بچے بڑی مشکل سے بڑے ہوتے ہیں ۔۔ اے وسیم خٹک

کسی بھی معاشرے میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ جب کوئی شادی کے بندھن میں بندھ جاتا ہے ، گر وہ لڑکا ہے تو دلہا اور اگر لڑکی ہے تو دلہن کہلاتی ہے ۔ اور یہ ہر ماں باپ کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچو ں کو اس نئے روپ میں دیکھیں ۔ جس کے لئے وہ کوششوں میں لگے رہتے ہیں کہ اچھا سا رشتہ دیکھ کر اپنے بچوں کے آخری فریضے سے  سبکدوش ہوجائیں ۔ شادی کے باعث دو خاندانوں میں تعلق قائم ہوجاتا ہے ۔ منگنی کی خوشی منائی جاتی ہے ، منگنی کی انگوٹھی سے نکاح تک کا سفر عجیب وغریب ہوتا ہے۔ شادی میں ولیمے کے بعد رشتہ داروں کے گھروں میں دعوتوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے اور یوں آہستہ آہستہ مہندی کے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں ۔ گھر میں بہو کے رنگ ڈھنگ دیکھے جاتے ہیں ایک نئے خاندان کا وجود ہوجاتا ہے ۔
یہ کہانی ہمارے معاشرے کے ہر ایک گھر کی کہانی ہے ، یہیں سے نئی نئی کہانیوں کی شروعات ہوتی ہے مگر ہماری کہانی ایک عام سی کہانی ہے جس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ۔ اس کہانی میں شادی کے بعد دلہا اور دُلہن کی کہانی شروع ہوجاتی ہے ۔ دُلہا جاب شروع کرتا ہے تو دلہن گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی ہے ۔ لڑکی خاتون اور لڑکا مرد بن جاتا ہے ۔کچھ وقت گزرتا ہے تو ایک خوش خبری ملتی ہے کہ قدرت مہربان ہونے والی ہے ۔ مرد کو باپ بننے کا پتا چلتا  ہے ۔  لڑکی کو احتیاط کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہاں کہانی میں موڑ آسکتا ہے مگر ہم کہانی کو سادگی سے آگے بڑھاتے ہیں ۔ خاتون جس کو بہو کہاجاتا ہے کوئی وزنی چیز اٹھاتی ہے تو ساس اسے ڈانٹتی ہے  اور  بیٹے سے ڈراتی ہے۔ کہ اگر میری بات نہیں مانو گی تو بیٹے سے بات کرتی ہوں ۔ خاتون سہم جاتی ہے ۔ اور ان کاموں سے خود کو دور رکھتی ہے ۔ جس سے خطرہ ہو۔ ہر ماہ ہسپتال معائنہ کے لئے لے جایا جاتا ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ گھر میں خوشی کے شادیانے بج اٹھتے  ہیں ۔ نئے مہمان کی آمد ہوجاتی ہے ۔ تو گھر میں خوشیوں کی نئی پھوار آ ّجاتی ہے ۔ دلہا دلہن کہلانے والے اب ماں باپ کے اعزا ز سے نوازے جاتے ہیں ۔
نئے مہمان کی آمد کے ساتھ ہی نئے رشتے ، دادا، دادی، چاچا، پھوپھو، اورخالہ سمیت ماموں جیسے نئے رشتے میدان میں آجاتے ہیں ۔ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ یہی نومولود ہمارے کہانی نما آ رٹیکل کا ہیرو ہے۔ بچے کے بال کٹوائے جاتے ہیں ، مختلف قسم کے نام سامنے آتے ہیں ۔رشتہ داروں کی آمد ہوتی ہے، دوست فائرنگ کرکے اور سہیلیاں ، پھوپھووغیرہ ڈھولک  بجاکر  خوشی کا اظہار کرتی ہیں ۔ ہیرو کو ہم مبین کا نام دے دیتے ہیں ۔جو کبھی نانی کے گھر ہوتا ہے ، کبھی دادی کے پہلو میں ہوتا ہے ، ماموں، خالہ کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے تو پھوپھی کے  آنگن میں ہمکتا ہے ۔ معصوم ہوتا ہے ، ہر وقت روتا ہے ، جب کلکاری مارتا ہے تو سب کے چہروں پر شادمانی چھا جاتی ہے ۔ اور ہر کوئی اسے گود میں  اٹھانے کے لئے بے قررار ہوتا ہے ، چاچو تو   نیند  سے  بیدار کراتا  ہے ، تو ڈانٹ ملتی ہے مگر محبت محبت ہوتی ہے ۔ مبین چار ماہ کا ہوجاتا ہے ۔تو اسے ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور یہ فریضہ بھی چاچو ہی سر انجام دیتا ہے ۔ مبین اب چیزوں کو پکڑنے لگتا ہے ۔ دانت نکلنے پر خوشی منائی جاتی ہے ۔ اس کے رینگنے پر علیحدہ سی خوشی منائی جاتی ہے ۔ ماں باپ کے ساتھ ساتھ دادا دادی کی جان ہوتا ہے ۔ گھر میں ایک سماں بندھا ہوتا ہے ۔ سالگرہ کا دن آتا ہے جب مبین ایک سال کا ہوجاتا ہے ۔ تو سالگرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے ۔ آڑوس پڑوس  کے بچے بلائے جاتے ہیں ۔ رشتہ دار پھر سے خوشیاں مناتے ہیں ۔ سالگرہ کا دن گزر جاتا ہے ۔ مبین پر پاؤں پر چلنا شروع کردیتا ہے ۔  توتلی زبان میں باتیں شروع ہوجاتی ہیں ، توتلی زبان میں گالی بھی گھر والوں کو گالی نہیں لگتی ، یوں ایک سال گزر گیا ، اس ایک سال میں کتنے ڈاکٹرز تبدیل کیے  گئے ۔ ایک سے افاقہ نہ ہوا تو دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا ۔ کہ وہ والا ڈاکٹر  مرض کو نہیں سمجھتا ۔
یوں کئی سال گزر گئے۔ سکول جانے کی باری آئی تو آرمی پبلک سکول پر سب متفق ہوگئے ۔ اور سکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داری چاچو پر ڈالی گئی ۔باپ کی ڈیوٹی اور دادا کی بازار لے جانے کی ڈیوٹی لگ گئی ۔ گزرتے گزرتے وہ سکول میں ٹاپ پوزیشنوں پر آتا رہا ۔ درمیان میں اس کے اور بہن بھائیوں کی بھی پیدائش ہوگئی ۔ مگر جو محبت مبین کے حصے میں تھی وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آنی تھی ۔ چاچو اور والدین سب کو پریشانی ہوتی جب تک وہ سکول میں ہوتا ۔ شہر کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے ۔ روز دھماکوں کی وجہ سے شہر بھر میں ایک خوف وہراس تھا ۔ پھر وہ دن بھی آگیا جب مبین نے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آج سکول نہیں جانا، کیونکہ ایک تربیت ہونی ہے اور مجھے نہیں لینی کوئی تربیت ور بیت مگر گھر والوں نے اس کی بات نہیں مانی اور یوں وہ آرمی پبلک سکول چلا گیا ۔ جہاں عسکریت پسندوں نے سکول پر حملہ کردیا جس میں 120سے زیادہ بچوں نے  جام شہادت نوش کیا  اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔ شہید ہونے والوں میں مبین بھی شامل تھا ۔ جو اس کے خاندان کے لئے ایک اندوہناک خبر تھی ۔
یہ ایک میبن کی پیدائش سے لے کر اس کی شہادت تک کی کہانی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ہر اس بچے کے گھر کی کہانی ہے جو اس جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکا ہے ۔ پڑھنے اور سننے والوں کے لئے تو یہ ایک کہانی ہی ہے اور ایک عام سی خبر ہی ہوگی مگر جن کے پیارے اس جنگ میں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں ۔ کتنے بچے اس آرمی پبلک سکول میں شہید ہوکر ستارے بن چکے ہیں جو ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا تھا ہمیں کیوں شہید کیا گیا ۔ یہ عام سی ایک کہانی صرف یہ بتانے کے لئے تھی کہ مبین کے ماں باپ کی شادی ، پھر مبین کی پیدائش ، پھر سکول جانے تک کتنی محبتیں اور پریشانیاں شامل تھیں ۔ ہم نے کہانی میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کتنی مشکلوں سے بچے کو بڑا کیا جاتا  ہے اور کتنی آسانی سے اسے ہمارے رویے  ، کدورتیں اور ذاتی عناد اور ذاتی مفادات مار دیتے ہیں ۔ خدارا بس کیجئے کیونکہ بچے بڑی مشکل سے بڑے ہوتے ہیں!

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply