• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • والدین کی شادی کے وقت کی جانے والی ایک غلط نصیحت۔فاطمۃ الزاہرہ

والدین کی شادی کے وقت کی جانے والی ایک غلط نصیحت۔فاطمۃ الزاہرہ

 “میرا خیال ہے اسرائیل اور امریکہ کی گیم کے حوالے سے میں ابھی کچھ نہیں کر سکتی تواپنی قیمتی جوانی اور اپنا قیمتی وقت بھی ضائع نہیں کروں گی۔ ہاں درد ہے بہت ہے مگر سٹیفن کوئی  والے circle of influence کو یاد کریں تو یہ ہی کام بنتا ہے کہ جو دماغ میں چل رہا ہے اسے لکھا جائے”

وہ بجلی کا کڑکا تھا  یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
اسلام واقعی ایک زلزلے کی طرح زندگی کو ہلا کر  رکھ دیتا ہے ۔ زندگی کے ہر ہر معاملے میں رہنمائی  دیتا ہے اور یہ ایک پوری عمر تک کا سفر بن جاتا ہے۔زلزلے کی تشبیہ اسلام کے لیے اس لیے کیونکہ مجھے اس کو دیکھ کہ ہمیشہ زلزلہ  ہی ذہن میں  آتا ہے۔ جس طرح زلزلے کے بعد زمین کی پلیٹس (earth plates) دوبارہ سے ارینج ہوتی ہیں اسی طرح اسلام کے زلزلے کے بعد ایک نئی  تشکیل ہوتی ہے  جس کی مثال ہمیں مدینہ میں نظر آئی ۔آج میرا عنوان عبادت ہے، حقوق العباد ہے۔۔۔(بالخصوص سسرالیوں کی اور ان چند غلط ہدایات کی جو والدین بیٹیوں کو دیتے ہیں)

صحابہ اکرام عرب کے جن رواج کے مطابق ایک دوسرے سے قبائل کی بنیاد پہ ڈیل کرتے تھے، اسلام نے انما المومنون اخوہ کی بات کر کے سب کچھ ختم کر دیا۔کالے گورے  رنگ کو ہٹا کہ تقوی کی بات کی،مساوات کے ایک لفظ نے سب کچھ پہلے ایک زلزلے کی مانند جھٹکا دیا ،پھر ایک ہی صف میں کھڑے ہو گۓ محمود و ایاز نے دنیا کو حیران کر دیا۔اسی طرح جو ایک اور بہت دلچسپ چیز ہوئی  وہ یہ کہ تمام رشتوں سے محبت کی بنیاد ‘اللہ’ بن گیا۔ماں باپ ہوں یا اولاد ہو، یا کوئی  جگری یار ہو، ان سے محبت کا یہ درس ملا تھا کہ ‘سب سے محبت اللہ کے لیے’۔اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کے درمیان وفا محبت ایک بار REDEFINE ہوئی!یعنی محبت اللہ کے لیے ہو تو انسان خود درمیان میں سے نکل جاتا ہے۔یعنی، ماں باپ نے حق تلفی بھی کی ہو گی تو تعلق اللہ کے لیے فرض ہے اس کا خیال رکھنا سو وہ رکھنا ہے۔بہن بھائی  دوسرے رشتے داروں سے دل دکھ بھی جاۓ تو رشتے نہیں کاٹنے۔رشتے تب کاٹنے کی نوبت آتی ہے جب ہماری زندگیوں میں اسلام کا زلزلہ ایک بار آیا نہ ہو (تمام تعلقات اللہ کے لیے نہ رکھے ہوں) اور ہم اپنے معاشرے کے رواج کے مطابق ‘محبتیں’ کر رہے ہوں ، ‘تعلقات’ بنا کر  بیٹھے ہوں اور پھر ‘تکلیف ‘اٹھا ئیں !

اب آتی ہے بات سسرالیوں کی اور ان گھر والوں اور رشتہ داروں کی جو سسرالیوں سے بھی مشکل ہیں۔لڑکیوں کو شادی کے وقت جو بری نصیحتیں کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے”بیٹا ہر ایک کو خوش رکھنا ہے”۔۔
اس سے بری نصیحت کوئی  نہیں ہو سکتی۔یہ نصیحت ہر اچھے انسان کو بھی کی جاتی ہے کہ بیٹا سب کو خوش رکھنا /اچھا انسان وہ ہے جس سے سب خوش رہیں۔بھئ ہر ایک کو تو جو خوش رکھے گا وہ تو پاگل ہو جاۓ گا،جو نصیحت ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ
“بیٹا اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کرنا، سسرالی ہو سکتا ہے خوش ہوں ہو سکتا ہے نہ ہوں، مگر اللہ کے لیے تعلق رکھنا اور بس سیکھتی رہنا کہ تعلقات کیسے بناتے ہیں کیونکہ تمھاری سولہ سال کی ڈگری میں اس کے بارے میں کچھ نہیں تھا”۔

اور بیٹا! اسلام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کا غلام بناتا ہے۔ بس صادق اور امین کے اخلاق کو یاد رکھنا اور احسان سے کام لینا کبھی اس پہ پریشان نہ ہونا کہ ساس “خوش” کیوں نہیں ہو رہیں۔پاس ِ معاشرے میں عورتیں عموماً اس عمر میں ویسے ہی ذہنی مریض  بن جاتی ہیں ان کی عمر کا احترام کرنا مگر اپنے آپ کو پریشان مت کرنا کیونکہ بچے پیدا کرنا اور پالنا ایک اور ایسا پریشان کن کام ہے جس  کا تمھیں اب تک کوئی اندازہ  نہیں، کیونکہ ‘تم تو پڑھ رہی تھیں ‘سو ضرورت سے زیادہ پریشان مت ہونا اور اللہ سے تعلق رکھنا۔ وہ ہی انسانوں کی زیادتیوں پہ مرہم رکھنے والا ہے۔’

پہلا ظلم ہم نے اپنی ماؤں،بیٹیوں کے ساتھ یہ کیا کہ انہیں تعلقات نبھانا’ نہیں سکھاۓ۔دوسرا ظلم’ بیٹی سے کہا چلو اب سب کو خوش رکھنا۔انہیں اس طرح کے اشعار جہیز کے ساتھ دیے
بیٹا!
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے!
شعر  کو  اس تناظر میں غلط سمجھ کر ،پھر بہو کو گل و گلزار تو نہیں ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیتا ہے۔
دکھ کی بات پتہ ہے کیا ہے؟۔اچھی بیٹیاں سب سے زیادہ پِستی ہیں!

ایک اسی سالہ مثالی ‘اچھی بیٹی’ سے میری دوستی تھی۔ اب ان کی وفات ہو چکی ہے۔اللہ غریقِ رحمت کرے۔ اکثر مجھ سے کہتی یہ سناؤ۔۔

“مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی
دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن
آہیں دا بالن بال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی”
آنکھیں بند کر کے سنتی رہتی کبھی ان کو شکوہ کرتے نہ سنا!

Advertisements
julia rana solicitors

مگر یہ انویسٹمنٹ ہے، مسلمان گھرانوں میں”تم مجھے اچھی مائیں دو، میں اچھی قومیں دوں گا”(نپولین بونا پارٹ)کی؟
ہم جب ملک یا دنیا کے حالات پہ تبصرہ کرتے ہیں ساتھ یہ بھی سوچا کریں کہ معاشرہ جس عورت کی گود  میں پلتا ہے، اس کی کیا حالت ہے۔ ایک طرف اس کو پیسا جا رہا ہے دوسری طرف فیمینزم اس کو اور ہی سبز باغ دکھا رہا ہے۔سو دنیا میں سب کچھ غلط ایسے ہی نہیں ہورہا ،پیچھے بہت بڑی بڑی غلطیاں ہیں۔ کیونکہ قدرت کے اصول کبھی نہیں بدلتے!
سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا
ولا تجد لسنتا تحویلا
(سورہ السراء)

Save

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply