پسِ پردہ/محمد جنید اسماعیل

پاکستان میں آج کل ایک مسئلہ زبان زدِ عام ہے اور وہ آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے، جس پر حکومتی حلقوں میں بھی تناؤ کی کیفیت دیکھنے کو ملی ہے۔خاص طور پرسابق وزیراعظم اور رہنما مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی کے انٹرویو نے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ۔شاہد خاقان عباسی نے ایک چینل پر گُفت گو کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو کی طرف سے سمری کا ارسال نہ کرنا یا پھر سینئر ترین جنرلز کا نام نہ بھیجنا کسی طور پر خوش گوار بات نہ ہوگی ،اور اگر حکومت کے تجویزہ کردہ نام کو آرمی چیف تعینات نہ کیا گیا تو ہمارے پاس عدالت میں جانے کا اختیار موجود ہے ۔

شاہد خاقان عباسی کی ان باتوں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان اس معاملے پر اتفاق نہیں ہورہا اور کسی بحران کا خدشہ موجود ہے جس کی طرف پہلے سے اشارہ دیا جارہا ہے ۔

خوشگوار بات یہ ہے کہ ان سب خطرات کے ہوتے ہوئے رات وزارتِ دفاع کو سمری موصول ہوچکی ہے جو کہ وزیراعظم صاحب کو بھیجی جاچُکی ہے جن میں چھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے نام شامل ہیں جو بالترتیب اس طرح سے ہیں

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ،لیفٹیننٹ جنرل ساحر شماد مرزا ،لیفٹیننٹ جنرل اظہر، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اور لیفٹیننٹ جنرل عامر۔

وزارت دفاع جی ایچ کیو کی جانب سے بھیجے جانے والے اِس ڈوزیئر کو وزیراعظم ہاؤس کو ارسال کرے گا، جس کے بعد حکومت اتحادیوں کی مشاورت سے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا انتخاب کرے گی اور پھر اسے منظوری کیلیے صدر مملکت عارف علوی کے پاس بھیجا جائے گا۔

اتحادی جماعتوں نے ظاہری طور پر تو وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرسکتے ہیں لیکن رات آصف علی زرداری کی شہباز شریف سے ہنگامی ملاقات کے بعد یہ قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں کہ آصف علی زرداری دراصل آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے لیے اپنا پسندیدہ نام بتانے آئے تھے ۔آصف علی زرداری کی مفاہمت سے کون واقف نہیں ،اُن کی یہ اچانک ملاقات اپنے اندر کئی  خدشات پنہاں کئے ہوئے ہے ۔

پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان صاحب کا اپنے اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیئے سے ہٹ جانا بھی کسی طوفان کی پیشین گوئی کررہا ہے ،سمندر یونہی خاموش نہیں بلکہ کسی خطرناک لہر کی آمد کا عکاس ہے ۔عمران خان نے جس طرح فوراً اپنے ان دونوں مشہور نعروں سے جان چھڑوائی  ہے وہ ہمارے سامنے دو قسم کے حالات کی پیشین گوئی  ہوسکتی ہے ،اوّل تو یہ کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ٹھان لی ہو اور وہ نئی  عسکری قیادت سے کسی قسم کا ٹکراؤ نہ چاہتے ہوں ،اگر ایسا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے جس کی حوصلہ افزائی  ہونی چاہیئے اور ہماری سیاسی بے چینی میں کمی واقع ہو ،تاکہ اقتصادی شعبے میں کچھ بہتری لائی  جاسکے ۔

دوئم یہ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو کسی طاقتور حلقے کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی  ہو کہ اُن کی پسند ناپسند کا خاص خیال رکھا جائے گا اور اس وجہ سے اُنہوں نے اپنے بیانیے کو بدلنے کی کوشش کی ہو ۔پاکستان تحریکِ انصاف بڑے منظم طریقے سے اپنے بیانیے  سے پیچھے ہٹی اور اِس تبدیلی کی مکمل تشہیر کرانے کی کوشش کی ہے اور طاقتور حلقوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے ،یہاں تک کہ اے آر وائی  نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں (شاہ محمود قریشی ،فواد چوہدری ،اسد عمر ) کی پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر کے منہ سے نکلنے والے ایک عسکری افسر کے خلاف تحقیقات کی بات کو حذف کردیا ،اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی اور فواد چوہدری نے باقاعدہ کانفرنس کرکے پی ٹی آئی  کے نئے بیانیے  کی نمائندگی کرنے کی کوشش ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے علاوہ عمران خان صاحب سے برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنرکی ملاقات اور چوہدری پرویز الہی سے امریکی عہدے داروں کی ملاقات کسی نئے سیاسی طوفان کی غماز ہوسکتی ہے ۔اگر سمری کی مزید تاخیر ہوتی تو شاید ہم ایک بار پھر “میرے عزیز ہم وطنو !” سننے کا انتظار کرتے لیکن اب اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ سارا عمل احسن اور آئینی طریقے سے سر انجام دیا جائے گا۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply