ایک عام پاکستانی کیا چاہتا ہے؟۔۔محمد عدنان

14 اگست 1947 سے آج تک ایک عام پاکستانی بنیادی حقوق جیسے پینے کا صاف پانی, سر چھپانے کے لئے چھت,دو وقت کی روٹی,بنیادی صحت اور تعلیم کی سہولیات کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد کا اہم مقصد مسلمانوں کے لیے ایک ایسے ملک کا قیام تھا جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق عزت اور خوشحالی کی زندگی گزارسکیں۔ قائداعظم کی وفات کے بعد بدقسمتی سے ملک کو کوئی ایماندار اور نڈر لیڈر نصیب نہیں ہوا۔ کسی نے سویلین بالادستی کے نام پر عوام کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھائے تو کسی نے آمریت کو ملک کے مسائل کا واحد حل قرار دیا۔ حکمرانوں کے پیسے جہاں ڈالرز میں اور مکان محلات میں تبدیل ہونے لگے, وہاں بہتری نہیں آئی تو ایک عام پاکستانی کی زندگی میں۔

ایک عام پاکستانی سے ہر 5 سال بعد حکمران وعدے تو کرلیتےہیں لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش آج ہر میدان میں ہم سے آگے جاچکا ہےلیکن ہم آج تک اپنے دوست اور دشمن کا تعین بھی نہیں کرسکے۔

ایک عام پاکستانی کو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ اسکا حکمران کون ہے۔ اسے تو بس 2 وقت کی روٹی چاہیے۔ وہ تو بس اچھے تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے. اسے تو حلال روزگار چاہیئےجس سے وہ بجلی اور گیس ک بل ادا کرسکیں۔

سیاستدانوں کی اس فہرست میں ایک نام عمران خان کا بھی آتا ہے۔ جی ہاں وہ عمران خان جس نے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر ہرعام پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیا۔ چار سال بعد, 25 اپریل 1996 کو پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور سیاست کےمیدان میں ایک عام پاکستانی کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔ 23 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 18 اگست 2018 کو “نیا پاکستان” کے ویژن پر حکومت کی بنیاد رکھی۔ ساڑھےتین سال کے عرصے میں جہاں حکومت کو وراثت میں ڈوبتی معیشت ملی,وہاں کورونا نے بھی عمران حکومت کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ ناتجربہ کار حکومت, ساتھیوں کی بےوفائی اور اتحادیوں پرحد سے زیادہ انحصار, آج حکومت کی کارگردگی سے عام پاکستانی کچھ خوش نظر نہیں آرہا ہے۔

لیکن عام پاکستانی کے لیے کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے کو چور, ڈاکو, کرپٹ اور ملک دشمن بولنے والے ایک بار پھر اکھٹے ہوکر سڑکوں پر نکل آۓہیں۔ وعدوں کی داستان ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے اور عام الیکشن کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پھر وہی الیکشن, پھر وہی وعدے, پھر جمہوریت اور بہتری کے نام پر عام پاکستانی کو سڑکوں پہ  نکالا جا رہا ہے۔ پھر سیاسی وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں. پھر خریدوفروخت کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ ان سب حالات میں ایک عام پاکستانی بےبسی کی ایک تصویر بن چکا ہےجس کو کہیں سے بھی روشنی کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔

لیکن ان سب مناظر میں ریاست کا ایک اہم ستون کہاں کھڑا ہے? جی بلکل-میڈیا کی بات ہورہی ہے وہی میڈیا جسکا مقصد حقائق کی درست منظر کشی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سےاس ریاست میں صحافی میڈیا ہاؤسز کے پالیسیز اور ذاتی پسند اور نہ پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تو میڈیا ہاؤسز کے پولیٹیکل پارٹیز سے براہراست تعلقات کی خبریں کوئی نئی بات نہیں۔ اس لیے عام پاکستانی یہاں بھی بےبس نظر آتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان سب حالات کے باوجود پاکستانی میڈیا میں آج بھی صحافت کو عبادت سمجھنے والے لوگ اور ادارے موجود ہیں۔

ایک عام پاکستانی کی غلطی یہ ہے کہ وہ ماضی کو بہت جلدی بھول جاتا ہےاور پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں سے دوبارہ امید رکھ لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت سے پہلے الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں  ؟کیا تحریک انصاف کی حکومت اس مرحلے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ؟ ایکسٹرنل پاورز کس کا ساتھ دیتے ہیں؟⸮ جہانگیر گروپ کا کردار کیا رہتا ہے؟  ان سب سوالوں کے جواب اہم سہی لیکن ایک عام پاکستانی کیا چاہتا ہے ؟ اس سوال سے کسی کوکوئی سروکار نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply