حیرت(1)۔۔اویس قرنی جوگی

کمزور پڑتی اپنی یاداشت سے ہمیں ہزار شکوے ہوں لیکن اتنا مان بہرحال ہے کہ وہ ہم سے جھوٹ نہیں بولتی۔ وہی یاداشت بار بار کہہ رہی ہے کہ ہم جھولے یا اُڑن کھٹولے پہ نہیں چار پایوں والی منجی پہ سوئے تھے۔ جبکہ اس وقت محسوسات سراسر برعکس ہیں۔ صورتِ حال کا جائزہ لینے کو دو میں سے ایک آنکھ آدھی کھولی تو نظر آنے والا منظر دیکھ کر دوسری آنکھ تو کیا چودہ طبق بھی پٹ پٹ پٹاک کھل گئے۔

منظر ہی ایسا تھا۔ چار ہیولے ہمیں ٹنگا لولی کیے اُڑنے کے برابر چھلانگتے جا رہے ہیں۔ رونگٹے بھی ہمارے ہیں پس ہمارے جتنے آلسی بھی ہیں۔ انہوں نے کھڑا ہونا غیر ضروری سمجھ کر دماغ سے “پتا لگاؤ دیا ، آخر یہ ہیں کون” کا سوال کرکے اسے وخت پا دیا۔ اور بے چارہ دماغ اپنے ازلی لیکن نامرغوب کام میں جت گیا۔

پہلا گمان گزرا کہ غیراعلانیہ مارشل لاء چل رہا ہے۔ ویگو والی مخلوق پئے گئی اے جوگیا!تصدیق کیلئے نظر ان کے بوتھے بشرے کی جانب دوڑائی۔ وہ خبر لائی کہ “ان پہ وہ نحوست و پھٹکار نہیں جو الف بے اور اسی قبیل کے دیگر لعینوں کا ٹریڈمارک ہے۔ ان سے وہ والی بدبو بھی نہیں آ رہی۔” مانتے ہی بنی کیونکہ دلیل معقول تھی۔

پھر یہ کون ہوسکتے ہیں؟ کہیں موت کے فرشتے تو نہیں پئے گئے جوگیا! یہ دہائی دوسرے گمان کی تھی۔ جسے ہم نے دوسرے جائزے کے بعد مسترد کردیا۔ مانا کہ ہمارا اعمال نامہ ہمارے بے ضرر کرتوتوں سے تھوڑا بہت سانولا ہے۔ لیکن کالا شیاہ تو نہیں نا؟
بقول جانِ جاناں! آخر گناہگار ہوں ، کافَر نہیں ہوں میں
جبکہ ان کی ہیئت تو کفار و ملحدین کی جان قبض کرنے کو آنے والے فرشتوں جیسی لگ رہی ہے۔ اپنی اس دلیل کے بعد ہم خود ہی متذبذب ہو کر اس عفیفہ کی طرح “دلیلاں دے وات” آگئے ، جس کا چن مجبوراً ایک رات اس کی معیت میں گزارنے نہ پہنچ پایا تھا۔ سوال کا ناگ تین نقطوں والا پھن اٹھائے مسلسل شُوک رہا تھا۔ جواب کہاں سے آتا کہ غالب کے زمانے میں کارفرما جل گیا تھا اور ہمارے زمانے میں کارفرما پھنس گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسرت

یہ تذبذب نجانے کتنی دیر ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے رہا۔ اچانک آنکھوں کے آگے برق سی کوند گئی۔ ہمیں اٹھا کر بھاگنے والوں کا سیاہ ملبوس ایک چھلانگ پہ ذرا کی ذرا ہٹا اور وہاں سے نورانی لاٹ چمکی۔ قریب تھا ، ہم اسے نیرنگِ خیال ہی سمجھ لیتے کہ کچھ دیر بعد وہی نظارہ پھر نظر آیا۔ ہم نے سوچا موت کے فرشتے کفار کیلئے سیاہ ملبوس میں اور مومنوں کیلئے نورانی صورت میں آتے ہیں۔ مرزا غالب کے بعد ہم جو آدھے مسلمان ہوئے ہیں ، کیا عجب اگر ہماری گرفتاری کیلئے آدھے نورانی آدھے سیاہ فرشتے پیدا کیے گئے ہوں۔ ورنہ اس سے پہلے تو ہم نے بلیک اینڈ وائٹ فرشتوں کا ذکر نہ سنا، نہ پڑھا تھا۔
خیال کوندا ، متذبذب رہنے سے بہتر ہے کہ انہی فرشتوں سے پوچھ لیا جائے۔ ہمارے سوال پہ فرشتے چونکے ضرور مگر ان کی رفتار میں ملی میٹر تغیر بھی نہ آیا۔ جواب نہ ملنے پہ ہم نے اپنا سوال دہرایا ، سہرایا ، چوتھایا ، پنجوایا۔۔۔ حتیٰ کہ تنگ آ کر فرشتوں کو منہ کھولنا ہی پڑا۔ ان کے جواب سے یہ تصدیق تو ہو گئی کہ فرشتے ہی ہیں مگر موت کے نہیں ، جنت میں کسی کام پہ مامور ہیں۔
جنت کا لفظ سنتے ہی ہمیں اپنا آپ جامے سے باہر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اچانک یاد آیا کہ ہمارے اعمال نامے میں تو ایسا کوئی عمل ہی نہیں جس کے بل پہ جنت مل سکے۔ نیز ابھی تو ہم مرے بھی نہیں ، نہ ہی ہمارا نام ادریس ہے۔ ہوسکتا ہے انہیں ادریس کو لانے بھیجا گیا ہو اور یہ دال کو واؤ سمجھ کر اویس اٹھا کر لے چلے ہیں۔ سوچا سانوں کی ، لیکن غالبانہ غیرت نے بچالیا۔ ہم نے فرشتوں پہ حقیقت واضح کردینا ضروری سمجھا۔ اس وضاحت کے بعد بھی فرشتے نہ ٹھٹھکے نہ چونکے۔ تس پر ہمارے بھی کان کھڑے ہوئے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
کئی جتنوں سے ہم نے فرشتوں سے اگلوا ہی لیا۔ انہوں نے ابھی صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ “تمہیں مرزا غالب نے بلوا بھیجا ہے” اور مسرت کے مارے ہماری عقل نے جسم و روح پہ گویا مارشل لاء لگا دیا۔
ہماری سماعت و بصارت ہی نہیں ہمارا سوچنا سمجھنا بھی پاکستانی آئین کی طرح معطل ہوگئے۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ “تمہیں مرزا غالب نے بلوا بھیجا ہے۔”
جاری ہے

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply