دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے ۔ محمودچوہدری

فرض کیجئے آپ کے ملک میں کچھ غیرمسلم تارکین وطن روزگار کے سلسلے میں قیام پذیر ہوجاتے ہیں یا پناہ گزین ہوجاتے ہیں فرض کریں ان میں سے کچھ پناہ گزین عقیدتا ً سبزی خور ہوں اور جانوروں کا گوشت کھانا انتہائی مکروہ خیال کرتے ہو ں۔ایسے میں عید الضحی ٰکا تہوار آجاتا ہے اور آپ کا وہی مہمان آپ کو تبلیغ کرنا شروع کر دے کہ یہ آپ غلط کام کر رہے ہیں جانوروں کا گوشت کھاناٹھیک نہیں ہے یا پھر وہ آپ کو براہ راست تو کچھ نہیں کہتا البتہ سوشل میڈیا پر آپ کے تہوار کی تضحیک کرنا شروع کر دے تو ذرا تصور کریں کہ آپ کو اس کے رویے سے کتنی تکلیف پہنچے گی اس کی گفتگو اورآپ کے مذہب کے بارے ا یسی رائے سن کر آپ کو کتنا رنج پہنچے گا ۔وہ اپنی دانست میں خود کو حق پر سمجھ رہا ہوگا لیکن آپ کے دکھی کررہا ہوگا۔ہر نظریے والا خود کو ہی حق پر سمجھتا ہے ۔لوگوں کے لئے ان کا مذہب تحقیق کا نہیں تسلیم کا معاملہ ہوتا ہے کہتے ہیں ایک مسلمان اور یہودی کا مناظرہ ہوا مسلمان غصے میں آکر کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہودی ہو کر مروں ، یہودی بھی یہی کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مسلمان ہو کر مروں۔

یورپ اور مغربی ممالک میں رہنے والے تارکین وطن شہریوں کی اکثریت ایک بین الثقافتی معاشرے میں رہنے کے آداب سے انجانے میں کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں  ۔ وہ اپنے ممالک کے جن دانشوروں سے راہنمائی لیتے ہیں وہ اکثر اس ماحول کو سمجھتے ہی نہیں ہوتے اس لئے کسی مخالف شخص کے نظریات ، خیالات اور عقائد کا احترام سکھانے کی بجائے ان کے ذہن میں برتری کا تصور بٹھا دیا جاتا ہے ۔ اس زعم میں وہ یہ سمجھنا شروع ہوجاتا ہے کہ انہیں یہ لائسنس مل گیا ہے کہ وہ دوسرے کے عقائد اور ان کے نظریات کا مذاق اڑائیں کرسمس کے دنوں میں آپ کو تواتر سے ایسے علماءکے فتوے سوشل میڈیا پر گردش کرتے نظر آئیں گے جس میں وہ آپ کو مشورہ دیں گے کہ کسی کو کرسمس کی مبارکباد دینا کفر ہے اور بعض محقق آپ کو بتائیں گے کہ کرسمس کا معنی ہوتا ہے ”خدا نے بیٹا جنا“۔میں نے بہت سی ڈکشنریاں کنگھالی ہے لیکن مجھے ایسا ترجمہ کسی ڈکشنری میں نہیں ملا ۔ ہم نے چونکہ اپنی تحقیق کے ذریعے اپنے ہر تہوار کو متنازعہ   بنا لیا ہے اس لئے اب ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے تہواروں پر بھی اپنی رائے دے دیں حالانکہ کسی نے ہم سے رائے طلب کی بھی نہیں ہے ۔ہمارے مصلح ہمیں شدو مد سے تبلیغ کریں گے کہ غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت نہیں کرنی چاہیے بھلے ہمیں کسی نے اپنے تہوارمیں شرکت کی دعوت دی بھی نہ ہو

یورپ میں کرسمس کا تہوار بڑی شد ومد سے منایا جاتا ہے اس کی تیاریاں اس انداز سے کی جاتی ہیں کہ ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر شہری اس کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ انسان جس چیز کا نظارہ آنکھ سے کرتا ہے اس کا تاثر اس کے دماغ میں زیادہ دیر تک رہتا ہے دسمبر کا مہینہ آتے ہی یور پ بھر میں سرکاری سطح پر شہروں کی سڑکیں برقی قمقموں سے جگمگانا شروع ہو جاتی ہیں یہ پہلا بصری تاثر ہے جو ہر ذہن میں سما جاتا ہے۔اس کے بعد بچہ ہو یا بوڑھا اسے کرسمس کا انتظار شروع ہوجاتا ہے تمام بچے چاہے وہ کسی بھی مذہب ، عقیدے یا نظریے سے تعلق رکھتے ہوں ان کے ذہن میں ایک آنے والے تہوار کے بارے خوشی جاگزیں ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔خوشی کاایک تصور اشیاءکی قیمتوں میں کمی سے بھی  وابستہ ہے ،یورپ والے اس نفسیاتی اثر کو جانتے ہیں اس لئے کرسمس آنے سے پہلے دکانوں میں تمام اشیاءکی قیمتیں کم کردیتے ہیں اس سے ایک جانب تو عام آدمی کے دل میں کرسمس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے تو دوسری جانب کاروبار کی بھی چاندی ہو جاتی ہے کیونکہ سستی چیز ملنے کے تصور میں انسان وہ بھی خریدنا شروع کر دیتا ہے جس کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ۔

خوشی کا رشتہ تحائف کے تبادلے سے بھی ہے کرسمس کے مہینے میں یورپ بھر میں تحائف کے تبادلوں کی ایک بھرپور روایت ہے۔ مالک اپنے ملازموں کو، شاگرد اپنے اساتذہ کو ، دوست دوستوں کو ، جاب کے کولیگز اپنے ساتھیوں کو کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور دیتے ہیں ۔یہ تحائف ضروری نہیں کہ بہت قیمتی ہوں بھلے ایک چھوٹا سا کارڈیا ایک ایس ایم ایس ہی کیوں نہ ہو ۔خوشی کا گہرا تعلق کھانے کی دعوت سے بھی ہوتا ہے ۔ اس مہینے میں مالک اپنے ملازمین کو ،پڑوسی اپنے پڑوسیوں کو اور مختلف تنظیموں   کے نمائندے ایک دوسرے کے ساتھ کھانا ضرور کھاتے ہیں بھلے ریسٹورنٹ میں جا کر اپنے اپنے کھانے کی ادائیگی خود ہی کریں لیکن اکٹھے کھانا ضرور کھاتے ہیں ۔خوشی کا تعلق چھٹی سے بھی ہے سارے یورپ میں ایک ساتھ اکٹھی زیادہ چھٹیاں کرسمس کے دنوں میں ہوتی ہیں اس لئے ہر کام کرنے والے کو کرسمس کی چھٹیوں کا انتظار ہوتا ہے اور اس کے علاوہ انسانی زندگی میں سب سے بڑی خوشی اپنے خاندان کے ساتھ مل بیٹھنا ہوتا ہے۔ کرسمس والے دن سارا خاندان اکٹھاہوتا ہے اوریہ دن اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ گزارتا ہے ۔ شہروں میں کرسمس مارکیٹ لگائی جاتی ہیں ان کا مقصد بھی لوکوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور اکٹھے ہونے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔

سکولوں کی سطح پر بچوں کے لئے باقاعدہ پروگرام ترتیب دیے  جاتے ہیں جس میں ان سے حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے نغمے تیار کیے  جاتے ہیں اور مختلف ممالک میں کرسمس منائے جانے کی رسومات اور روائج بتائے جاتے ہیں ۔ سکولوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کے ماڈل تیار کیے جاتے ہیں کرسمس کا درخت تیار کیا جاتا ہے جس کے نیچے رنگ برنگے تحائف رکھے جاتے ہیں شاخوں پر برقی قمقمے لٹکائے جاتے ہیں ۔ بچوں کے دلوں میں ایک افسانوی کردار”بابا کرسمس “کی محبت جاگزیں کی جاتی ہے انہیں ایسی سحر انگیز کہانیاں سنائی جاتی ہیں کہ بابا کرسمس رات کو بچوں کے گھروں میں تحائف دے جاتاہے بچے ان کہانیوں پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں اور دل ہی دل میں اس کی محبت میں گرفتار بھی ہوجاتے ہیں چھٹیوں سے پہلے سکول کی سطح پر پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں ان سکولو ں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کے والدین بھی شامل ہوتے ہیں کرسمس کی ان تقاریب میں مسلمان بچوں کے والدین بلا تمیز سنی ،وہابی اور شیعہ شرکت کرتے ہیں

دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اس وقت دنیامیں مختلف نظریات کے درمیان تصادم کی بجائے امن،اخوت او ر بھائی چارے کی سخت ضرورت ہے قرآن مجید آج سے ڈیڑ ھ ہزار سا ل پہلے لکم دینکم ولی دین ”تمہارے لئے تمہار ا دین او ر میر ے لئے میرا دین “ کا پر امن پیغام پوری دنیا کو دے چکا ہے۔ہمیں مذاہب کے درمیان نفرتیں بانٹنے کی بجائے اپنے بچوں کو حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کا اسلامی تصورسکھانا ہوگا ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کابرگزیدہ رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے ان کی والدہ ماجدہ کے نام پر قرآن میں ایک پوری سورة موجود ہے ۔ مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسٰی کا نام صرف عیسٰی کہنا بے ادبی ہے۔ ان کے نام کے ساتھ علیہ اسلام بولا اور لکھا جاتا ہے قرآن پاک میں حضرت عیسٰی کا نام 25 مرتبہ آیا ہے ۔ان کی والدہ حضرت مریم کا ذکر مسلمانوں کی مقدس کتاب میں 34 مرتبہ موجود ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰی حضرت مریم کے بطن سے ایک معجزے کے طور پربغیرباپ کے پیدا ہوئے اوراسلام کی رو سے کوئی بھی شحض تب تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ یہ تسلیم نہ کرے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔اس وقت ہمیں اپنی تبلیغوں کا رخ محبت اور امن کی طرف موڑنا ہوگا۔ہم اپنا پیغام شائستہ طریقے سے بھی اپنے بچوں کے دلوں میں جاگزیں کر سکتے ہیں

اٹلی میں مسلم کرسچن ڈائیلاگ کا ایک پروگرام تھا جس میں ایک پادری بھی مدعو تھا جب میں نے قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم کا مقام اور مرتبہ بتایا تو وہ بہت خوش ہوا ۔ کہنے لگا تینوں توحید پرست مذاہب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں تو اس رشتے سے تو ہم بھائی ہوئے ۔میں نے کہا نہیں ہم بھائی نہیں ہیں اس کے چہرے پر پریشانی کی لہر آئی تو میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہم کزن ہیں ۔پوچھنے لگا ”کزن !وہ کیسے ؟“میں نے کہا کہ تمھارے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کا شجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام سے ملتا ہے اور ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ نصب ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام سے ملتا ہے تو اس طرح ہم کزن بنتے ہیں وہ اتنا ہنسا کہ اس کے سارے دانت نظر آنا شروع ہوگئے ۔۔۔۔ تہواروں کا بائیکاٹ نہ کریں ان پر فتوؤں  کی لٹھ نہ برسائیں بلکہ قرآن کے اس اصول کے تحت کہ جو باتیں مختلف مذاہب میں مشترک ہیں ان کو موضوع بنائیں تاکہ دنیا ایک دوسرے کے قریب ہو۔ دنیا میں محبتیں بانٹیں اس وقت دنیا کو محبت امن اور دوستی کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply