• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی صدر کا متوقع دورہ مشرق وسطیٰ اور اسکے اثرات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر کا متوقع دورہ مشرق وسطیٰ اور اسکے اثرات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی سعودی عرب پہنچ گئے تھے اور ایک نئے مشرق وسطیٰ کا منصوبہ شروع کر دیا تھا، جسے ابراہیمی اکارڈ کا نام دیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے مقدس نام کو اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ امن اور مذہبی وحدت کے خوبصورت نعروں کے ساتھ اہل فلسطین کی زمینوں کو ہڑپ کرنے اور ان کی شناخت کو ختم کرنے کا پچھلے کچھ عرصے میں بنائے گئے سارے منصوبوں سے یہ خطرناک منصوبہ تھا۔ ٹرمپ حکومت نے اس پر پورا زور لگا دیا اور عرب امارات و بحرین کو خوفزدہ کرکے اس معاہدے میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ سعودی عرب کے حوالے سے حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا گیا کہ اس کا اس میں کیا کردار ہے؟ ظاہراً سعودی عرب نے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات اور دو ریاستی حل کی بات ہی کی، مگر سعودی عرب نے بڑی تیزی سے ایسی آوازوں کو ختم کیا، جو اسرائیل سے تعلق میں مانع بن سکتی تھیں۔ مذہبی قیادت کے اختیارات محدود کر دیئے گئے اور اسرائیل سے تعلقات کی حساسیت کو ختم کر دیا گیا۔

ایک وقت تھا کہ عرب دنیا میں کوئی ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات تو دور کی بات، آفیشل ملاقات کا اعتراف نہیں کرسکتا تھا، مگر اب دورے ہو رہے ہیں اور معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ اہل فلسطین کے مفادات کو بیچنے کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ یہ خبریں ہیں کہ جیسے جاپان، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ نے چین کے خلاف ایک اتحاد قائم کیا ہے، بالکل اسی طرح کا ایک چار ملکی اتحاد خطے میں بننے جا رہا ہے۔اس اتحاد میں عرب امارات، انڈیا، امریکہ اور اسرائیل بنیادی اراکین ہیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ عرب امارات ہی بحرین اور سعودی عرب کی نمائندگی بھی کرے گا، البتہ بحرین خود بھی شامل ہوسکتا ہے، جیسے وہ اسرائیل سے تعلقات میں آگے بڑھ گیا ہے۔ اس دورے میں امریکی صدر جو بائیڈن ایک اہم اجلاس سے بھی خطاب کریں گے، جس میں سعودی عرب، امارات، مصر، اردن اور عراق کی قیادت بھی شریک ہوگی۔ البتہ جب جو بائیڈن اس اجلاس سے خطاب کر رہے ہوں گے تو وہ اس سے پہلے اسرائیل کا دورہ مکمل کرچکے ہوں گے۔

اس سے ان کی ترجیحات کا کافی حد تک اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی اور ٹرمپ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ یہ ابراہیمی اکارڈ کے کارڈ کو بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر یہ بیان دینا نہیں بھولیں گے کہ دو ریاستی حل ہی پائیدار حل ہے، مگر عملی طور پر جیسے امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کو پاوں تلے روندتے ہوئے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر لیا تھا، اسی طرح باقی بچی زمینیں بھی اسرائیل کو دینے کی مکمل تیاری ہے، یہ تو چند فلسطینی سر پھرے ہیں، جن کی قوت و طاقت سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے۔ ویسے یاد دہانی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ یہ وہی جو بائیڈن ہیں، جو الیکشن مہم میں سعودی عرب کی انسانیت دشمن پالیسیوں پر ناصرف تنقید کرتے تھے بلکہ صدر بننے کی صورت میں سعودی عرب سے تعلقات کو لے کر کافی حساس تھے اور سزا وزا دینے کا بھی جذبہ رکھتے تھے، خیر یہ سب قصہ پارینہ ہوا۔

اسی طرح سعودی عرب بھی کچھ لوگوں کی خاص اطلاعات کے مطابق امریکی صدر کی کال نہیں سن رہا تھا۔ اس وقت بھی یہ سن کر حیرت ہوتی تھی اور دل خواہش کی بنیاد پر خبریت کی تحقیق سے بھی مانع ہو جاتا تھا کہ خبر دینے والے سے کہیں کہ اگرچہ یہ جھوٹ ہے، مگر تمہارے منہ میں گھی شکر۔ اس دورے کو ذرا بڑے کینوس میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے روس کو یوکرین میں بری طرح الجھا دیا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ اسے یورپ اور یوکرین کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ میں مقیم ہوچکی ہے اور جنگ کی آگ مسلسل بھڑک رہی ہے۔ امریکی اسلحہ خوب فروخت ہو رہا ہے۔ ویسے تو یہ لفظ ہمارے ہاں کافی بدنام ہوگیا، مگر یورپ میں کچھ ممالک نیوٹرل تھے، نہ نیٹو میں تھے اور نہ ہی روس کے ساتھ تھے۔ ان ممالک کو یوکرین کی حالت بتا بتا کر اتنا خوفزدہ کیا گیا ہے کہ اب سویڈن جیسا ملک بھی نیٹو میں شامل ہونے کی درخواستیں کر رہا ہے، جو پوری سرد جنگ میں نیوٹرل ہی رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روس کو الجھا کر یورپ کو مصروف کرکے اب مشرق وسطیٰ کی باری ہے کہ انہیں کیسے چین کے خلاف استعمال کیا جائے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ جس اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں اور جس کے لیے امریکی صدر خطے میں آرہے ہیں، وہ فقط مشرق وسطیٰ سے تعلق نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہوتا تو سعودی عرب میں خاشقچی کا دباو برقرار رکھا جاتا اور انسانی حقوق کے ایک دو رپورٹیں بھی خصوصی طور پر دورے سے پہلے جاری کروائی جاتیں کہ ذرا مذاکرات میں کافی پتے ہاتھ میں رہیں۔ اس پورے تناظر میں انڈیا کی موجودگی بڑی اہم ہے، اس پر کسی روز تفصیل سے بھی لکھیں گے، مگر ابھی صرف اتنا ہی کہ اگر یہ اتحاد فقط مشرق وسطیٰ کو ڈیل کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہوتا تو اس میں انڈیا کی شمولیت غیر ضروری ہوتی۔ چین کو خطے سے دور کرنے کے لیے اور چین پر دباو بڑھانے کے لیے بھارت کو اس معاہدے میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یوں امریکہ یہ چاہتا ہے کہ خطہ ایک اتحٓاد کی صورت میں چین کے خلاف محاذ آرائی کرے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply