نیل کے سات رنگ-قسط3/انجینئر ظفر اقبال وٹو

چائے اورمقامی مشروبات کے متعدد دور چلنے کے بعد آخر کار میزبانوں نے ہمیں وہاں سے ریسٹ ہاؤس کے لئے نکلنے کی درخواست کی۔ شاہ جی نے مقامی ویٹرس کو مسکراتے ہوئے کچھ ٹپ دی اور پھر اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر دوچار مزید فوٹو بنائے اور ہم وہاں سے اپنی گاڑیوں طرف چل دیے۔ اس سے پہلے کہ ہم گاڑی میں بیٹھتے بجلی کی سرعت سے دوڑ کر کچھ لوگ اس ہجوم سے نکل کر ہمارے سر پر پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے شاہ جی اور مجھے گھیر لیا تھا۔ان کے ہاتھوں گرفت میری کلائی اور سینے پر اتنی سخت تھی جیسے میں “ٹرانسفارمرز” سلسلے کی کسی فلم کے ایک مشینی کردار کی گرفت میں ہوں جس نے ہر طرف سے مجھے جکڑ کر بے بس کیا ہوا ہے۔ان بندوں میں سے ایک کی آنکھیں لیزر نما شعلے برسا رہی تھیں جن کی طرف زیادہ دیر تک نہیں دیکھا جاسکتا تھااور وہ سب ہمیں گھسیٹ ساتھ کھڑی اپنی گاڑی میں پھیکنا چاہ رہے تھے۔ وہ اپنی افریقن ٹاپ عربی زبان میں زور زور سے ہم پر رعب ڈال رہے تھے۔ ان بندوں کی میری گردن پر مشینی گرفت سے سانس اکھڑ رہی تھی۔ اس لمحے مجھے لگ تھا کہ ” جنجوید” ہمیں اغوا کرکے لے جا رہے ہیں۔وہ “الدریسہ” ڈیم نہیں بننے دینا چاہتے۔ شاید وہ ہمیں تاوان کے لئے اغوا کر رہے ہیں یا شاید کل ہماری لاشیں کسی سڑک کنارے ملیں۔

خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی۔ کئی مسلح جتھے وجود میں آچُکے تھے جن کا اپنے اپنے علاقوں پر کنٹرول تھا۔ مزرعین کے دیہات جلا دئے گئے تھے اور دیہی آبادی جان بچا کر غرب دارفور کے دو تین بڑے شہروں میں آ بسی تھی۔شہروں سے باہر نکلتے ہی حکومتی رٹ ختم ہوجاتی۔کچھ گروہوں کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی تو دیگر بیرونی ایجنڈوں پر کام کر رہے تھے کیونکہ دارفور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقہ ہے جہاں یورینئم اور تیل کےوسیع ذخائر موجود ہیں۔ کچھ علاقوں میں مٹی میں سونے کے ذرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان وسائل پر قابو حاصل کرنے والی قوتیں نسلی خانہ جنگی پر مہمیز کا کام کر رہی تھیں تاکہ اپنے پسند کے گروہ کا اپنی دلچسپی والے علاقوں پر قبضہ کرواکر قدرتی وسائل کو اونے پونے داموں لوٹا جاسکے۔

دار فور کےیہ جنجوید گرمیوں کا موسم شروع ہونے سے پہلے ہی شمال میں لیبیا کی سرحد کے ساتھ صحرائے گوبی کے علاقے سے جنوب کی جانب سخت سفر باندھنا شروع کر دیتے تھے۔ان کی منزل” غرب دارفور” ریاست کا شہر فار برنگا ہوتا تھااور یہ دو سے تین ماہ کا سفر طے کرکے جون جولائی میں سالانہ مویشی منڈی میں شرکت کے لئے اپنے ریوڑوں سمیت فار برنگا پہنچ جاتے تھے۔ اس وقت اس قصبے میں لاکھوں کی تعداد میں مویشی جمع ہوتے تھے جن میں اونٹ، بڑے سینگوں والے بیل، دنبے اور گھوڑے شامل ہوتے ہیں۔

صحرائے گوبی سے جنوب کی جانب سفر میں سینکڑوں ریوڑ آگے پیچھے کچھ دنوں کے وقفے سے چل رہے ہوتے ہیں اور لاکھوں جانوروں کی یہ فوج کدھر سے بھی گزرتی ہے “مزارعین” کے اناج کی فصلیں اور پانی کے ذخائر ان کے نشانے پر ہوتی ہیں اور جہاں سے بھی یہ ریوڑ گزرتے جاتے ان علاقوں کا اناج اور پانی چٹ کرتے جاتے ۔ یہیں سے وہ نسلی جھگڑے شروع ہوئے جو اب عظیم تر دارفور کی پانچوں ریاستوں میں پھیل چکے تھے اور لڑائی سے متاثرہ علاقہ پورے پاکستان کے رقبے سے بھی بڑا تھا۔

حکومتی عملداری جب عام لوگوں کے قتل عام اور ان کے گھربار کو تاحفظ دینے میں ناکام ہوگئی تو پہلے افریقی یونین اور بعد میں اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے دارفور میں ایک امن مشن پر کثیر ملکی افواج بھیجیں جن میں بڑی تعداد میں پاکستانی فوجی بھی شامل تھے۔“الجنینہ” میں اقوام متحد ہ کے زیرانتظام “پاکستانی کیمپ” قائم تھا جس میں سینکڑوں پاکستانی علاقائی تحفظ کے کاموں میں مصروف تھے ۔

دارفور کے علاقے میں پاکستانیوں کودو وجہ سے قابل عزت سمجھا جاتا تھا۔ ایک تبلیغی جماعت کی سر گرمیوں کئی  وجہ سے اور دوسرا امن مشن میں کام کرنے والے فوجیوں کی وجہ سے جو مقامی لوگوں کی بے حد مدد کرتے تھے۔ حتی کہ امن مشن میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کو باغی گروپ بھی اپنے علاقے میں کام کرنے کی اجازت دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں دعا کررہا تھا کہ کاش ہمیں اغوا کرنے والے جنجوید بھی شائد اس گروپ سے ہوں جن کے دل میں پاکستانیوں کے لئے ہمدردی ہو مگر ہمارے ساتھ حکومتی اہلکاروں کا ہونا کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ہماری جان کو خطرہ تھا۔ دارفور میں ہمارا پہلا دن ہی سرپرائزز سے بھر پور تھا ۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply