غیر ریاستی عناصر:

مولانا مودودی رح نے بہت عرصہ پہلے ایک سوال کے جواب میں غیر ریاستی عناصر کی اپنے طور پر مسلح جدوجہد کو ناپسند فرمایا تھا اور ریاست کو ہی ایسی جدوجہد کا مکلف ٹھہرایا تھا۔ جہاد افغانستان میں کامیابی کے بعد ہماری اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد آسمان سے باتیں کرنے لگا اور افغانستان میں غیر ریاستی عناصر کے استعمال کے ذریعے ایک سپر پاور کو شکست دینے کا نشہ ہمارے دماغوں پر پوری طرح حاوی ہو گیا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ بات نظر انداز کر بیٹھی کہ افغانستان میں یہ معجزہ تقریباً آدھی دنیا کے وسائل اور افرادی قوت کی مدد سے ممکن ہو پایا تھا۔ ہمارے مقتدر حلقوں نے کشمیر کو غیر ریاستی عناصر کے استعمال کے ذریعے بھارت سے واپس لینے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ پالیسی اگر انڈیا کی مشرقی پاکستان کی پالیسی کا چربہ رہتی تو پھر بھی اسکا اخلاقی جواز موجود تھا لیکن جب اسمیں ریاست کشمیر کے شہریوں کے علاوہ دیگر عناصر کو شامل کیا گیا تو خرابی وہاں پیدا ہوئی، پھر آگے چل کر 9/11 کے واقعہ نے ویسے ہی دنیا کو بدل کر رکھ دیا اور دنیا میں غیر ریاستی عناصر کا استعمال جرم عظیم قرار پایا۔
حافظ سعید صاحب کی قیادت میں پہلے لشکر طیبہ اور 9/11 کے بعد جماعت الدعوة کے پلیٹ فارم سے اہل حدیث مکتبہ فکر نے جہاد کشمیر کے حوالے سے بلا شبہ ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی کو آگے بڑھانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، یہی کام مولانا مسعود اظہر کے ذریعے دیوبند مکتبہ فکر کے جہادی عناصر کے ذریعے لیا گیا جبکہ جماعت اسلامی نے مقبوضہ کشمیر کی قیادت سید صلاح الدین کی حزب المجاہدین کے ذریعے اس مہم جوئی میں حصہ ڈالا۔ ویسے تو پوری دنیا میں ہی "اثاثہ جات" کی پرورش اور غیر ریاستی عناصر کا استعمال عام ہے لیکن پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے اس لیے نام نہاد مہذب دنیا کو زیادہ تکلیف مسلم ممالک کے ہاں ایسے اثاثہ جات کے استعمال سے ہوتی ہے۔
ڈان لیکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت اب بیرونی دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے ان عناصر کے استعمال کو متروک کرنے کے حق میں تھی اور ان عناصر کی مبینہ پشت پناہی پر عسکری حلقوں پر طعنہ زن تھی۔ عسکری حلقوں نے بھی قدرے ناراضی کے ساتھ حکومت کے نامناسب طعنوں کو دل پر لیا اور واضح جواب دیا کہ حکومت پالیسی بنائے، وہ اس پالیسی میں مزاحم نہیں ہونگے۔ اب ٹرمپ کے آتے ہی جب امریکہ نے چند اسلامی ملکوں کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی لگائی ہے اور پاکستان کو بھی واچ لسٹ میں رکھتے ہوئے فوری طور پر دہشت گردی کے خلاف چند ایک "مؤثر" اقدامات اٹھانے کا دھمکی نما حکم دیا تو ہماری ہمیشہ سے ہی ہانپتی کانپتی حکومت نے شاید اسٹیبلشمنٹ کی مکمل رضامندی کے ساتھ پہلے لبرل بلاگرز کو انکی گرفتاری کا سیاق و سباق واضح کیے بغیر چھوڑ کر اور اب حافظ سعید پر پابندیاں لگا کر ٹرمپ کو تابعداری سے لبریز بھر پور سلامی دی ہے۔ ہمارے ہاں ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کی روایت جرنیلوں سے لیکر جمہوری حکمرانوں تک عام پائی جاتی ہے۔ اگر غیر ریاستی عناصر کو محدود کرنے کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا تو پھر بھی اسے یوں عجلت میں امریکی دھمکی کے بعد کرنے سے اندرون اور بیرون ملک کوئی بہتر تاثر نہیں گیا۔ ملک کے اندر عوام میں اس فیصلے سے بد دلی اور غم وغصہ کی فضا ہے جبکہ بیرون ملک ہماری ریاست کا بودا پن مزید واضح ہوا ہے جس سے امریکہ کی پرانی "ڈو مور" کی رٹ مزید بلند ہونے کا اندیشہ ہے۔ انڈیا بھی اس فیصلے پر خوب چھلانگیں لگا رہا ہے جبکہ 5 فروری کے یوم کشمیر سے پہلے ان اقدامات کا مقبوضہ وادی میں بھی انتہائی مایوس کن تاثر پھیلنے کا امکان ہے۔
علاوہ ازیں حافظ سعید صاحب کی تنظیم کی سماجی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انکی جماعت کے ارکان ریاست پاکستان کے مکمل وفادار ہیں اور انکی طرف سے آج تک اندرون ملک امن وامان کا معمولی سا بھی مسلہ پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے مقتدر حلقوں کو انکی جماعت کے سماجی کردار کی قدر کرنی چاہیے اور مستقبل میں خدمت خلق کے حوالے سے انھیں کھلا میدان دینا چاہیے، نیز اگر انکی جماعت یا دوسرے غیر ریاستی مسلح عناصر اسلحہ چھوڑ کر ملک کے سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہنا چاہیے ۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے ہی اثاثہ جات کو یوں دیوار سے نہیں لگانا چاہیے کہ ایک اور تحریک طالبان پاکستان وجود میں آجائے۔ اللہ تمام مقتدر حلقوں کو بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم مل کر پاکستان کو درپیش خطرات کا سامنا کر پائیں۔آمین

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply