سماج (12) ۔ ہماری ٹیم/وہاراامباکر

ایک منظر ہے جس میں ایک برطانوی جاسوس جرمنی میں ریسٹورنٹ میں تین گلاس آرڈر کرتا ہے۔ تین کا اشارہ کرنے کے لئے وہ درمیان کی تین انگلیاں بلند کرتا ہے۔ اور پہچانا جاتا ہے۔ کیونکہ جرمن تین کا اشارہ کرنے کے انگوٹھا اور اس کے ساتھ کی دو انگلیاں بلند کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اشاروں کے بارے میں ایسی لغت جلدیں بھر دے گی۔ ایسابیلا پوگی نے اٹلی میں اپنی سٹڈی میں ہاتھ کے ایسے 250 اشارے لکھے ہیں جن میں سے کئی اٹلی سے خاص ہیں اور صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ ہاتھ سے کاٹنے کا اشارہ کرنے کا مطلب احتیاط رکھنے کی وارننگ۔ چہرے کے آگے لے جانے کا مطلب کسی کو بتانا کہ یہ بوریت والی بات ہے۔ پہلی انگلی اور انگوٹھے کو دائرے میں ملانے کا مطلب تعریف کرنا۔۔۔ ان اشاروں سے کی گئی باتیں الفاظ سے زیادہ موثر ہیں۔
اور یہ صرف ہاتھ کے اشاروں تک نہیں، چیرے کے تاثرات سمیت تمام بدن بولی پر ہے۔ کئی چیزیں یونیورسل ہیں یعنی تمام انسانوں میں مشترک ہیں۔ مثلاً، مسکراہٹ سے کِھلا چہرہ دنیا بھر میں ایک ہی مطلب رکھتا ہے۔ لیکن بہت کچھ الگ بھی ہے۔ اور اس میں سے بہت کچھ وہ ہے جو ہم غیرشعوری طور پر کر لیتے ہیں۔
یہ بتاتا ہے کہ ہماری سماجی پہچان میں خوراک یا قومیت کے نشان زیادہ توجہ لے جاتے ہیں لیکن ہمارے نشانوں میں بہت کچھ اور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جاپانیوں کی تصاویر میں سے غصہ، کراہت، اداسی، خوف یا حیرت کو پہچان لینے میں مقامی امریکی اتنے اچھے نہیں تھے جتنے کہ جاپان سے آنے والے امریکی۔
ایک اور تجربے میں امریکی یہ پہچان لیتے تھے کہ ویڈیو میں شخص امریکی ہے یا آسٹریلین۔ اس کے ہاتھ کے اشارے یا چال سے شناخت ہو جاتی تھی لیکن پہچان کرنے والا شخص یہ نہیں بتا پاتا تھا کہ یہ تفریق کس بنیاد پر کی۔
یہ پہچان مسلسل ایکسپوژر سے آتی ہے۔ باریک فرق پہچاننے کی ایک مشہور مثال دوسری جنگِ عظیم کے جہاز پہچاننے والے ہیں۔ یہ spotters دور سے یہ بتا دیتے تھے کہ آنے والا جہاز دشمن ہے یا دوست۔ مسئلہ یہ تھا کہ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ وہ یہ کرتے کیسے ہیں۔
ہم اسی طرح غیرشعوری طور پر ان لوگوں کو الگ سے شناخت کر لیتے ہیں جو ہماری سوسائٹی کے ہوں۔ لیکن اس کے پیچھے کی وجہ کو نہیں جانتے۔ اور ہمارے یہ غیرشعوری فرق ہماری سوسائٹی کو تشکیل دینے اور دوسروں سے الگ کرنے کی بنیاد ہیں۔
ہماری سوسائٹی کی شناخت کے ہمارے نشان اس قدر واضح ہیں کہ اس کو جانور بھی پہچان لیتے ہیں۔ ہاتھی انسانی قبائل میں فرق کر لیتے ہیں اور ان سے الگ توقعات رکھتے ہیں۔ کینیا میں یہ ماسائی سے ڈرتے ہیں (جو ہاتھیوں کو شکار کرتے ہیں) جبکہ کامبا سے نہیں۔ جب ماسائی قریب آئیں تو یہ چھپ جاتے ہیں۔ شاید یہ لباس کے رنگ سے ہوں (ماسائی سرخ رنگ کا استعمال کرتے ہیں) یا پھر خوراک کے فرق کی وجہ سے جسمانی بو کے فرق کے باعث (کامبا سبزی خور ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور انسانوں کے لئے بھی “اپنی ٹیم” کی فرد کی فوری شناخت کر لینا مفید ہے۔ کھیلوں میں یا فوج میں اپنی ٹیم کا ایک جیسا لباس ہونا ٹیم کے شخصی فرق کو کم کرتا ہے۔ اور آپس کے ٹیم ورک کو بہتر کرتا ہے کیونکہ اپنے کو پہچاننے کیلئے ذہنی بوجھ نہیں پڑتا۔
اسی طرح سوسائٹی میں اپنی ٹیم سے آگاہی کے مارکر یہ کام کرتے ہیں۔ ہم ان کو نوٹ نہیں کرتے لیکن اگر یہ غائب ہو جائیں تو ان کے لئے ترستے ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ ملک کے باہر ہوں تو بہت سے اجنبیوں میں سے بھی “اپنوں” کے ساتھ ملنے جلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ گھلنا ملنا آسان رہتا ہے۔ اپنے وطن سے خواہ زیادہ انسیت نہ ہو لیکن اپنے “گرائیں” اور اپنے ہم وطن سے تعلق بنانا زیادہ سہل لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہماری کبھی محض ایک شناخت نہیں ہوتی۔ ایک شخص بیک وقت بلوچ، انجنیر، شاعر، فلاں سیاسی پارٹی کا کارکن، فلاں تحریک کا حامی ہو سکتا ہے اور اس کی کوئی ایک شناخت دوسرے کو متاثر نہیں کرتی۔ اور میچ دیکھتے وقت اس کی پہنی ہوئی سبز قمیض اس کی پاکستانی کے طور پر ایک اور الگ شناخت کا نشان ہے۔
چیونٹیوں کی کالونی میں ایسے کوئی فرق نہیں۔ ملکہ کے علاوہ یہ برابری کا معاشرہ ہے۔ اور نہ ہی ایسا ہمیں بڑے جانوروں میں نظر آتا ہے۔ بھیڑیوں کے غول میں سیاہ اور گرے بھیڑیے کسی بھی لحاظ سے خود کو الگ نہیں کرتے۔ ارجنٹائن چیونٹیوں کی سپرکالونی کی اربوں چیونٹیاں ایک ہی ہیں۔ جبکہ میں اور آپ سوسائٹی میں فِٹ ہونے کے اعتبار سے سینکڑوں لحاظ سے فرق رکھتے ہی۔ مثلاً، ہو سکتا ہے کہ جو لوگ فلاں کے حقوق کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، آپ ان کا حصہ نہ ہوں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply