ادب کے چار عظیم کردار/ڈاکٹر مختیار ملغانی

بعض دوست اس رائے کے ساتھ سامنے آسکتے ہیں کہ یہ چاروں کردار صرف مغربی ادب تک ہی محدود ہیں لیکن میری نظر میں بلا تمیزِ مشرق و مغرب، یہ چاروں دنیائے ادب کے عظیم ترین کردار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پہلا فرانسیسی ادیب مولیئیر کا کردار، ڈون جوآن ، ہے، وہی ڈون جوآن جسے پلے بوائے کی علامت سمجھا جاتا ہے، یہ نام محاورتاً ایسے شخص بارے استعمال کیا جاتا ہے جو جنس و شہوت میں خوشی ڈھونڈھتا ہو اور صنفِ نازک کی بانہوں میں زندگی کی آسانیاں پاتا ہو۔ مولیئیر کے والد شاہ کے دربار میں جشن و سرور کی محفلوں اور تہوار و میلوں کو منظم کرنے پر مامور تھے اور چونکہ ایسی محفلیں و میلے ہمیشہ جاری رہتے، اسی لئے مولیئیر کی پرورش دادا کے ذمہ تھی، دادا فطرتاً جملے باز، خوش مزاج اور زندگی کی رنگینیوں کو بازاروں ، تھیٹر، قحبہ خانوں میں پاتے اور پوتے کو ہمیشہ ساتھ لے جاتے، یہیں سے مولیئیر کے رنگ و بو کے ذوق کی داغ بیل ڈلی جو آگے جا کر حسن و نسوانیت کی لطافتوں سے ثمر بار ہوئی، ان کا یہ ناول لیکن بظاہر خوشی و عیاشی ڈھونڈھنے والے نوجوان کی داستان سے کہیں بڑھ کر ہے، اس کی گہرائیوں کو شاید فرائیڈ کے اس فلسفے پہ تولا جانا چاہئیے کہ انسانی اعمال کا بنیادی محرک جنس ہے۔
دوسرا عظیم کردار شیکسپیئر کا ، ہیملٹ ، ہے، نہ تو شیکسپیئر کسی تعارف کے محتاج ہیں، نہ ہی ان کی یہ تخلیق، ہر فرد ان کے نام اور ان کی غیر معمولی ادبی صلاحیتوں بارے جانتا ہے۔ ہیملٹ صرف اپنے باپ کے قاتل سے انتقام لینے اور زندگی کو جزبات تلے گزارنے کے زیاں کی کہانی نہیں بلکہ اس میں زندگی و سماج کے گہرے فلسفیانہ اقدار کی اہمیت بتائی گئی ہے، آپ کے مقصد کا حصول اسی شرط پر ممکن ہے کہ پہلے آپ خود کو ہر جہت سے مضبوط بنائیں، اگر ایسا نہیں تو آپ کسی سلطنت کے شہزادے بھی ہوں تو مقاصد کا حصول ممکن نہیں، بلکہ مقاصد کی جستجو میں اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو آپ کے پاس ہے۔
تیسرا کردار ہسپانوی ادیب سیروانٹیس کا، ڈون کیہوٹ ، ہے، 2005ء میں اس ناول کے چار سو سال مکمل ہونے پر، یونیسکو نے اسے دنیائے ادب کا سب سے عظیم ناول قرار دیا، اس ناول کے ٹیکسٹ کو ادب کے طلباء میٹرکس کا نام دیتے ہیں جس کا لفظی مطلب کوکھ ہے جو کہ زندگی کو جنم دیتی ہے، یعنی کہ آنے والے ادیب اس ناول کے ٹیکسٹ سے پرورش پا سکتے ہیں۔ یہ ناول ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو شہسواروں کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے تخیلاتی طور پر خود اسی دنیا میں جا بستا ہے، اور اپنا نام ڈون کیہوٹ رکھ لیتا ہے اور سماج میں عدل و انصاف کی جستجو کرتا اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے ، اس میں مزاح بھی ہے اور فرد کا حقیقی زمانے سے لاتعلق ہونے کا ماتم بھی، ہم میں ہر فرد اپنے اندر ایک ڈون کیہوٹ پالتا ہے،،،
چوتھا کردار جو ان چاروں میں شاید سب سے زیادہ گہرائیاں لئے ہوئے ہے، وہ گوئٹے کا فاؤسٹ ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے گوئٹے جدید جرمن فکر کے خالق کہلائے جا سکتے ہیں، وہ عظیم زبان دان، فلسفی، فطرت شناس اور مفکر تھے، شاعری میں لکھے فاؤسٹ کو دنیا کی اہم ترین کتاب قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، اپنے اس کردار کے ذریعے انہوں نے اہم ترین فلسفیانہ سوالات پر بحث کی ہے، انسان کون ہے، کہاں سے آیا ہے، کائنات میں اس کا کیا مقام ہے، انسانی عقل کی حدود و صلاحیتیں، علم کی پیاس ، زندگی کا مقصد وغیرہ جیسے مشکل ترین ابواب پر انہوں نے گویا کہ قلم توڑ کے رکھ دیا ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ چاروں کردار ان چار عظیم قلم دانوں کی دریافت ہیں یا پہلی بار سماج میں وارد ہوئے ہیں، ان سے پہلے بھی یہ تمام پروٹو ٹائپس ہر دور، ہر قوم اور ہر تہذیب میں پائے جاتے تھے ، کارل ژونگ کی اصطلاح کے مطابق ,اجتماعی انسانی لاشعور (شعور نہیں ), میں یہ پہلے سے موجود تھے لیکن ہوا میں معلق تھے ، مذکورہ قلم دانوں نے ان کرداروں کو ادب کی زمین پر مضبوطی سے باندھ کر امر کر دیا ۔ آپ ان میں سے کسی بھی کتاب کا ایک خاص عمر میں مطالعہ کریں تو مخصوص جہت پر ذہن و فکر کی پرواز پائیں گے، دس پندرہ سال بعد دوبارہ مطالعہ کر کے دیکھیں تو بالکل مختلف مفہوم سامنے آئے گا۔
ہر وہ شخص جو ادب و مطالعہ میں دلچسپی رکھتا ہے اس کیلئے ان شاہکاروں سے قریبی تعارف لازم ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply