موسمیاتی تبد یلی/فارینہ الماس

ایک طویل عرصے کے دوران کسی خطے میں آب و ہوا اور موسموں کے اوسط حالات کی تبدیلی کو موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔یہ تبدیلی خصوصاً بیسویں صدی کے وسط سے اس کے اختتام تک ظاہر ہونا شروع ہوئی۔اس کی بنیادی وجہ حیاتیاتی ایندھن سے فضا میں شامل ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بنی، جس سے درجہءحرارت اور موسموں میں ایک طویل مدتی تبدیلی رونما ہوئی۔یہ تبدیلی قدرتی بھی ہے اور انسان کی خود کی پیدا کردہ بھی۔

1800کی دہائی سے انسانی سرگرمیاں آب و ہوا کی تبدیلی کی بنیادی محرک رہی ہیں۔کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل ایندھن کو جلانے سے گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہُواہے اور انسانی صحت کو بھی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔امریکی تحقیقاتی ادارے ناسا کے مطابق زمین کی آب و ہَوا ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔اس زمین پر ایسا وقت بھی آیا جب اس کی آب و ہَوا آج کی نسبت زیادہ گرم رہی ۔پھر ایسا وقت آیا کہ یہ زمین ٹھنڈی ہونے لگی۔یہ صورتحال ہزاروں یا لاکھوں سالوں تک رہی ، ریاست ہائے امریکہ بیس ہزار سال پہلے گلیشئیرز سے ہی ڈھکا ہوا تھا۔جوں جوں زمین گرم ہونے لگی یہاں گلیشئیرز نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئے۔ اب زمین مسلسل گرم ہورہی ہے۔ پچھلے سو سالوں میں زمین کا درجہ حرارت تقریباً ایک ڈگری فارن ہائیٹ بڑھ گیا ہے۔گو کہ یہ فرق بہت زیادہ دکھائی نہیں دیتا لیکن زمین کے درجہ حرارت میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی بڑے اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات یہ ہیں کہ گرمی کی لہر کا دورانیہ اور شدت بڑھنے لگی ہے۔مون سون کی بارشیں بے وقتی اور طویل ہو تی جارہی ہیں۔گلیشئیرز پگھلنے لگے ہیں ۔اس سے ساحلی آبادیوں کو اور ماحولیاتی نظام کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔خشک سالی اور سیلاب بڑھ رہے ہیں۔یہ وہ اثرات ہیں جن کی سائنسدانوں نے طویل عرصہ پہلے پیشن گوئی کردی تھی ۔زمین کے خطے قطب شمالی میں سو سالوں میں تقریباً پانچ ڈگری درجہءحرارت کا اضافہ ہُوا ہے ۔

حالیہ اعدادو شمار کے مطابق خدشہ ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں شاید وہاں سمندری برف کا کوئی بھی احاطہ برقرار نہ رہے۔انٹارکٹکا  یعنی قطب جنوبی، دنیا پر برف کا سب سے بڑا مآخذ ہے۔یہ برف دنیا کی آب و ہَوا کو متاثر کرتی ہے۔ سورج کی توانائی کو واپس منعکس کرنے اور عالمی درجہءحرارت کو کنٹرول کرنے میں اس کا انتہائی اہم کردار ہے ۔لیکن اب اس کے کچھ حصے زمین پر سب سے زیادہ تیزی سے گرم ہونے والے مقامات بنتے جا رہے ہیں۔یہاں برف کا تیزی سے پگھلنا نا  صرف دنیا کے درجہءحرارت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر سطح سمندر کی بلندی کا باعث بھی بن رہا ہے ۔موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے جنگلات میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ایمیزون کے جنگلات جہاں حیاتیاتی تنوع دنیا میں سب سے آگے ہے یہاں درجہءحرارت میں اضافے کے باعث درختوں کی لکیریں گھٹتی اور پیچھے ہٹتی جا رہی ہیں۔ یورپ اور کئی جدید ترقی یافتہ ممالک بھی موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا بری طرح شکار ہیں۔

2021میں ہی یورپ کو مہلک سیلابوں کا سامنا رہا۔یہاں سردیوں کا انتہائی درجہءحرارت ،ریاست ہائے متحدہ میں آنے والے سمندری طوفان اور چین میں ریکارڈ توڑ سیلاب موسمیاتی تبدیلی کا باعث ہیں۔جرمنی اور جاپان جیسے ممالک بھی ان تبدیلیوں کا شکار رہتے ہیں ۔ زیادہ آمدنی اور معاشی طور پر یہ مضبوط ممالک تو موسمیاتی تبدیلی کے اِن ناگزیر اثرات سے بآسانی نمٹنے کی استطاعت اور ہمت رکھتے ہیں ۔کم آمدنی والے وہ ممالک جہاں زندگی کے سیاسی،معاشی و تمدنی مسائل کے ساتھ ساتھ سرحدی و بیرونی مسائل بھی عروج پر ہیں وہ ان سے نمٹنے کی نہ  تو ہمت رکھتے ہیں اور نہ  ہی وسائل۔ایسے ممالک کی فہرست میں افغانستان،بنگلہ دیش، چاڈ،ہیٹی،کینیا،ملاوی،نائیجر،پاکستان،صومالیہ،سوڈان وغیرہ سرفہرست ہیں ۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات
صنعتی انقلاب کے بعد سے،مشین کی ترقی نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وافر مقدار کو فضا میں گھول دیا ہے۔جس نے ایک غیر فطری حدت کو جنم دیا ہے۔زمین کے خطے قطب شمالی میں سو سالوں میں تقریبا پانچ ڈگری درجہءحرارت کا اضافہ ہوا ہے۔۱۸۰۰ سے دنیا کا درجہءحرارت 13ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ کر 14.4ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوگیا ہے۔ گرمی کی یہ شرح پچھلے 21000سالوں میں ہونے والی گرمی کی شرح سے 50 گنا زیادہ ہے۔ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ 2100تک دنیا کے آبی علاقوں سے میتھین کا اخراج 50سے 80فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

صنعتوں اور کارخانوں میں ایندھن کو جلاکر لوہا،سٹیل،الیکٹرانکس پلاسٹک ،کپڑا، سیمنٹ اور دیگر سامان بنانے کے لئے توانائی استعمال ہوتی ہے ایندھن کو جلایا جاتا ہے ۔کاریں، بحری جہاز، ہوائی جہاز یہ سب ذرائع آمدورفت بھی گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے بڑا مآخذ ہیں۔

ترقی کا یہ سامان بنانے والے ممالک کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں اور صنعتوں کی جنت میں ہوتا ہے ۔یہاں بڑے بڑے شاپنگ مال اور صنعتی پارک ہیں، جو آئے روز موبائل ،ٹی وی گاڑیوں کے برینڈز بدل بدل کر دنیا کو دکھاتے اور ایک بڑی مارکیٹ کو جنم دیتے ہیں ان کے پاس اتنا سرمایہ آجاتا ہے کہ وہ اپنے معاشروں کو اس ترقی کے زہریلے اثرات سے بچا سکیں لیکن وہ ترقی پذیر ملکوں کو نا صرف اپنی مضبوط منڈی بنا تے ہیں بلکہ اپنی ترقی کے زہریلے صنعتی اثرات کے ذریعے ان ملکوں میں موت تقسیم کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

صنعتوں سے خارج گرین ہاؤس گیسیں زمین کے درجہءحرارت میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ سالانہ چالیس ارب ٹن گرین ہاؤس گیسیں فضا میں انہی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شامل ہو رہی ہیں جو کہ سورج کی گرمی کو خلا میں واپس جانے سے روکتی ہیں اور گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہیں۔بہت سی گرین ہاؤس گیسیں قدرتی طور پر پیدا ہورہی ہیں لیکن انسانی سرگرمیاں بھی ان کے ارتکاز کا باعث ہیں۔ جو گیسیں انسانی سرگرمیوں سے ارتکاز پا رہی ہیں ان میں نیوٹرس آکسائیڈ،کاربن ڈائی آکسائیڈ میتھین اور فلورینیٹڈ گیسیں ہیں۔کوئلہ تیل اور قدرتی گیس جیسے ایندھن کو جلا کر حرارت پیدا کی جاتی ہے جو بجلی پیدا کرنے کے بھی کام آتی ہے صرف ایک چوتھائی بجلی ہوا اور شمسی توا نائی سے پیدا ہورہی ہے۔

جنگلات کو کاٹ کر کھیتوں یا چراگاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان کی لکڑی سے بہت سی تعمیراتی ودیگر ضروریات بھی پوری ہورہی ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ درخت قدرت کا وہ تحفہ ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں۔انسان کے ایسے اقدامات فطرت کو تباہ کرنے کے مترادف ہیں۔

زمین کے مدار اور گردش کے محور میں تبدیلیوں کا بھی ماضی میں آب و ہوا پر بڑا گہرا اثر رہا ہے۔مثال کے طور پر شمالی نصف کرہ میں موسم گرما میں سورج کی روشنی کی مقدار جو سیارے کے مدار میں ہونے والی تبدیلیوں سے اثر انداز ہوتی ہے ماضی کے برفانی دور کی وجہ معلوم ہوتی ہے جس میں زمین نے طویل عرصے تک سرد درجہءحرات کا تجربہ کیا۔سورج کی توانائی کی پیداوار میں تبدیلی بھی سورج کی روشنی کی شدت کو متاثر کر سکتی ہے۔وہ روشنی جو زمین کی سطح تک پہنچتی ہے جب کہ یہ تبدیلیاں زمین کی آب و ہوا کو متاثر کرتی ہیں۔

پاکستان اور سیلابی تباہ کاریاں 
2018 میں جنوبی کوریا میں دنیا بھر کے بہترین ماہرین موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا”1850کی دہائی کے بعد سے عالمی درجہءحرارت پہلے ہی ایک درجہ سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے ۔اگر یہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے تجاوز کر گیا تو بہت سے ذیلی سطح والے ممالک زیر آب آجائیں گے۔اور یہ حد ممکنہ طور پر ۔2040میں پار کر جائے گی“

عالمی سائنسدان ماضی میں اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں دوبڑے موسمی نظام کارگر ہیں۔یہ نظام زیادہ درجہءحرارت اور خشک سالی کا باعث بن سکتے ہیںں۔اور مون سون بارشوں کا نظام سنگینی اختیار کرتے ہوئے پاکستان میں شدید قسم کے سیلاب کا باعث ہو سکتا ہے۔

2010کے سیلاب کے بعد ہی یہ طے تھا کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تباہ کن سیلاب آنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس جرمن واچ کی 2019 کی رپورٹ میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا۔

جرمن واچ کے مطابق فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان ذیادہ اور مستقل طور پر متاثرہ ملک ہے۔گزشتہ10 سالو ں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہو چکی ہیں اور حالیہ سیلاب 2022 ان آفات میں ایک بہت بڑا اضافہ ثابت ہوا۔جس سے انسانی بستیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ایک اندازے کے مطابق حالیہ نقصان تقریباً دس ارب امریکی ڈالر کے قریب ہے۔تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ 380بچے اور 1191افراد ہلاک ہوئے۔1700سے زائد زخمی ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ 2017کے بعد سے دنیا کا یہ سب سے مہلک سیلاب تھا۔

موسمی تبدیلی کے برے اثرات کا سب سے بڑا شکار پاکستان ہے۔یہاں موسم کی خلاف توقع تبدیلیاں انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں ۔موسم بہار میں گرمی اپنی انتہا کو پہنچنے لگی ہے اور مارچ میں جان لیوا ہیٹ ویو تباہی مچانا شروع کر دیتی ہے ۔مون سون کی بارشیں بھی معمول سے زیادہ ہونے لگی ہیں۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے موسموں سے موافقت اختیار نہ کی گئی تو پاکستان غذائی قلت کا شدید ترین شکار ہو جائے گا۔یہاں پانی کا بحران بھی خطرناک صوت حال اختیار کر جائے گا۔

ان سبھی خدشات کے باوجود افسوس کی بات یہ تھی کہ پاکستان کی حکومتوں نے اس معاملے میں انتہائی مجرمانہ غفلت اختیار کئے رکھی۔ڈیموں کی تعمیر پر توجہ نہ دی گئی۔آبی گزرگاہوں اور ذخائر کی صفائی جیسے اقدامات کو نظر انداز کیا گیا۔بند مضبوط کئے گئے اور نہ ہی تحقیقی مراکز کا قیام ممکن بنایا گیا۔لوگوں کو موسمی تبدیلیوں کی صورتحال سے آگاہ نہ کیا گیا اور نہ ہی فضائی آلودگی کی طرف توجہ دی گئی۔یہاں عوام بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کو اپنی ہی بد فعلیوں اور گناہوں کا نتیجہ اور قدرت کا انتقام قرار دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

اس کے باوجود کہ عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے جس کی وجہ یہاں صنعتوں میں انتہائی کمی ہے۔ لیکن بڑی خاموشی سے ہم اس عالمی اخراج یعنی عالمی دہشت گردی کے وار سہتے اور گلہ بھی نہیں کرتے۔ ہم ہر تین سال بعد موسم کی گرم شدت کو اس درجے پر محسوس کرنے اور جھیلنے پر مجبور ہیں جو شدت موسمیاتی تبدیلی کے بغیر شاید تین سو بارہ سالوں میں صرف ایک بار آ پاتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
دنیا کو اس کی غفلت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی بہت سے ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے جو اب خود ہماری بقا کے لئے ضروری ہیں۔یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں عالمی سطح پر تائید کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

توانائی کے زرائع بدلنے کی ضرورت ہے لیڈ لائٹ بلب اور توانائی کی بچت والے برقی آلات استعمال کئے جائیں۔کوئلہ،تیل اور قدرتی گیس جیسے ایندھن کو جلا کر بجلی پیدا کرنے سے کہیں زیادہ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی جائے۔ایندھن کو گاڑیوں اور دیگر زرائع آمدورفت میں زیادہ سے زیادہ جلانے سے صحت کے بھی سنگین مسائل جنم لیتے ہیں ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ مختصر فاصلوں کے لئے پیدل چلا جائے یا سائیکل کے استعمال کا رواج عام کیا جائے اور دور کے فاصلے ٹرینوں میں طے کئے جائیں ۔سبزیاں پھل اور میوہ جات کو غذا کا حصہ بنایا جائے ۔گوشت اور ڈیری کی مصنوعات کم کی جائیں تو ہمارے ماحولیاتی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے گا۔سمندروں اور جنگلات کی حفاظت کی جائے۔پانی کے ضیاع کو روکا جائے۔نئی نئی چیزیں خریدنے کی بجائے پرانی چیزوں کو مرمت سے کارآمد بنایا جائے ۔پلاسٹک کم سے کم استعمال کیا جائے۔چیزوں کی ری سائیکلنگ کو عام کیا جائے۔الیکٹرانکس اور کپڑے کو بھی ضرورت کے تحت محدود رکھا جائے۔یہ اور ایسے بہت سے اقدامات کا علم اور شعور لوگوں کو دیا جائے۔ تاکہ موحولیاتی و موسمی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply