرب دیں گے تو
آپکے پاس آپکے گھر سے پہاڑ تک کا فاصلہ آ جائے گا۔
یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر اس میں ایک مسئلہ ہے۔ وہ یہ کہ گاڑی روڈ پر چلتی ہے اور ہمیشہ سیدھی لکیر میں نہیں جا سکتی ۔ دوسرا آج کل پیٹرول بہت مہنگا ہے سو محض فاصلہ ماپنے کے لیے اتنا پیترول کیوں جلانا۔
اسکا ایک دوسرا حل ہے ۔۔کسی موکل کو بلائیں اور اس سے یہ کام کروا لیں مگر یہ سہولت کسی بنگالی بابا یا عامل کو ہی مسیر ہے۔ سائنسدانوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ تو سائنسدان کیسے دور کی چیزوں جیسے کہ سیاروں یا ستاروں کا فاصلہ معلوم کرتے ہیں؟
اسکے کئی طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا یعنی جسی شے کی رفتار اور اسکا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا وقت معلوم ہو تو اسکا فاصلہ ماپا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سائنسدان یہ جانتے ہیں کہ روشنی کی رفتار خلا یا فضا میں مستقل ہے۔ روشنی کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اب اگر آپ ایک لیزر کے ذریعے روشنی کی شعاعیں سامنے نظر آتے پہا پر پھینکیں اور وہ پہاڑ سے ٹکرا کر اس روزنی کا کچھ حصہ اپکے پاس واپس آئے اور آپکے پاس کوئی ایسا آلہ ہو جو اس روشنی کو ڈیٹیکٹ کر سکے تو اپ با آسانی گھر بیٹھے سامنے کے پہاڑ تک کا فاصلہ ماپ سکتے ہیں۔ یہ فاصلہ دو طرف کا ہو گا کیونکہ روشنی کو جانے اور آنے میں برابر وقت لگا۔ لہذا اصل فاصلہ اسکا آدھا ہو گا۔
بالکل ایسے ہی ہم ریڈییو ویووز کے ذریعے نظامِ شمسی کے مختلف سیاروں کا فاصلہ ماپ سکتے ہیں۔ ریڈیو ویوز بھی روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ اس سے ہم عطارد ، زہرہ یا مریخ کا فاصلہ با آسانی ماپ سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ چاند کا بھی۔ 1969 سے لیکر 1972 تک جب انسان چھ مرتبہ چاند پر گئے تو انہوں نے چاند کی سطح پر بڑے بڑے خاص طرح کے شیشے رکھے جنہیں ریٹرورفلیکٹر کہتے ہیں۔
ان شیشیوں پر آج بھی زمین سے لیزر کی شعاعیں چھوڑی جائیں تو چاند کا زمین سے فاصلہ نہایت بہتر طور پر سینٹی میٹر سے بھی کم کی ایکوریسی سے معلوم کو سکتا ہے۔ ان فاصلوں کی پیمائشوں سے سائنسدانوں نے جانا کہ چاند ہر سال زمین سے اوسط 3.8 سینٹی میٹر دور ہوتا جا رہا ہے۔
گو روشنی کی رفتار کائنات کی تیز ترین رفتار ہے مگر پھر بھی کائنات بے حد وسیع ہے اور ستارے ہم سے اتنی دور کہ اُنکی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں کئی سو سال سے کئی کروڑ سال تک سکتے ہیں۔
اگر ہم دور کے ستارے دیکھیں جنکی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں سال لگتے ہوں تو ہم اوپر موجود طریقہ کار سے انکا فاصلہ کم سے کم اپنی زندگی میں تو نہیں ماپ سکتے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ زمین سے روشنی کوستاروں تک بھیجا جائے تو وہ ستاروں سے منعکس ہو کر تو واپس نہیں آئے گی جسیے کسی پہاڑ کی سطح سے ٹکرا کر واپس آتی ہے۔ ۔ سو یہ طریقہ کار ستاروں کے فاصلے کی پیمائش کے لیے بے کار ہے۔
پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
یہ آپکو اگلی پوسٹ میں بتاؤنگا۔ تب تک سوچتے رہئے، خود تحقیق کیجئے یا پھر انتظار کیجئے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply