سماج (18) ۔ بنتے بگڑتے معاشرے/وہاراامباکر

“ہمیں معلوم نہیں کہ کس وقت کو کسی سوسائٹی کا نقطہ آغاز یا اختتام کہیں”۔ ڈرک ہائم نے یہ ایک صدی پہلے کہا تھا۔

نیچرل سائنس میں یہ موضوع بڑی حد تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ سوسائٹی پیدا ہوتی ہیں، پنپتی ہیں، مرتی ہیں۔ نئی سوسائٹی ان کی جگہ لیتی ہیں۔ جہاں تک سوشیولوجسٹ یا مورخین کا تعلق ہے تو وہ بھی اس بارے میں کسی عمومی فریم ورک کے بجائے کسی ایک سوسائٹی تک محدود رہتے ہیں۔ خواہ وہ قدیم مصر کی ہو یا چیکوسلواکیہ کی۔
اور اصل مسئلہ تفصیل میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح کسی جاندار کا جسم ایک لائف سائیکل سے گزرتا ہے، اسی طرح سماجی گروپ بھی ایسے ہی سائیکل کا حصہ ہیں۔ اور اس کا بڑا فیکٹر یہ ہے کہ اس کے ممبران شناخت کو کیسے دیکھتے ہیں۔ شناخت کا ختم ہو جانا سوسائٹی ختم کر دیتا ہے۔ اور شناخت کا سوال ایک لازم اور کئی بار افسردہ کرنے والی حقیقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوسائٹی کے بننے اور بدلنے کا سائیکل ہر نوع کے لئے اپنا منفرد ہے۔ اس کا انحصار ان قوانین پر ہے جن کی مدد سے انواع کے ممبران آپس کے تعلق رکھتے ہیں اور شناخت پہچانتے ہیں۔ لیکن ایک تھیم پایا جاتا ہے۔ زندگی کو جاری رہنے کے لئے اپنی ضروریات درکار ہیں۔ خوراک، پناہ گاہیں، ساتھی۔ جب یہ دستیاب نہ ہوں تو جسمانی اور سماجی دباؤ معاشروں کو کھوکھلا کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ اس وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے جب کسی جگہ کا ماحول معاشرے کا سائز برداشت نہ کر پائے۔ آبادی کا وسائل سے بڑھ جانا معاشرے کے افراد کے درمیان آپس کے مقابلہ کو سخت کر دیتا ہے۔ اور ہر فرد پر یہ اضافی بوجھ ڈالتا ہے۔ اور زندگی مشکل کر دیتا ہے۔
افراد اور گروہ کی شناخت کمزور ہو جاتی ہے اور آپس کا تعلق ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ ٹوٹ کر بن جانے والے چھوٹے گروہ الگ ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اگر شیروں کے گروہ کا حجم اتنا زیادہ ہو جائے کہ خوراک حاصل کرنے میں مسئلہ آنے لگے تو شیرنیوں کا ایک گروپ اسے چھوڑ دے گا۔
اس کی دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی جارحانہ مزاج رکھنے والا نر شیر گروہ کا حصہ بن جائے تو چھوٹے بچوں والی شیرنیاں اس خوف سے الگ ہو جائیں گی کہ یہ نووارد ان کے بچوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
اور جب ایک گروہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر اس کا امکان نہیں ہوتا کہ یہ کبھی واپس مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ مثال کے طور پر، جب سوویت یونین منہدم ہوا تو اس سے بننے والے حصے الگ تشخص کے ساتھ بنے۔ ان میں سے بننے والے کسی حصے نے اپنی پرانی شناخت نہیں اپنائی۔ اس کے ساتھ ہی وہ علامات ۔۔۔ نظریات، پرانے ہیرو، قصے وغیرہ بھی ختم ہو گئے جنہوں نے پچھلی سوسائٹی کو اکٹھا رکھا تھا۔ اور ساتھ ہی سوویت یونین کا تصور اور شناخت بھی۔

معاشی بدحالی گروہی یکجہتی پر دباؤ ڈال سکتی ہے (ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا) لیکن مشترک شناخت کا انہدام معاشرے کو ختم کر دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply