دنیا معاشی بدحالی اور ابتری کی اس انتہاء پر پہنچ چکی ہے کہ اب ادیب کے خیالات بھوک کیوجہ سے تتر بتر ہوئے جارہے ہیں۔ ادیب کے پاس لکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں رہا۔ وہ جب بھی اپنے کرداروں کو زندہ کرکے صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی سعی کرتا ہے تو جیتے جاگتے کردار بھوک سے بلبلا کر کاغذ کے سفید صفحات پر پھیل کر گند مچا دیتے ہیں۔
فنکار کی انگلیاں کینوس پر جامد ہیں اور فنکار کا تخیل جواب دے چکا ہے۔ فنکار جب کسی حسینہ کو رنگوں کی زندگی دیکر کینوس پر سجانے کی کوشش کرتا ہے تو حسینہ کی زبان بھوک سے باہر نکلی لٹک رہی ہوتی ہے۔
علوم کے ماہر خاموش ہیں کہ وہ ان بھوکے ننگے لوگوں سے کیا کہیں اور کیوں کہیں ، جہاں بھوک نے انسان کے شعور پر اپنے بدنما اور کریہہ پنجے گاڑ دیئے ہیں۔ سو وہاں علم و عرفان کی باتیں معاشروں کو سمجھ نہیں آتیں ۔
اب کافکا کے خطوط زہر لگتے ہیں۔ رومی کے فلسفے بے رنگ لگ رہے ہیں۔ لیونارڈو ڈوانچی کی “مونا لیزا” مضحکہ خیز لگتی ہے۔ اقبال کی خودداری اجنبی سی لگ رہی ہے۔ اب تو مذاہب بھی نرے جھوٹ کے گھروندے لگ رہے ہیں جہاں انسانوں کی تکریم کی بات تو کی گئی ہے مگر بھوک کی طاقت کے سامنے ساری تکریم اور عبادات بیکار ہوئی پڑی ہیں۔
کارل مارکس کا جھوٹا فلسفہ، جان لاک کی بے جان رواداریاں، ولادی میر لینن کے جھوٹے خواب، بس سچ ہے تو گندم کی ایک گول روٹی جو بالکل چودھویں کے چاند جیسی لگتی ہے۔ جس میں مونا لیزا کی مسکراہٹ سے زیادہ کشش ہے۔ جس میں ہزاروں مامتاؤں سے زیادہ پیار ہے۔ جس کو کھا کر دوبارہ مولانا رومی، کارل مارکس، ارسطو اور اقبال کی طرف متوجہ ہوا جا سکتا ہے۔
تو بتائیں پھر طاقت کا سرچشمہ آپ کے بے جان فلسفوں کی بھاری کتابیں اور یہ خوبصورت فانی چہرے ہیں یا گندم کی یہ گول روٹی؟۔
یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں