انسانی حقوق کا عالمی دن۔۔عمران حیدر

آج 10 دسمبر 2017
پوری دنیا سمیت پاکستان بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جائے گا-اقوام متحدہ کے رکن ممالک 1950سے ہر سال 10دسمبر کو انسانی حقوق کاعالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔
4 دسمبر 1950کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 317واں اجلاس ہوا جس میں قرارداد 423(V) پیش کی گئی اور بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے  بل پیش کیا گیا جسے سو فیصد اکثریت سے پاس کردیا گیا
1993 میں آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں باقاعدہ طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام آف ایکشن تیار کیا گیا جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ، کانفرنس میں 171 ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی۔ جنہیں پابند کیا گیا کہ وہ اپنے ممالک میں ہر طرح کے انسانی حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور عوام تک رسائی یقینی بنائیں گے–
مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا پوری دنیا میں ہر طرف انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پسماندہ ۔ امریکہ ہو صومالیہ کینیڈا ہو یا یوگنڈا ہر طرف سنگین ترین صورتحال ہے اربوں کی آبادی والی اس دنیا میں میں چند ہزار لوگ باقی 99 فیصد انسانوں کے حقوق دبا کر بیٹھے ہیں جن کے خلاف مختلف جگہوں میں بھرپور مزاحمت بھی ہوتی رہی ہے
روسو ، والٹیر اور اس دور کے دیگر مصنفین کی ہی تصانیف اور خیالات کا ہی نتیجہ تھا کہ فرانس کے پسے ہوئے طبقے ظلم ، جبر اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انقلاب فرانس برپا ہوا
مگر آج پھر وہاں بھی وہی صورتحال ہے جن لوگوں نے اپنے حقوق چھینے تھے اب وہ دوسروں کو ان  کا حق دینے سے انکاری ہیں
چی گویرا ہو یا بھگت سنگھ نیلسن منڈیلا ہو یا فیڈل کاسترو ولادی میر لینن ہو یا مارٹن لوتھر مختلف ممالک میں آزادی اور حقوق کی جنگیں لڑی گئیں اور بھرپور جدوجہد کی گئی جن میں وقتی کامیابی تو ہوئی مگر بعد میں وہی صورتحال رہی جس  کا اوپر ذکر کیا گیا ہے-

دوسری طرف انسانی حقوق کے حوالے سے جب پاکستان کو دیکھا جائے تو حیرت انگیز طور پر دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں- سال 2000 سے اب تک صرف بلوچستان بھر سے 20 سے 25 ہزار افراد لاپتہ ہیں جن میں طالب علم، سیاسی ورکر، وکلا، شاعر، ادیب، صحافی بلاگرز اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں،
آج ملک بھر میں این جی اوز کے علاوہ وفاقی وزارت انسانی حقوق بھی ملک بھر میں تقاریب اور سیمینارز کا اہتمام کرے گی جن  کی اپنی سالانہ رپورٹ ہی ہر سال گزشتہ سال کے مقابلے میں خطرناک حد تک تشویش ناک ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں 05 دسمبر2017 وزارت انسانی حقوق کی ناکام پالیسیوں کے باعث اٹلی نے یورپی یونین سے پاکستان سے جی ، ایس ، پی ، پلس معطل کرنے کی سفارش کردی اٹلی کے سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان جی، ایس ،پی پلس کے تحت معاہدے کی بچوں ، خواتین اور اقلیتوں پر ہونے والے پرتشدد کاروائیوں کو رکوانے اور ان کو قانونی تحفظ دلوانے میں ناکام رہا ہے لہذا پاکستان جی ، ایس ، پی پلس کے معاہدے کی تجدید روک دی جائے
مسنگ پرسنز کے حوالے سے پوری دنیا میں پاکستانی کی بدنامی ہورہی ہے مگر پھر بھی آئے روز اس طرح کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں اس کے علاوہ ملک بھر میں نجی اور سرکاری جیلوں میں ایک اندازے کے مطابق تیس سے چالیس لاکھ بے گناہ افراد قید و بند کی صوبعتیں برداشت کررہے ہیں-

پچھلے دس سالوں میں پاکستان میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اس کی نظیر پاکستان کی پوری تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ بنیادی انسانی سے محروم سب سے بڑا طبقہ خواتین کا ہے جن کی بڑی تعداد پاکستان انڈیا بنگلہ دیش سمیت زیادہ تر اسلامی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کا صوبہ سندھ ہو یا پختون خواہ پنجاب ہو یا بلوچستان ہر جگہ عورت استحصال کا شکار ہے اور اسے دبا کر رکھا جاتا ہے
حلانکہ اسلام میں حقوق العباد کو صف اول میں رکھا گیا ہے یعنی ہر شخص کو کسی دوسرے کی مدد (بلا تفریق) کرنے کا حکم دیا گیا ہے حضورۖ نے سب سے پہلے حقوق العباد پر زور دیا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ” بے شک اللہ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے”۔ عورتوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام سمیت تمام مذاہب کے احکامات بہت واضع ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں  کیا جاتا-ہمارے بھی ہاں اسلامی احکامات کو بھی بلائے طاق رکھتے ہوئے عورت کو شرعی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رکن ممالک کو مدعو کیا کہ وہ آٹھ مارچ کو اقوام متحدہ کا یومِ حقوق نسواں اور عالمی امن کے طور پر منائیں۔ مگر یہ دن بھی صرف پوش علاقوں کی پڑھی لکھی اور خودمختار عورتیں ہی مناتی ہیں۔پاکستان میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی سرزش کے بعد پنجاب اسمبلی سے حقوق نسواں بل منظور کرلیا گیا جس کے سیاسی مقاصد تھے اور خواتین کو اس کا  ذرا بھی فائدہ نہیں ہوا اور نہ  ہی اس قانون پر عملدرآمد کیا گیا۔

حالیہ چند سالوں میں پوری دنیا میں سیاہ فام اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیمیں بے حد فعال ہوچکی ہیں مگر پاکستان میں اس کے بالکل الٹ ہورہا یہاں حالیہ چند سالوں میں حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بلاگرز اور صحافی حضرات کا اغواہ اور ماورائے عدالت قتل بچوں اور خواتین سے زیادتی کے ہر روز تقریبا 20 سے 25 واقعات ہورہے ہیں مزدور اور کسان طبقہ معاشی بدحالی کا شکار ہے بنیادی انسانی حقوق تو کجا یہاں تو بنیادی ضروریات ہی نہیں  مل رہیں ۔ صاف پانی اور روزگار انصاف اور مساوی انسانی حقوق تو دور یہاں تو نئی روایت چل پڑی ہے کہ دن دیہاڑے لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے ۔ کچھ دن بعد مارپیٹ کے بعد چھوڑ دیتے ہیں یا اس کی لاش کسی گلی کی نکڑ سے ملتی ہے۔
آج انسانی حقوق کا دن ہے آج انسان انسانوں سے انسانی حقوق کا مطالبہ کریں گے جن میں سرکاری نیم سرکاری اور ملکی و غیر ملکی این جی اوز حصہ لیں گی-

مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں  آئی کہ یہ سب حقوق مانگ کس سے رہے ہیں؟
بہرحال آج کے دن ہمارا بھی چھوٹا سا مطالبہ ہے کہ برائے مہربانی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ علی سجاد شاہ (ابوعلیحہ ) کو بھی جلد از جلد  بازیاب کروایا جائے۔
دعا کرتے ہیں وہ جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں اور جلد از جلد اپنی فیملی اور ہمارے درمیان آجائیں –

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply