نظام الدینؒ- دین کا نظام/ڈاکٹر اظہر وحید

دین کا مرکزی محور اگر اطاعتِ خداوندی، خدمتِ انسانی اور اخلاقِ محمدیؐ ہے تو نظام الدینؒ کی طریقت ہر خاص و عام کے لیے قابلِ توجہ، قابلِ تقلید اور قابلِ عمل ہے۔ اگر دین کے مرکزی خیال میں حکومت اور سیاست شامل ہو جائے تو پھر اختلاف کے سو زاویے پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس طرح مفاد ہر کسی کا اپنا ہوتا ہے اس طرح دین میں سب کا اپنا اپنا ہو جاتا ہے۔ ملوکیت نے دین میں ملاوٹ کر دی۔ آسمانی نظام کو زمینی نظاموں کے مقابلے میں لا کر کھڑا دیا۔ لوگ اسلام کا مقابلہ سوشلزم اور کیپٹلزم سے کرنے لگے، جیسے خدانخواستہ اسلام بھی کوئی ”ازم“ ہے۔ دین کا ترجیحی نکتہ تزکیہِ نفس اور مابعد کی زندگی کی کشائش ہے، جبکہ زمینی نظاموں میں رائج نصاب ریاست، حکومت اور سیاست پر مشتمل ہے۔ مقابلہ اور موازنہ ہم جنس چیزوں کا ہوتا ہے، آسمانی ہدایت کا بھلا کسی زمینی رطب و یابس سے کیا مقابلہ۔ زمینی نصاب فقط یہاں کامیابی تک محدود ہیں، جبکہ دین فلاح کی دعوت دیتا ہے۔ جب تک اخروی کامیابی شاملِ حال اور خیال نہ ہو، زمینی کامیابی ادھوری اور نامکمل ہے، بلکہ بعض اوقات زمینی کامیابی بجائے عافیت کے عبرت بن جاتی ہے۔
ابھی ہم حالتِ سفر میں ہیں۔ دِلّی کی سیر سے فراغت ابھی میسر نہیں۔ سفر کے اندر ہی ایک اور سفر شروع ہو جاتا ہے۔ انسان کا سفر دراصل سفر در سفر ہے۔ سَیر کے دوران میں سِیر کا حال معلوم ہوتا ہے…… اپنی سیرت بھی اور اپنے ہم سفروں کی بھی!! اس لیے سفر کا حکم ہے۔ حکم ہے، زمین میں سیر کرو، یہ سیر کسی سیاحت کا باب نہیں بلکہ یہاں مدعا عاقبت کی طرف نظر کرنا ہے ”…… اور پھر دیکھو! جھوٹوں کی عاقبت کیسی ہوئی“ حق اور باطن کے فرقان کے بغیر کیا گیا کوئی بھی سفر ہو، بے فائدہ ہے…… خواہ یہ شعر و سخن اور فلسفہ و تاریخ ہی کا سفر کیوں نہ ہو۔
دِلّی کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے دل کے سفر کے لیے دو کتب رکھنے کی تمنا تھی، ایک ”فوائد الفواد“ اور دوسری ”سیر الاولیاء“۔ ”سیر الاولیاء“ بروقت دستیاب نہ ہو سکی۔ فوائد الفواد (دلوں کے فائدے) محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات اور ان کی مجالس کی روداد پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ کتاب آپؒ کی حیاتِ ظاہری ہی میں مرتب ہو گئی تھی، مرتب کرنے والی شخصیت سیّد امیر حسن علاء سِجزی (بر وزنِ چشتی) ہے۔ یہ کتاب متلاشیانِ حق کے لیے ایک بیش بہا خزانہ ہے، اس میں شریعت، طریقت، عبادات، احسان، عدل، تاریخی واقعات اور اپنے ہم عصر معاشرے کو درپیش مسائل پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔ اس کتاب کے متعلق امیر خسروؒ فرمایا کرتے ”کاش میری تمام تصانیف امیر حسن کے نام سے منسوب ہو جاتیں اور ان کے عوض میں فوائد الفواد میرے نام سے منسوب ہوتی“ کرنی خدا کی دیکھیے، ”سیرالاولیا“ ہمیں بستی نظام الدین اولیاؒ میں دستیاب ہو گئی، کسی دکان سے نہیں بلکہ غالب اکیڈمی سے۔ ہوا یوں کہ ہم جب بھی درگاہ سلام کرنے کے لیے آتے، آتے ہوئے یا پھر واپسی پر غالب اکیڈمی بھی باجماعت حاضری لگوائے۔ وہاں کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد منٹوں میں ہمارے دوست بن گئے۔ انہیں اپنی کتب تحائف میں دیں، مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی تمام کتب جو ہمارے سامان میں موجود تھیں، سب کی سب غالب اکیڈمی کی لائبریری میں ہدیہ کر دیں۔ سہ ماہی ”واصفؒ خیال“ کے چند شمارے
بھی مہیا کر دیے، جواب آں غزل کے طور پر ڈائریکٹر صاحب نے بھی غالب اکیڈمی کی شائع کردہ چند تحقیقی کتب عنایت کیں اور وہاں سے نکلنے والے شش ماہی مجلے ”جہانِ غالب“ کے ڈھیر سارے شمارے ہمیں تحفتاً تھما دیے۔ یہ لوگ غالب کا پردہ لے کر دراصل ”اردو زبان“ کی خدمت کر رہے ہیں۔ غالب اکیڈمی پر ایک بھرپور کالم لکھنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ۔ القصہ، ایک دن ان کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ کونے میں درجن ایک کتب باندھی ہوئی رکھیں۔ نگاہِ اشتیاق پڑی تو ان میں سے ایک ”سیر الاولیا“ تھی، اللہ اللہ! میں لپک پڑا۔ میں نے کہا، اس کتاب کی مجھے تلاش تھی، بچپن میں پڑھی تھی اور دوبارہ پڑھنے کی تمنا ہے۔ عقیل صاحب نے میری پُر اشتیاق نگاہوں کو بھانپ لیا، کہنے لگے یہ درگاہ کے اندر سے شاہ صاحب نے چند کتب منگوائی تھیں، اور ابھی آپ کے آنے سے کچھ دیر قبل ہی دفتر کا ملازم اردو بازار سے لے کر آ رہا ہے۔ گویا یہ امانت تھی۔ باایں ہمہ، کہنے لگے، میں اسے کھلوائے دیتا ہوں، آپ لے لیں، میں انہیں دوبارہ منگوا دوں گا۔ ”سیرالاولیا“ سے میری کچھ یادیں بھی وابستہ ہیں۔ خط نسخ میں چھپی ہوئی، زرد رنگ کے سرورق کے ساتھ، نو سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب بچپن میں پڑھی تھی، اور ڈانٹ بھی کھائی تھی، یہ اواخر ایام کی بات ہے۔ دراصل مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ تصوف پر کتابیں پڑھنے کی لت کو درست نہیں سمجھا کرتے تھے، سوائے ”کشف المحجوب“ اور ”کیمیائے سعادت“ کے خال ہی کوئی کتاب پڑھنے کا کہتے۔ بچپنے میں حکم میں پوشیدہ حکمت کا اندازہ نہ تھا، رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ تصوف دراصل ایک عملی کام ہے اخلاق و کردار سنوارنے کا، اسے محض تصانیف و تالیفات کے سپرد کر کے فلسفہ نہیں بنا لینا چاہیے، اس لیے آپؒ تصوف کے لیے لفظ ”مسٹسزم“ یا ”صوفی ازم“ بھی ناپسند کیا کرتے۔ آپؒ فرمایا کرتے، تصوف کوئی ”ازم“ نہیں، محض فلسفہ و تاریخ نہیں، بلکہ کرنے والا عملی کام ہے۔ میں کوئی کتاب پڑھنے سے پہلے آپؒ سے اس کتاب کے متعلق ضرور پوچھ لیا کرتا۔ اشفاق صاحب کی کتابیں بھی آپ سے اجازت لے کر پڑھیں، بلکہ آپ ہی کی الماری سے لے کر پڑھیں، یہ ایک لمبی داستان ہے، اسے پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اب ہوا یوں کہ ایم بی بی ایس کے بعد فراغت کے ایام تھے، انارکلی میں پرانی کتابوں والے سٹال پر ”سیر الاولیا“ دکھائی دی، فوراً گھر لے آئے، اور مطالعہ میں جٹ گئے، کافی دنوں بعد جب کتاب مکمل ہوئی، تو آپؒ نے مجھ پر جتلا دیا کہ تم نے یہ کتاب میری اجازت کے بغیر پڑھی ہے۔ تصوف کی بہت زیادہ کتب پڑھی جائیں تو ذہن میں تقابل کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اور تقابل کیفیت کی لطافت کو تعدیل کر دیتا ہے۔ شائد تصوف دین اور زندگی کے ان زاویوں کو اپنے اندر سمیٹنے کی جستجو کا نام ہے جو تحقیق کے دائرے سے ہمیشہ باہر رہتے ہیں۔ تعقل سے تعشق تک پرواز کرنے کا امکان اگر کسی جگہ موجود ہے تو وہ کارگہِ تصوف ہے۔ روحِ دین کو دریافت کرنے کا زاویہ کسی زاویہ نشیں کے ہاں ہی میسر آتا ہے۔ تصوف ایک کارِ دریافت اور انکشاف ہے، بے مصرف ہنگامہِ افکار!!
”سیرالاولیا“ کی سَیر بھی خوب رہی۔ یہ کتاب سیّد محمد مبارک کرمانی المعروف امیرخوردؒ کی تصنیف ہے۔ انتہائی دلچسپ اور مدلل انداز میں لکھی ہوئی یہ کتاب قاری کو اپنے اندر محو کر لیتی ہے اور اس دور میں لے جاتی جس دور میں ایسی مشامِ جاں ہستیاں مادرِ گیتی پر محوِ خرام تھیں۔ ان کا روحانی وجود اب بھی محوِ خرام ہے، اپنے زائرین اور محبین کا استقبال کرتا ہے، ان کے دلوں میں جھانک کر ان کی نیک تمناؤں کی بارآوری کے لیے ممد و معاون ہوتا ہے۔ مزاراتِ اولیا کے حوالے سے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے کہ جہاں سے کبھی دریا گزرا ہو وہاں اس کا نشان سو سال تک رہتا ہے، جہاں محبت کا دریا گزرتا ہے، وہاں نشان کتنی دیر تک رہے گا۔”کرن کرن سورج“ میں آپؒ فرماتے ہیں ”اپنی زندگی ہی میں اپنے اپنے مزار کو روشن بنایا جاتا ہے۔ نیک اعمال زِندگی میں سکون اور طمانیّت پیدا کرتے ہیں اور مرنے کے بعد مزار میں چراغ بن کر روشنی پیدا کرتے ہیں۔ اپنی صفات اور اپنے کردار کی خوشبو، بعدِ مرگ بھی قائم رہتی ہے۔ جن مزاروں پر خوشبو اور چراغ ہوں، اُن صاحبانِ مزارکی زِندگی ضرور نیکی اور خیر کی زندگی ہو گی۔ جن لوگوں کے مزار پر گنبد نظر آتے ہیں، وہ لوگ زِندگی میں ہی غبارِ راہِ حجاز ہو چکے ہوتے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں خاکِ مدینہ و نجف کا سُرمہ لگ چکا ہوتا ہے۔ اُن لوگوں پر سلام ہو“
”شب چراغ“ میں انتہائی بلیغ انداز میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”روشنی کائنات کی خوشبو / چار سُو حسنِ ذات کی خوشبو
اپنے اپنے مزار میں واصفؒ / اپنی اپنی صفات کی خوشبو
خوشبو اور روشنی کے اس آنگن کا منظر عجب ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کی ذات میں نمایاں ترین صفت ”محبوبیت“ ہے، آپؒ محبوبِ الٰہیؒ کی صفت سے ملقب ہیں۔ درگاہِ نظام الدینؒ قبلہ گاہِ قلوب العاشقین ہے …… کٹھور سے کٹھور دل بھی یہاں نچھاور ہوا جاتا ہے۔
خوشبو ساری خیال کی ہے…… اولیا و فقرا خیال کو خوشبودار کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتے ہیں۔ سیر الاولیا میں درج ہے کہ آپؒ کے ایک قاضی صاحب مرید ہونے کے لیے آئے۔ جسٹس ہونے کے ناتے ان کی معقول آمدن اور متمول اندازِ زندگی تھا، اہلِ خانہ بھی اسی انداز کی زندگی کے عادی تھے، آپؒ نے مرید کرنے کے لیے شرط یہ رکھی کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر آؤ۔ چنانچہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا، مرید ہوے اور زہد و سلوک و تقویٰ کی منازل طے کرتے رہے، یہاں تک کہ خلافت کے اہل ٹھہرے۔ ان کے اہلِ خانہ عشرت سے عسرت تک ساتھ نہ دے سکے، شکوہ گزاریاں شروع ہو گئیں۔ اسی اثنا بادشاہ کی طرف سے دوبارہ اسی عہدے کی پیش کش ہوئی، یہ پہلے سے زیادہ پُرکشش تھی۔ یہ شاہی مراسلہ لے کر وہ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاید بن پوچھے اجازت کے طلبگار تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے خشمگین نگاہوں سے انہیں دیکھا اور کہا کہ تم نے ضرور اپنے دل میں پھر سے اس مرتبے کی تمنا کی ہو گی، وگرنہ بادشاہ دوبارہ تمہیں اس عہدے کی دعوت ہرگز نہ دیتا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آپؒ ایک سال تک اپنے اس مرید سے ناراض رہے، خلافت نامہ واپس لے لیا۔ چنانچہ ایک سال کی مزید ریاضتِ نفس سے انہوں نے مرشد کو مائل بہ کرم کیا۔ اللہ اللہ! یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں، خیال پر بھی اس قدر پہرہ، خطراتِ نفس کی ایسی نگہبانی…… مٹی میں خوشبو ایسے ہی نہیں پیدا ہو جاتی ہے۔ کوئی مالی، کوئی گوڈی دینی والا، کوئی بیج ڈالنے، کوئی پانی دینے والے، کوئی کانٹ چھانٹ کرنے والا شاملِ حال ہو تو ہی مٹی خوشبودار ہوتی ہے۔
خوشبو ساری خیال کی ہے
یہ بستی اُنؐ کے جمال کی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply