وارث اور قاضی کی تکرار-2/کاشف حسین

جب ہیر کا باپ چوچک یہ دیکھتا ہے کہ ہیر میری مرضی سے نکاح کے لیے مان کے نہیں دے رہی تو وہ قاضی کو بلا کر لاتا ہے تاکہ ہیر پہ مذہبی دباؤ کا حربہ استعمال کیا جائے، اس ایکٹ میں وارث شاہ قاضی جو ملائیت کے ادارے ہی کا ایک اعلیٰ درجہ ہے کی اصلیت ہیر کی زبانی کھول کر دکھاتے ہیں ۔قاضی مُلا کا وہ سماجی روپ ہے جو سماج کی فرسودہ روایات کو مذہب میں لپیٹ کر اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، یہاں بھی قاضی پہلے تو ہیر کو باپ اور بھائی کے ڈراوے دیتا ہے کہ وہ تمہیں مار ڈالیں گے، جب بات نہیں بنتی تو ہیر کے اس فیصلے کو مذہب کی خلاف ورزی قرار دینے لگتا ہے، جو کہ ملائیت کا پرانا حربہ ہے۔ ہیر سوال کرتی ہے کہ جب میں رانجھے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں تو تم مجھے زبردستی کسی اور کے ساتھ کیسے بیاہ سکتے ہو کیا یہ شریعت کی خلاف ورزی نہیں ؟ تو قاضی مذہب کو اپنے منہ میں ڈال کر اسکی من مرضی تشریح لاتا اور نافذ کرنا چاہتا ہے۔
نبی ص حکم نکاح فرما دتا رب فانکحو من لے جٹیئے نی ”

وہ آیت کا حوالہ دیکر کہتا ہے کہ رب نے مرد کو اجازت دی ہے کہ انہیں جو عورتیں پسند آئیں وہ دو ، تین ، چار سے نکاح کر سکتے ہیں جواب میں ہیر بھی قرآن سے جواب لاتی ہے کہ کیا خدا ہی نہیں کہتا کہ میں نے ہر شے کا جوڑا بنایا ہے اس تکرار میں جب قاضی جبر کے علاوہ کوئی حل نہیں دیکھتا تو اپنا دھرمی ڈنڈا نکال لاتا ہے۔
درے شرع دے مار ادھیڑ دیساں کراں عمر خطاب رض دا نیاؤں ہیرے
گھت ککھاں دے وچ میں ساڑ سٹاں تینوں ویکھسی پنڈ گراؤں ہیرے

قاضی خود کو عمر رض کے منصب پہ لا کے ہیر کو اس گناہ کی سزا دینا چاہتا ہے جو اسکا خودساختہ ہے بناء مرضی کے شادی اسلام میں بھی جائز نہیں لیکن قاضی کا اپنا اسلام ہے وہ یہ جان کر بھی کہ اسلام میں کسی کی جان بناء کسی جانی نقصان کے لینا جائز نہیں ہیر کو باپ بھائی کی جانب سے قتل تک کے ڈراوے دیتے  ہوئے نہیں ہچکچاتا۔
“قاضی محکمے وچ ارشاد کیتا من شرع دا حکم جے جیوناں ایں
بعد موت دے نال ایمان ہیرے داخل وچ بہشت دے تھیوناں ایں ”

اب ہیر قاضی کو کھری کھری سناتی ہے اور کہتی ہے کہ تم وہ لوگ ہو، جو رشوت کھا کر ایمان بیچ دیتے ہو تمہیں پورے شہر کی فکر رہتی ہے تم دو دل نہیں ملنے دیتے اور قاتلوں کو چھوڑ دینا تمہاری روایت ہے۔

اس مکالمے میں جو چیز بین السطور دیکھنے کی ہے وہ طبقہءاشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہے ہیر کا باپ چوچک طبقہء اعلیٰ کا فرد ہے اور قاضی بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے دونوں سڑی ہوئی سماجی روایات کو قائم رکھنے میں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ہیر کا باپ عام آدمی کی طرح مقدمہ قاضی کے پاس نہیں لے کر جاتا بلکہ قاضی کے عہدے کی طاقت کو استعمال کرنے کے لئے اسے گھر بلا کر ہیر کو دھمکاتا ہے جو اسے باپ بھائیوں کیجانب سے قتل ، بناء مرضی کے شادی کو دین کے احکامات میں لپیٹ کر پیش کرنے جیسے غیرشرعی اعمال پہ اپنی طاقت اور عہدے کے غیرقانونی استعمال کے ڈراوے دیتا ہے۔

قاضی کا یہ روپ وارث شاہ تین جگہ دکھاتے ہیں ابتداء میں جب اسکی زمین قاضی رشوت لیکر بھائیوں کو منتقل کرتا ہے دوسری تکرار ہیر کے ساتھ اور آخر میں جب قاضی کھیڑا برادری سے رشوت لیکر ہیر انہیں سونپتا ہے تینوں جگہ اس ادارے کو ویسا ہی کرپٹ اور طبقہء اعلیٰ کا اتحادی دکھایا گیا ہے جیسا کہ وہ آج بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply