ولی عالم شاہین کے ساتھ ایک انٹرویو، ایک ملاقات

قطب شمالی کی منجمد سر زمین میں کینیڈا ایک حسین ملک اپنی تمام تر مظاہر فطرت کی بو قلمونی سے مالا مال ہے۔ اور ہندوستانی اور پاکستانی تارکین وطن کے لئے یہ منجمد خطہ دشوار گزار نہیں لگتا جس کی وجہ انڈیا اور پاکستان کی تمام زبانوں کا ذائقہ یہاں ملتا ہے۔ اورخاص طور پر اُرد و اور اردو ادب کے پھیلاؤ اور ادب کی گہما گہمی اور گرمی نے انجماد کو پگھلا دیا ہے۔کیوں کہ موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو اردو ادب کی گہما گہمی اور سر گرمیوں کا آتش دان جلتا ہی رہتا ہے۔ اور یہ الاؤ شاعروں اور ادیبوں کی زندگی کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔

راقم الحروف نے کئی   سال ٹورنٹو میں گزارے  تو یہ رونقیں زندگی کا حصہ بنی رہیں۔ لیکن چھ سال قبل ٹورنٹو سے آٹوا رہائش اختیار کرنے کی وجہ سے ان گہما گہمیوں سے کچھ عرصہ کے لیے  محروم ہونا پڑا۔ لیکن یہیں سے سائنس کی ایجادوں نے مدد کی او فیس بک نے بہت سے دوست بنادئیے اور پھر جب بھی ٹورنٹو کے کسی دوست سے بات ہوتی تو ہر بار ایک سوال ہوتا کہ ” اچھا تو آپ آٹوا میں ہیں ؟ تو پھر آپ ولی عالم شاہین سے ملی ہوں گی؟ رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ ولی عالم شاہین فخر آٹوا ہی نہیں کل عالم انہیں جانتا ہے سوائے میرے ۔ تو یہ لا علمی میرے لئے شرمندگی اور محرومی کے احساسات کا باعث بن رہی تھی مجھے محسوس ہوا کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔بہت ارادہ باندھا مگر کرونا کی پابندیاں آڑے آتی رہیں لیکن فیس بک کے توسط سے ولی عالم شناساۓ عالم ہی ٹھہرے ۔ اپنی 2022 میں شائع ہونے والی کتاب ان کو بھجوائی  تو انہوں نے فورا ً اس پر تبصرہ لکھ ڈالا اور فراخ دلی اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوۓ میری حوصلہ افزائی کی۔ ۔

کرونا پابندیوں کے مکمل ختم ہونے کے بعد اور 2022 کے ختم ہونے سے پہلے دل میں ٹھان لی کہ کم از کم  آٹوا میں رہتے ہوۓ ولی عالم شاہین سے نہ ملے تو پھر نہ جانے کل کہاں۔
بذریعہ ای میل ملاقات کی تاریخ اور وقت مل گیا۔ ملاقات کا وقت تعین کرنے سے لےکر ان کے گھر تک پہنچنے، ان کے اور اہل خانہ کا ہمارا پُرجوش اور والہانہ استقبال رسمی و غیر رسمی گفتگو، میزبانی کے اعلیٰ   آداب، پُر تکلف کھانا ، فراخ دلی اور  محبت کے ساتھ لائبریری کا وزٹ اور سب سے بڑھ کر قابل ذکر بات ان کے صاحبزادے کیفی جو خود بھی فیڈرل گورنمنٹ میں ایک اعلیٰ  عہدے پر فائز ہیں ،کا کُل وقتی ہمارے ساتھ شریک گفتگو رہنا اور اس کے بعد اس سال کے آخری برفانی طوفان کی آمد سے پہلے مینوٹک سے ایمبرن اپنے گھر واپسی کا سفر جبکہ موسم کی شدت کا آغاز ہو چکا تھا تمام روئیداد قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہے۔

شاہین صاحب کے ساتھ غیر رسمی گفتگو اتنی دل چسپ تھی کہ مجھے اجازت لینا پڑی یہ باتیں میں انٹرویو کی شکل میں اردو ادب کے خاص و عام قارئین تک پہچانا چاہتی ہوں تو کیا میں اپنی نوٹ بک میں اس کو لکھ سکتی ہوں؟ فرمایا ” جی بالکل جو آپ کا دل چاہے لکھیں”
لہذا قارئین کی خدمت میں شاہین صاحب کی اسی سالہ زندگی کی یہ نہایت عمدہ اور انسپائریشنل گفتگو سوال و جواب کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ میرے اور شاہین صاحب کے درمیان ہوئی۔

انٹرویو!
صادقہ نصیر: . اپنے بچپن، ابتدائی  ایامِ زندگی اور گزشتہ حالات زندگی کے بارے بتا ئیے کہ کہاں پیدا ہوئے، اور کیسا بچپن گزرا ، کہاں تعلیم حاصل کی اور کیسے گزشتہ زندگی گزری؟
اس سوال کے جواب میں شاہین صاحب نے بڑی تفصیل اور روانی اور فراخ دلی سے اپنی زندگی کی داستان سوال و جواب کی صورت سنائی۔

شاہین : . “میں ۱۹۳۸ میں انڈیا کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں غازی پور میں پیدا ہوا۔ میرا پوارا نام سید ولی عالم جبکہ شاہین ادبی نام ہے۔
میرے والد کا نام میر نوید علی اور والدہ کا نام بشیرالنساء تھا۔ میرے والد گاؤں کے رہن سہن کے اعتبار سے بہتر تھے اور لوگ انہیں عزت اور احترام سے”میر صاحب “پکارتے تھے ان کا گاؤں میں ذاتی مکان اور کئی کھیت ملکیت تھے جن میں آلو، تمباکو اور ہلدی کی کاشت ہوتی تھی ۔مزید آم اور تاڑ کے درخت بھی ان کی ملکیت تھے۔ وہ تجارت بھی کرتے تھے۔ دراصل ۱۹۴۶ کے ہندو مسلم فسادت کے بعد حالات دگرگوں ہو گئے۔ اس وقت میری عمر چھ سات برس کی ہوگی۔ میری والدہ اور چھوٹا بھا ئی فسادات کی نذر ہو گئے۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا۔ والد کا کاروبار ختم ہو گیا اور یوں ہماری بد حالی اور لڑکپن میں ہی خانہ بدوشی کا دور وہیں سے شروع ہوا۔ والد علیل ہو گئے اور دس برس سے زیادہ نہ جیے۔
ان حالات کے باوجود میں چھ سال کی عمر میں درجہ اوّل یعنی پہلی جماعت میں تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ میں نے ہائی سکول کی گیارہ جماعتیں مکمل کرنے تک چار سال میں آٹھ سال کی پڑھائی کامیابی کے ساتھ پوری کی جس کے نتیجے میں تیرہ برس کی عمر میں یونیورسٹی کا طالب علم بن گیا تھا۔

صادقہ نصیر: پھر تو آپ بہت ذہین اور لائق فائق طالبعلم ہوں گے؟
شاہین: “مسکرا کر” ” جی یہ تو میں نہیں کہوں گا البتہ یہ تھا کہ میں کند ذہن نہیں تھا”

صادقہ نصیر:کیا آپ سکول میں اعلیٰ اعزاز حاصل کرتے تھے؟

شاہین: بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوۓ کہا ” میٹرک میں بورڈ کے امتحان میں اپنے علاقے تارا پور کے سب طلباء میں نمایاں رہا۔ ۱۳ سال کی عمر کو چھوٹا گردانتے ہوۓ مجھے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل رہا تھا۔ لیکن میرے اسا تذہ نے میری عمر دانستہ بڑھا کر لکھی اور یوں میں آسانی سے۱۳ سال کی عمر میں یونیورسٹی کا طالبعلم بن گیا۔ ۔ اور پھر یونیورسٹی آف بہار سے بیچلرز آف سائنس اور شماریات میں ماسٹرز کیا ۔کامیاب امیدواروں میں میرا نام سر فہرست رہا ۔اور مجھے بھاگلپور کے مارواڑی کالج میں لیکچرر کی ملازمت مل گئی ۔ لیکچرر شپ کی آفر کو قبول کرتے ہوئے درس و تدریس سے وابستہ ہو گیا اور پاکستان ہجرت کرنے سے پہلے چار سال تک کام کرتا رہا۔ ”

صادقہ نصیر: تو ان حالات میں آپ نے کیسے تعلیم مکمل کی اوروہ بھی امتیاز کے ساتھ ؟
شاہین:  ” پہلے ہمارے حالات اچھے تھے لیکن فسادت کی وجہ سے والدہ اور بھائی شہید ہوۓ والد بیمارہو گئے تو ان حالات میں والد کا کاروبار بھی ختم اور معاشی حالت ایسے دگرگوں کہ تعلیمی اخراجات کے لئے بھی وسائل مفقود اور کتابیں بھی ناپید تو بس کلاس میں ٹیچر کے لیکچر کے نوٹس لیتا تھا اسی پر امتحان دے کر پاس ہوتا تھا”

صادقہ نصیر: ان حالات میں آپ ادبی افق پر کس طرح عازم سفر ہوۓ اور جب کہ کوئی  زادِ  راہ نہ تھا؟
شاہین:   “جی درست کہا کہ میرے پاس ادب کے افق کے لے  کر کوئی  زادِ  راہ نہ تھا کیوں کہ کوئی  ادبی پس منظر، اثاثہ یا ورثہ نہ تھا۔ گاؤں کا ماحول، معاشی بد حالی اور ناموافق سیاسی حالات تو ایسے میں ادب کا کیا کام۔ گاؤں میں شاعری کا مطلب بھی کوئی  نہ جانتا تھا اور مجھے بھی علم نہ تھا کہ یہ شاعری کیا ہوتی ہے۔”

صادقہ نصیر:   تو پھر یہ شاعری کا سلسلہ کیسے شروع ہُوا کہ آپ عالمی شہرت پا گئے؟
شاہین:  ہُوا یوں کہ میں ایک دن بہار کے اپنے سکول میں فارغ وقت میں سکول کے میدان میں لگے ایک پیڑ پر بیٹھا تھا کہ اچانک میری نظر سکول کی عمارت پر پڑی میں اسے غور سے دیکھنے لگا اور   میرے دماغ میں ایک خیال آیا جو میرے ہونٹوں پر بھی آگیا اور وہ خیال کچھ یوں تھا:
سکول چمکتا چم چم چم
میرا نام ولی عالم
شاید یہ میرا پہلا شعر تھا۔اور پھر اس کے بعد میں آٹھ سال کی عمر سے ہی مصرعے جوڑ جوڑ کر شعر بناتا اور انہیں لکھ لیتا۔

صادقہ نصیر: کیا کسی سے اصلاح لیتے تھے؟
شاہین:    “نہیں کسی سے نہیں۔ کیونکہ کوئی  آس پاس نہیں تھا اور نہ کسی کو اس بات سے دلچسپی تھی ہر طرف سیاسی بد حالی اور معاشی فکر لاحق تھی۔ ”

صادقہ نصیر: پہلی بار آپ کے اشعار کب اور کیسے شائع ہوئے؟
شاہین:  “دراصل ۱۹۵۴ کی بات ہے جب ابھی میں بارھویں سال میں ہی تھا تو شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اس زمانے میں زینب انور کی ادارت میں ایک رسالہ نکلتا تھا “بانو” کسی کتاب کی دکان پر دیکھا تو میں تو نے اسے خریدا، گھر آکر ورق گردانی کی تو معلوم ہُوا کہ اس میں تو نظموں کا حصہ بھی ہے۔ میں نے رسالے پر درج ایڈریس  پر اپنی نظمیں بھیجنے لگا۔ کئی نظمیں شائع ہوئیں۔چند دن بعد زینب انور نے مجھے خط لکھ کر عید پر نظم لکھنے کی فرمائش کی ۔ میں نے “یتیم بچے کی عید” کے عنوان سے ایک نظم لکھ کر بھیج دی۔ چونکہ والدہ ۱۹۴۶ میں وفات پا چکی تھیں۔ میں ایک یتیم بچہ تھا  اور عید کو جس حوالے سے محسوس کیا انہی احساسات کے تحت میں نے اپنی نظم کا عنوان رکھا ۔ یہ نظم رسالے نے میرے کوائف کے ساتھ شائع کی۔نظم کا پہلا بند یوں تھا:

زندگی اُف یتیم بچے کی
جلوہ افگن ہلال ہوتا ہے
عید کل ہے خیال ہوتا ہے
زندگی اُف یتیم بچے کی
ایک دن ایک سال ہوتا ہے
جب یہ نظم شائع ہوئی تو سب کو دکھائی مگر کسی نے کوئی  دھیان نہیں دیا۔ کیونکہ اس وقت توجہ دینے والے حالات ہی نہیں تھے۔ شاعری نہیں زندگی بچانے کا مسٔلہ تھا۔
لیکن میں لکھتا رہا اور میری نظمیں رسالوں میں شائع ہوتی رہیں اور ابھی یونیورسٹی میں ہی تھا تو ۱۹۵۶ کی بات ہے کہ ایک پوسٹر پر نظر پڑی جو ” دولت” کے عنوان نظموں کے مقابلے کا اعلان تھا۔
مقابلے میں میری نظم اوّل قرار پائی۔ اور مجھے علم بھی نہ تھا کہ میرے اعزاز میں ایک تقریب رکھی گئی جس میں صوبائی وزیر اور وائس چانسلر نے میرے گلے میں ہار ڈالا اور مجھے ایک ایوارڈ” لی کپ” سے نوازا گیا۔

ہجرت پاکستان!
پاکستان بن چکا تھا اور آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے حالات سازگار نہ تھے۔ یوں میں 1964 میں ترک ِ وطن کے بعد مشرقی پاکستان آگیا اور پاکستانی شہریت حاصل کرلی۔ چند مہینے بعد میرے خاندن کے بقیہ افراد بھی ڈھاکہ پہنچ گئے۔

صادقہ نصیر:   ادبی سفرکے درمیان ایک سوال آپ سے کہ آپ نے معاش کے لئے کیا کیا ذرائع اپنائے ؟
شاہین:  روزگار اور زندگی کے معاملات ساتھ ساتھ چلے۔
جب انڈیا میں تھا تو ماسٹرز کرنے کے بعد بھاگلپور مارواڑی کالج میں پڑھا رہا تھا لیکن ۱۹۶۴ میں مشرقی پاکستان آگئے تو وہاں پاکستان ٹی بورڈ میں ماہر شماریات تعیناتی ہوئے   اور ٹی بورڈ کے مختلف ریسرچ پراجیکٹس میرے زیر نگرانی مکمل ہوئے۔ وہاں اس کام پر ایک کتاب کے عنوان“Statistics on Tea”۔
شائع ہوئی جو اس وقت تک پاکستان میں چائے کے اعدادو شمار پر حوالوں کی اوّلین کتاب تھی۔اگرچہ یہ کتاب حکومت کی جانب سے شائع ہوئی تھی لیکن اس کے دیباچے میں میرا نام بھی لکھا گیا اور میرے کام کو سراہا گیا۔
ڈھاکہ میں میری دوسری ملازمت آدم جی جوٹ ملز کے شعبہ شماریات کے سربراہ کی حیثیت سے تھی جہاں میں صدر دفتر میں تعینات تھا۔ ان دنوں جب پانچ سوروپے ایک اچھی تنخواہ گردانی جاتی تھی میری تنخواہ دو ہزار روپے سے بھی زیادہ تک پہنچ چکی تھی ۔آدم جی جوٹ ملز اس وقت دنیا کی شو کیس انڈسٹری مانی جاتی تھی جس کے پاس اس وقت بھی آئی بی ایم کا مکمل انسٹالیشن سسٹم موجود تھا۔ میں وہاں شعبہ جاتی سربراہ کی حیثیت سے سب سے کم عمر بھی تھا۔ پھر میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ أف سٹیٹسٹکس سے ایم فل کا نصاب مکمل کیا لیکن خانہ جنگی کے سبب امتحانات کے نتائج منسوخ کر دی گئے جس کی ہمیں کوئی مصدقہ اطلاع بھی نہیں ملی۔
روشن (اہلیہ) دو سکولوں میں ملازمت کرتی رہیں تھیں۔ اس دوران وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے اردو کی طالبعلم رہیں۔ وہاں ان کے استادوں میں ڈاکٹر عندلیب شادانی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر آفتاب اقبال صدیقی اور ڈاکٹر صدر الحق وغیرہ بھی شامل تھے۔
اب ہمارے حالات خاصے بہتر ہو گۓ تھے۔ ڈھاکہ میں ہم نے اپنا ذاتی گھر بھی بنا لیا تھا۔
۱۹۷۱ میں جنگ کے بعد ایک بار پھر سب کچھ ختم ہو گیا اور دسمبر ۱۹۷۱ میں ایک نیا مرحلہ درپیش آیا اور ہم نےڈھاکہ سے ہجرت کرکے کراچی میں پناہ لی جہاں آدم جی نے تیرہ سو روپے ماہانہ گزارہ الاؤنس دینا شروع کیا۔ بعد ازاں کراچی میں ہی یو ایس اے آئی  ڈی کے تحت میں نے سول ہسپتال کے ایک پراجیکٹ
“Epidemiology Prevention and Therapy of Burns Cases”
میں ماہر شماریات کی حثیت سے شہر کراچی کا سروے کرایا ۔ اسی دوران اسلام آباد کے مناپلی کنٹرول اتھارٹی سے اسسٹینٹ ڈائریکٹر کی ملازمت کی پیش کش آئی اور میں اپنے افراد خانہ کے ہمراہ اسلام آباد منتقل ہوگیا ۔ .

صادقہ نصیر:   وہ کیا عوامل تھے کہ آپ نے کینیڈا آکر آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا؟
شاہین:   دراصل غیر یقینی صورتحال کے تواتر نے دل کھٹا کر دیا تھا اگرچہ دوستوں نے ڈرایا اور کچھ سمجھایا اور نہ جانے کا مشورہ دیا کہ کینیڈا میں صرف انڈہ اور ٹوس کھانے کو ملے گا( مسکراتے ہوئےکہا)
لیکن بس اب ٹھان لی تھی اور اب یہیں رچ بس گئے ہیں۔

صادقہ نصیر: کیا آپ نے کینیڈا آکر کسی کینیڈین تعلیمی ادارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی؟
شاہین:  جی ہاں میں نے ۱۹۷۷ میں کارلٹن یونیورسٹی آٹوا سے ایم ایس سی شماریات کیا۔

صادقہ نصیر:  کیا کبھی سوچا کہ پاکستان واپس چلے جائیں؟
شاہین:    ہاں خیال آیا تو مگر وہ کیا ہے کہ جیسے بنگال کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ بنگال جانے کے تو کئی راستے ہیں مگر واپسی کا کوئی  راستہ نہیں۔ آپ پیچھے دیکھ تو سکتے ہیں مگر پیچھے قدم نہیں موڑ سکتے۔ کینیڈا پر بھی یہی مثال صادق آتی ہے۔

صادقہ نصیر:   کیا آپ کا کوئی  اور عزیز بہن بھائی بھی کینیڈا میں ہیں؟
شاہین:  جی ہاں میرے بھائی آئے تھے ۔جنہوں نے کینیڈا کی حکومت میں الیکٹریکل انجینئر کی حیثیت سے کام کیا پھر وہ امریکہ چلے گئے جہاں ان کا ویسٹ پام بیچ فلوریڈا میں چھ سال قبل انتقال ہو گیا”

صادقہ نصیر:  کینیڈا آکر آپ نے کون سے معاشی ذرائع اپنائے؟
شاہین:  چونکہ مجھے کینیڈاآتے ہی کینیڈا پوسٹ کے محکمے میں سرکاری ملازمت مل گئی  کچھ عرصہ یہ ملازمت یہ ملازمت کی۔ بعد ازاں منسٹری آف ٹرانسپورٹ میں ماہر شماریات اور پالیسی ایڈوائزرکی حیثیت سے ملازمت کی ملی جسے میں نے شروع سے آخر تک اس کو جاری رکھا یعنی ۱۹۷۴ سے ۱۹۹۴۔تک اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں(مسکرا کر اپنی بیگم روشن صاحبہ
کی طرف دیکھا جو ان کے ہمراہ قریب ہی صوفے پر بیٹھی شریک گفتگو رہیں) اور ان کے ساتھ ان کے بزنس میں ہاتھ بٹاتا ہوں۔

صادقہ نصیر:  شاہین صاحب اب ہم واپس اس سوال کی جانب آتے ہیں جس کا تعلق آپ کی ادبی اور تخلیقی کامیابیوں سے ہے۔ آپ ہمیں بتائیں کہ جب آپ انڈیا سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے اور بعد ازاں کینیڈا میں سکونت اختیار کی تو ہمیں اپنی ان ادبی کامیابیوں کے بارے میں بتائیں جو آپ نے مشرقی پاکستان اور کینیڈا میں حاصل کیں ؟
شاہین:   ہر چند  کہ حالات مشکل تھے مگر میرا ادبی سفرکسی نہ کسی طرح چلتا رہا۔مشرقی پاکستان میں آکر میری پہلی کتاب”رگ ساز” ڈھاکہ سے شائع ہوئی  جس وقت میں آدم جی جوٹ ملز میں کام کر رہا تھا۔اس کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی  ہوئی ۔اس کتاب کا ایک فلیپ ڈاکٹر عندلیب شادانی نے اور دوسرا فلیپ ڈاکٹر حنیف فوق نے لکھا۔ دیباچہ پروفیسر نظیر صدیقی نے لکھا۔اس کتاب پر انگریزی اور اردو میں کئی ریویو لکھے گئے۔

صادقہ نصیر:  اب تک آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں؟
شاہین:  اب تک میری آ ٹھ کتابیں آچکی ہیں۔

صادقہ:  کیا آپ نثر بھی لکھتے ہیں اور اب تک کون کون سے نثری کام سر انجام دے چکے ہیں؟
شاہین:  جی ہاں میں نثری مضامین بھی لکھتا ہوں۔زیادہ نثر اردو میں اور کچھ انگریزی میں جو بیشتر ادبی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ میری آئندہ کتاب اردو مضامین کی ہوگی۔ میرے نثری مضامین یونیورسٹی جرنلز ،،ٹورنٹو ساؤتھ ایشین ریویو ، South Ensemled Review magzineاور “گرین سنو”، جو کہ انتھالوجی پر ہے میں شائع ہو چکے ہیں ۔

صادقہ نصیر:   کیا آپ کی تخلیقات کے تراجم بھی ہوۓ ہیں؟
شاہین:  جی ہاں میری شاعری کےانگریزی، ہسپانوی ، روسی اور ہندی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
ب ایک کتا
“Dreams and Destinations”: Shaheen and his Poetry
کے عنوان سے میری نظموں کے انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع ہو چکی ہے۔ یہ ترجمے مختلف لوگوں نے کے  ہیں۔ اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر نصرت یار خان ہیں۔
اسی طرح میرے ایک مضمون کو جو نامور ادیب عزیز احمد کے بارے میں تھا وہ کینیڈین انسا ئیکلو پیڈیا میں شائع ہُوا ۔
اس کے علاوہ کینیڈا سے ایک انگریزی سہ ماہی رسالہ نکلتا رہا جس کی ادارت میں نے کی،اس رسالے کا نام ہے۔
Urdu Canada” Studies in urdu literature.
اس میں بھی میرا ایک مضمون شامل ہے۔اس میں دنیا کے نامور اردو شعراء اور نثر نگاروں کی تخلیقات کو انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا جاتا ہے۔ اردو کینیڈا کے لکھنے والوں میں ممتاز اہل قلم کے ناموں میں قرۃ العین حیدر، شمس ارحمان فاروقی، سردار جعفری،گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، محمد علی صدیقی، جوگندر پال، جیلانی بانو  ،مرزا حامد بیگ، آصف فرخی، محمد منشا یاد,فاروق حسن، معیناشرف، بیدار بخت، اختر الایمان،رالف رسل، سعادت حسن منٹو، ساقی فاروقی، کشور ناہید، واجدہ تبسم، محمد عمرمیمن، انور سجاد ،اقبال مجید ، اشفاق حسین اور بہت سے دوسرےبھی شامل ہیں۔علاوہ ازیں میری نظموں اور مقالوں کے بھی تراجم شامل ہیں۔مزید برآں میرے ایک مضمون کا اقتباس ہارورڈ یونیورسٹی پریس کی مطبوعات میں بھی شامل ہے۔

غرض اس ایک سوال کے جواب میں جناب شاہین کے ادبی کارناموں کی عمومی اور کینیڈا میں ادبی خدمات کی ایک طویل فہرست ملی جس کا اس مضمون میں احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔

صادقہ نصیر:  کیا آپ کی اہلیہ بھی اردو ادب اور اردو سے شغف رکھتی ہیں ؟
شاہین:   (مسکراتے ہوۓ) جی ہاں روشن بھی اردو پڑھتی رہتی ہیں۔ أج کل وہ کینیڈا کے مشہور سکالر ، اور مصنف ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب “خواب در خواب” پڑھ رہی ہیں۔

صادقہ نصیر:آپ کی ان ادبی کاوشوں، خدمات اور کامیابیوں کو سراہنے کے لئے کوئی ایوارڈ بھی ملے ہیں؟
شاہین:  یوں تو ایک طویل فہرست ہے لیکن چند ایک گوش گزار کرتا ہوں؛
۱۹۸۸ میں الطاف حسین حالی ورلڈ ایوارڈ برائے ادب دہلی میں مرحوم فلم سٹار دلیپ کمار کے ہاتھوں وصول کیا۔
۲۰۰۳ میں گہوارۂ ادب کا انعام گورنر سندھ عشرت العباد نے اپنے دستخط سے بھیجا۔
۲۰۰۶ میں کینیڈا پاکستان ایسوسی ایشن انعام آٹوا میں
۲۰۰۹ میں اتر پردیش لکھنؤ میں اردو ہندی سہا ئیتہ(ادب) ایوارڈ اور
۲۰۰۹ میں ہی دہلی میں انڈین کلچرل سوسائٹی کی جانب سے میر تقی میر ایوارڈ۔
۲۰۱۵ آٹوا  میں کینیڈا پاکستان ایوارڈ براۓ غیر معمولی ادبی خدمات
۲۰۱۷ محمد منصور عالم فخری کو ان کے تھیسز ” شاہین کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ” پر پی ایچ ڈی سے نوازا گیا
فیڈریشن آف پاکستانی کینیڈین ایوارڈ ۲۰۱۸ آٹوا  میں

اس کے علاوہ بہت سے مختلف ادبی جرائد نے بہت سے شاہین نمبر نکالے۔ جن میں تازہ ترین راولپنڈی سے نکلنے والےرسالہ “چہار سو” بھی سر فہرست ہے جس نے ایک مکمل شمارہ میرے نام سے مختص کیا۔(یہ بات بتاتے ہوئے شاہین صاحب نے رسالہ چہار سو کی پی ڈی ایف ای میل پر فارورڈ کی )
راولپنڈی سے اجرا ہونے والے اس رسالے چہار سو کے ۲۰۱۹ کے اگست کے شمارے کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اس رسالے نے اگست کے شمارے کو شاہین نمبر قرار دیا ہے
اس کے سرورق پر کسی  آرٹسٹ کے ہاتھوں بنا ہوا شاہین صاحب کا خوب صورت تصویری خاکہ جگمگا رہا ہے اور رسالے کے  آخری صفحات ولی شاہین کی مختلف ادبی مواقع پر لی گئی تصاویر کا کولاژ ہے
۱۲۴ صفحات میں سے ۵۵ صفحات جو “قرطاس اعزاز” کے عنوان سے ہیں اس میں تمام اعزازی مضامین جناب ولی عالم شاہین کے نام ہیں۔ ان اعزازی مضامین کی فہرست اور تفصیل طویل ہے لیکن قارئین کے لئے چند ایک پیش خدمت ہیں:
انوار شریف کا شاہین کے شعروں کا انتخاب ،
محمد انعام الحق کا مضمون جو شاہین کا سوانحی خاکہ ہے۔
فیصل عظیم کا اکابرین ادب کا شاہین کے نام ادبی خطوط کا انتخاب ہے۔ ان اکابرین ادب کے نام یہ ہیں:
گوپی چند نارنگ، احمد ندیم قاسمی ،شمس الرحمان فاروقی، جوگندر پال، شہزاد احمد، شارب ردولوی، نظیر صدیقی، آفاق احمد، ساقی فاروقی، مظہر امام، قمر رئیس، مظفر حنفی ، عمر میمن، جمیل جالبی وزیر آغا، خلیق انجم، مظہر امام ،قمررئیس  ،آصف فرخی ، اشفاق حسین اور نسیم سید شامل ہیں
گلزار جاوید کا انٹر ویو شاہین صاحب کے جوابات۔
فاری شا کی کا ” شاہین صاحب کا رنگ سخن” کے تحت شاہین صاحب کی دس غزلوں کا انتخاب ہے۔
اسی طرح عطیہ سکندر علی نے بھی “شاہین کا نظمیہ آہنگ” کے عنوان سے شاہین کی سات نظمیں منتخب کرکے پیش کی  ہیں۔
افسر ماہ پوری کا مضمون ” بعنوان کسی مہ خوار کا گھر” کے عنوان سے شاہین کے فن شاعری پر ایک طویل تحقیقی مضمون ہے
پروفیسر ممتاز حسین کا مضمون جو ان کی شاعری کی نفسیاتی پرتیں کھولتا ہے۔ اس کے علاوہ محمود واحد، انور سدید، ڈاکٹر حنیف فوق، اور محمد علی صدیقی کے مضامین جو شاہین کے لئے مختص کئے گئے قرطاس اعزاز میں شامل ہیں۔ اس قرطاس اعزاز کے آخر میں خود شاہین صاحب کا مضمون و مقالہ” ترقی پسند تحریک” بھی زینتِ قرطاس ہے۔

اس ملاقات کا سب سے دلچسپ پہلو ولی عالم شاہین کی ذاتی لائبریری ہے جس کو دیکھنے کی ہم نے پہلے ہی اجازت لے چکے تھے۔

ولی عالم شاہین صاحب کی ذاتی لائبریری

صادقہ نصیر: شاہین صاحب اب  آپ کی کی لائبریری دیکھنے کے لئے تجسس اور شوق بڑھتا جا رہا ہے؟
ولی عالم شاہین اور ان کے صاحبزادے کیفی یہ بات سنتے ہی اٹھے اور کیفی نے ہماری رہنمائی  کے لیے  قدم آگے بڑھائے اور ہمیں بہت عزت کے ساتھ رک رک کر ہر قدم پر فراخ دلی کے ساتھ کہا” آپ جتنا وقت لینا چاہیں لیں اور تسلی سے لائبریری کے تمام حصے دیکھیں”۔
شاہین صاحب اور ان کے صاحبزادے کیفی نے اپنے بہت وسیع وعریض اور عالی شان تعمیر شدہ اور خوبصورتی اور اعلیٰ  ذوق کے ساتھ سجے ہوئے گھر کی لائبریری دکھانے کے لیے ہماری رہنمائی  کی۔ لائبریری کا وزٹ کرتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی بہت بڑی یونیورسٹی یا میوزیم کی لائبریری دیکھ رہے ہیں۔اس ذاتی لائبریری پر ہرگز یہ گمان نہیں ہو رہا تھا   کہ یہ گھر میں قائم ہے کیونکہ کسی قسم کی بے ترتیبی،الجھاؤ یا بد سلیقہ پن نہیں بلکہ بہت پروفیشنل انداز سے ترتیب اور سلیقے سے آراستہ کتابوں سے لبالب بھری الماریاں اور بک شیلف اس وسیع گھر کے ہر کمرے کی ہر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی  تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ دیواریں اینٹوں اور لکڑی سے نہیں بلکہ کتابوں سے تعمیر ہوئی  ہیں۔ لائبریری کے تین حصے تو مین فلور پر ہی تھے۔ بالائی منزل تو کتابوں کا طلسم کدہ محسوس ہو رہا تھا۔ کیفی نے بتایا کہ اس لائبریری میں تعداد کے حساب سے لگ بھگ سولہ ہزار کتابیں ہیں۔ جن میں بہت سی نایاب اور یونیک کتب بھی موجود ہیں جو کسی اور جگہ دستیاب نہیں۔ ان میں سب سے نمایاںMarcel Proust In Search of Lost Time
(a novel in six volumes with a total of3000 pages) Folio Book Society.
Edward Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Empire:
(Eight Volumes)Folio Book Society.
یہ نایاب کتب شاہین صاحب نے اپنے ذاتی شوق کی بناء پر ذاتی خرچ پر فولیو بک سوسائٹی سے منگوائی  ہیں۔ نہایت جمالیاتی انداز سے جلد کی ہوئی کتابوں کے یہ سیٹ بک شیلف کی شان میں اضافہ کر رہی تھیں۔شاہین صاحب نے أگے بڑھ کر” تاریخ ادب ابتدا سے اب تک کی” تین جلدیں بھی دکھائیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کتاب میں تین صفحوں پر محیط شاہین صاحب کے ادبی کارناموں کا بھی ذکر ہے۔
اس لائبریری میں مہا تما گاندھی پر لکھی جانے والی کتاب کے علاوہ دنیا کے ادب کا قیمتی ورثہ موجود ہے۔ لائبریری کے معائنے کے دوران شاہین صاحب نے ایک میز پر رکھی ہوئی  میری اسی سال شائع ہونے والی کتاب “پہلے نام کی موت” جس پر انہوں نے ریویو بھی لکھا تھا اٹھا کر دکھائی اور میری خوشی میں اور عزت افزائی میں اضافہ کیا ۔
لائبریری سے فارغ ہونے کے بعد شاہین صاحب نے ہمیں دوبارہ مہمان خانے میں بٹھایا اور خود اجازت لے کر کچھ دیر کے لئے دوسرے کمرے میں گۓ اور پھر جلد ہی اپنے ہاتھ میں اپنی تحریر کی ہوئی  کچھ کتب لائے ۔اور ان پر اپنے دستخط کرکے ہمیں بطورتحفہ عنایت کیں۔جن میں:
شب نشین
بے نشان
زر داغ
دہلیز پر پھول
پشتارہ
کے علاوہ
اردو کینیڈا کی تین والیومز شامل تھی۔ ان کتابوں کا شاہین صاحب کے ہاتھوں سے وصول کرنا میرے لئے ایسا احساس تھا جس نے مجھے اپنی نظروں میں معتبر کر دیا۔
لائبریری کے وزٹ کے بعد شاہین صاحب نے کہا کہ “اب کافی چلے گی ؟”
ان کے صاحبزادے نے اصرار کیا کہ ابو کافی بہت اچھی بناتے ہیں پی لیں۔ لیکن ہمیں وقت زیادہ ہونے کا احساس تھا اس لئے معذرت کی اور یوں بھی اس شام برفانی طوفان کی پیش گوئی  تھی جو سر پر کھڑا تھا۔ البتہ آخری سوال بھی رخصت سے پہلے پوچھ ڈالا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صادقہ نصیر:  آپ اپنی ان تمام کامیابیوں اور علمی اور ادبی اثاثے پر کتنا خوش ہوتے ہیں اور کیا فخر بھی کرتے ہیں؟
شاہین:  “ہوئی خوشی جو میسر تو یہ ہوا معلوم
خوشی کا بوجھ اٹھانا ہے کتنا مشکل ”
جی ہاں میں بہت خوش ہوتا ہوں لیکن “فخر” بہت بڑا لفظ ہے جس سے میں اپنے آپ کو منسوب کرنا بھی بد ذوقی کے مترادف سمجھتا ہوں۔ مگر ایک کسک ہمیشہ مجھے دلگیر کرتی ہے مجھے اور میری کامیابیوں کو بہت سراہا جاتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو مجھے سراہتے ہیں مگران سراہنے اور چاہنے والوں میں میرا اپنا کوئی  نہیں یعنی میری ماں ، باپ اور بہن بھائی  وغیرہ اور جن کو میں ہمیشہ یاد کرتا ہوں۔اور یہ کسک ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی ورنہ بہت کچھ زندگی میں پایا۔اور میں مطمئن ہوں۔
رات کے دس بج رہے تھے ۔برف کا طوفان اپنی آمد کے رنگ دکھا رہا تھا لہذا ہم نے اجازت لی ۔ان کی اہلیہ کو خدا حافظ کہا اور ہم باہر نکلے تو شاہین صاحب اور ان کے صاحب زادے کیفی جو خود بھی فیڈرل گورنمنٹ میں اعلیٰ  عہدے پر فائز ہیں نہایت مودبانہ اور عاجزی کے ساتھ میزبانی کی اعلی مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیں دروازے تک چھوڑنے آۓ۔رخصت کرتے وقت جناب شاہین صاحب نے بتایا کہ میرے اس گھر پر اور آٹوا میں دیگر جگہوں پر جہاں جہاں بھی میری رہائش رہی دنیائے اردو ادب کے بےشمار نامی گرامی لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے آۓ اور کچھ میرے اس گھر میں ٹھہرے بھی ۔
ان بڑے ناموں میں رئیس امروہوی، کلیم عاجز، جون ایلیا، جمیل الدین عالی، احمد فراز ، فہمیدہ ریاض، احمد ندیم قاسمی، صہبا لکھنوی،شہزاد احمد،محمد علی صدیقی،عبادت بریلوی، منیر نیازی، فتح محمد ملک، رضی اختر شوق، حسن عابد، کشور ناہید،پروین شاکر، شان الحق حقی، سید ضمیر جعفری، خمار بارہ بنکوی،جگن ناتھ آزاد،اختر الایمان، محسن احسان، ثروت احسان، سحر انصاری، حمایت علی شاعر، بیدار بخت،نزہت صدیقی، ملک زادہ منظور،احمد کرشنا پال، مشتاق احمد( سائیں سچا) اور ڈاکٹر خالد سہیل بھی شامل ہیں۔
دروازے پر کھڑے ہوکر وقت رخصت باتیں کرتے احساس ہوا کہ برف باری اپنی شدت پکڑ رہی ہے اور جو رات کو طوفانی شکل اختیار کر لے گی ۔ لہذا شاہین صاحب بھی کہنے لگے اب موسم خراب ہو جانے سے پہلے آپ کو اب بحفاظت گھر پہنچنے کے لیے روانہ ہو جانا چاہیے۔
غرض اس تیز قدم برف کے ہمراہ ہم بھی تیز قدم مگر احتیاط سے گاڑی تک پہنچے گاڑی ڈرائیو وے سے نکلنے تک شاہین صاحب اور ان کے صاحبزادے کیفی ہاتھ ہلا کر الوداع کہنے کی رسم نبھاتے رہےاور ہم ابھی تک ذہنی طور پر مینوٹک آٹوا کے ادب نگر اور کتابوں کے طلسماتی محل میں موجود ہی رہے ۔ اور اس عظیم ادبی شخصیت سے ملاقات کو بہت مسرت کے ساتھ قلم بند کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی علمی اور بین الاقوامی پذیرا ئی پانے والی شخصیت میں بلا کی ذہانت، متانت اور شگفتگی کے علاوہ بے حد انکساری اور فراخ دلی بھی قابل تعریف ہے۔اور یوں ۲۰۲۲ اس طرح ہمارے لئے یادگار بن گیا کہ سال کے رخصت ہونے سے پہلے ولی عالم شاہین جوایک عالمی شہرت یافتہ مصنف, محقق،ادیب اورشاعر ہونے کے علاوہ گورنمنٹ آف کینیڈا کے ایک اعلیٰ  عہدے سے ریٹائرڈ ہیں سے تفصیلی رسمی و غیر رسمی ملاقات کا موقع ملا اور اس ملاقات کا احوال ادب اور شاعری کے دلدادہ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply