• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانیہ کا جنرل کرامویل اور پاکستان کا جنرل مشرف/طفیل مزاری

برطانیہ کا جنرل کرامویل اور پاکستان کا جنرل مشرف/طفیل مزاری

برطانیہ کو دنیا کی سب سے قدیم اور طویل جمہوریت کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کی پارلیمان کو جمہوریت کی ماں کہلوانے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ سترہویں صدی کی بات ہے جب وہاں پر جنرل اولیور کرامویل نامی ایک آمر نے حکومت پر بزور طاقت قبضہ کر کے پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس سے چند برس قبل وہ برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول کو موت کی سزا دلوانے کے بھی ذمے دار تھے۔ سنہ 1653 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد کرامویل نے نئے آئین کے تحت خود کو لارڈ پروٹیکٹر قرار دیا اور پانچ سال تک برطانیہ پر حکومت کی۔ 1658 میں ملیریا کے باعث، جب وہ بیمار ہو کر فوت ہوئے تو انہیں مکمل قومی اعزاز کے ساتھ ویسٹ منسٹر ایبے کے شاہی قبرستان میں دفنایا گیا۔

جنرل کرامویل کی موت کے ڈھائی برس بعد برطانیہ میں دوبارہ آئین بحال ہوا اور مرحوم بادشاہ کے بیٹے چارلس دوم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ 30 جنوری 1661 کو چارلس اول کی بارہویں برسی کے موقع پر آئین شکنی کے مرتکب اس مجرم کی لاش کو قبر کھود کر باہر نکالا گیا اور ڈھانچے کو لندن کے ایک چوک میں زنجیروں سے باندھ کر پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد اس کے ڈھانچے کو تو دفنا دیا گیا، لیکن کھوپڑی اگلے 24 برس تک ویسٹ منسٹر ہال کے باہر ایک کھمبے پر لٹکتی رہی۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد آج تک برطانیہ میں کسی آمر کو دوبارہ آئین شکنی کی ہمت نہیں ہوئی۔

پاکستان میں پارلیمانی نظام کے لئے رہنما ماڈل برطانیہ کا ہے، لیکن یہاں پر آئین شکنوں کو کٹہرے میں لانے کی بجائے اعلیٰ عدالتوں سے نظریہ ضرورت کے تحت جواز فراہم کرنے کی روایت موجود ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا، جب عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھے کے تحت پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے، جہاں پر اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔

جسٹس سیٹھ وقار نے تفصیلی فیصلے میں مزید یہ لکھا کہ افواج پاکستان کی کور کمانڈرز کمیٹی سمیت ہر وہ باوردی شخص جو جنرل ریٹائرڈ مشرف کے ساتھ تھا اور ان کی حفاظت کرتا رہا وہ مشرف کے جرم میں برابر کا شریک ہے اور وفاقی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان افسران کے خلاف تفتیش کرے اور مقدمات درج کروائے۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ان تمام افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے جنہوں نے پرویز مشرف کو ملک سے فرار ہونے میں مدد کی۔

فیصلہ سنائے جانے کے بعد پورے ملک میں ایک ہلچل مچ گئی، جہاں پر اپوزیشن نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ قرار دیا، وہاں حکومتی حلقوں کی جانب سے محتاط ردعمل سامنے آیا، لیکن چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان کی طرف سے یہ تحریری بیان جاری کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے اور یہ کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔

بعد ازاں چند برس بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار احمد سیٹھ کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کے انتقال پر اس وقت کے صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ فیصلہ آنے سے قبل پرویز مشرف نے طبی بنیادوں پر سپریم کورٹ سے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی اور یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتوں میں وطن واپس لوٹ آئیں گے، لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئے اور نہ ہی اپنے خلاف قائم دیگر مقدمات کا سامنا کیا۔

کچھ عرصہ قبل پرویز مشرف کے شدید بیمار ہونے کی خبریں اور تصاویر سامنے آنے لگیں ہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر تو ہر دوسرے دن ان کی موت کی خبر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان خبروں کے بعد جنرل مشرف پر مقدمہ قائم کروانے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایک ٹویٹ نے سوشلستان پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی عظمت کا بول بالا کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں، اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے انہوں نے پرویز مشرف کو اپنے جیسے صدموں سے دور رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور سب سے دلچسپ یہ کہ خود جلاوطن ہونے کے باوجود حکومت کو اسے وطن واپسی میں سہولت دینے کی تاکید کی ہے۔

اس عظیم الشان ٹویٹ کے بعد پاکستان میں ایسے لوگ جن کو ہمیشہ وعدہ فردا کی آس پر بہلایا گیا اور فیض کے بتلائے اس عظیم دن کی نوید سنائی جاتی رہی، جس میں سارے تخت و تاج اچھالنے گرانے کا ذکر ہے، ان کو اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ لازم ہے کہ وہ دن ہم بھی نہیں دیکھیں گے۔

بقول حفیظ میرٹھی ہم عوام حیراں ہیں کہ

شیخ قاتل کو مسیحا کہہ گئے
محترم کی بات کو جھٹلائیں کیا

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: مضمون کی تیاری میں وکیپیڈیا، بی بی سی اور دیگر ذرائع سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply