حرکت اور روشنی۔۔ادریس آزاد

گیلیلیو نے بتایا کہ ہرحرکت کرتی ہوئی شئے کسی دوسری متحرک یا ساکن شئے کے حوالے (ریفرنس) سے ہی حرکت کرتی ہے۔ اگر حوالہ موجود نہ ہو تو کسی حرکت کرتی ہوئی شئے کے حرکت کرنے کی خبر ہی ناممکن ہے۔
پھر میکس ویل نے جب اپنی چار مشہور مساواتوں کو ملا کر یہ ثابت کردیا کہ روشنی کی شعاع اصل میں ایک الیکٹرومیگنیٹک ویو (EM Wave) ہے اور یہ ’’سی‘‘ کی رفتار سے ویکیوم (vacuum) میں حرکت کرتی ہے، تو سوال اُٹھایا گیا کہ پھر یہ شعاع کس کے حوالے سے حرکت میں ہے؟ کیونکہ ویکیوم تو کوئی شئے نہیں، یعنی ہم ویکیوم کو بطورحوالہ تو نہیں لے سکتے۔ آواز کی موج ہوا کے ذرّات کے حوالے سے حرکت کرتی ہے۔ پانی میں موج پانی کے مالیکیولوں کے حوالے سے حرکت کرتی ہے۔ تو پھر روشنی کی موج کا حوالہ (ریفرنس) کیا ہے؟
سائنس کمیونٹی کا یہ سوال اِس لیے جائز اور ضروری تھا کیونکہ گیلیلیو نے اپنے تجربات اور ریاضی کے ذریعے حرکت کرتی ہوئی شئے کے لیے حوالے کی موجودگی کو لازمی قرار دے دیا تھا۔ نیوٹن نے بھی گیلیلیو کا راستہ اپنایا اور حوالے کی موجودگی کا قائل رہا۔نیوٹن کا مشہور تھاٹ ایکسپیری منٹ یعنی بالٹی والا تجربہ اسی موضوع کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ میں اس پر بہت پہلے ایک پوسٹ لکھ چکاہوں۔
چونکہ گیلیلیو ثابت کرچکا تھا کہ ہر حرکت کرتی ہوئی شئے کی حرکت کو کسی نہ کسی حوالے سے ہی پہچانا جاسکتاہے۔اور روشنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررہی ہے، تو پھر روشنی کی شعاع کی حرکت کا علم حاصل ہونا کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ روشنی کی شعاع تو ویکیوم میں حرکت کررہی ہے جو فی الحقیقت کوئی شئے ہی نہیں۔
تب سائنسدانوں نے ارسطو کے نظریۂ ایتھر کی طرف رجوع کیا۔ ماضی بعید میں یونانیوں نے جب چار عناصر، مٹی، پانی، ہوا اور آگ، طے کرلیے تو ارسطو نے ان میں ایک پانچویں عنصر کا اضافہ کردیا تھا۔ ارسطو نے اسے ایتھر(Aether) کا نام دیا۔دراصل ارسطو نے یہ اضافہ کلیۃً اپنے اختیار سے نہ کیا، بلکہ اس کے استاد افلاطون نے ہی سب سےپہلے پانچویں عنصر ایتھر کا ذکر کیا تھا۔ فِکشن کی دنیا اور ادب میں، اِسےصرف ’’ففتھ ایلیمنٹ‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ ارسطو نے تجویز کیا کہ ایتھر کوئی فزیکل شئے نہیں ہے۔ یہ ستاروں اور سیّاروں کے درمیان پائی جاتی ہے اور اس نے ہماری زمین کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔سترھویں صدی میں ڈیکارٹ نے اس تصور کو دوبارہ سے قدرے تفصیلی وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس نے اسے خلا کے درمیان موجود واسطہ (میڈیَم) قرار دیا۔
چنانچہ انیسویں صدی کے سائنسدانوں نے وقتی طورپر اِس مفروضے کو تسلیم کرلیا۔ لیکن انہوں نے جستجو کی کہ اگر خلا میں ایتھر موجود ہے اور وہی روشنی کی حرکت کا حوالہ ہے تو پھراُسے شناخت بھی کیا جاسکتا ہوگا۔ایتھر کو دریافت کرنے کی جستجوسائنسدانوں میں شدت سے پیدا ہوئی تو مائیکلسن اور مورلے نے ایک تجربہ کر ڈالا۔ وہ بہت خوش تھے کہ وہ ایتھر کو دریافت کرلیں گے۔ انہوں نے کئی سال کی محنتِ شاقہ سے ایتھر کی ٹھیک ٹھیک دریافت کرنے کے لیے ایک آلہ تیار کرلیا تھا۔
لیکن انہوں نے یہ دریافت کیا کہ ایتھر کا کوئی وجود نہیں ہے۔اور یہ بات بڑی عجیب تھی۔ یعنی روشنی حرکت کررہی ہے، ہمیں معلوم ہے۔یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ کسی بھی شئے کی حرکت کا پتہ کسی اور شئے کے حوالے (reference) سے ہی چلتاہے۔اگر کوئی حوالہ نہ ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شئے حرکت ہی نہیں کررہی۔ ایتھر دریافت نہ ہوسکی تو وہ مفروضہ بھی ختم ہوگیا جو بظاہر روشنی کی حرکت کو ایک حوالہ مہیا کررہا تھا۔
پھر آئن سٹائن آگیا۔ ۱۹۰۵ میں مائیکلسن اور مورلے کے تجربے کو ابھی اٹھارہ سال ہوئے تھے، جب آئن سٹائن نے اس معمّے کو یوں حل کیا کہ اس نے کہا،
روشنی کو کسی حوالے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ روشنی ہر فریم آف ریفرنس سے ایک ہی رفتار کے ساتھ حرکت میں ہے۔ فریم آف ریفرنس کا مطلب ہے آپ جہاں پر ہیں وہی آپ کا فریم ہے۔ آپ گاڑی میں ہیں تو گاڑی آپ کا فریم ہے اور آپ باغ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو کرسی آپ کا فریم ہے۔ فریم ایک چھوٹے سے چھوٹے پارٹیکل کا بھی اپنا الگ ہوتاہے۔ ایک کارتیسی فریم ایکس وائی اور زیڈ کوآرڈی نیٹوں پر مشتمل ہوتاہے۔
روشنی ہر فریم آف ریفرنس سے ایک ہی رفتار کے ساتھ حرکت میں ہے۔ یعنی کُل کائنات میں روشنی کی حرکت ہی واحد حرکت ہے جو کسی حوالے کی محتاج نہیں ہے۔فریم متحرک ہوتب بھی روشنی اسی رفتار سے اس میں سے سفر کرتی ہے اور فریم ساکن ہو تب بھی روشنی اسی رفتار سے اس میں حرکت کرتی ہے۔آئن سٹائن نے کہا کہ روشنی کی شعاع کی حرکت آواز یا پانی کی موج جیسی حرکت نہیں ہے۔ اس نے کہاکہ روشنی کی حرکت کو ایک نئے قانونِ طبیعات کا درجہ دیا جانا چاہیے اور جس طرح نیوٹن کے قوانین ہرانرشیل فریم پر لاگو ہوتے ہیں، روشنی کی رفتار کو بھی ہر فریم میں ویسے ہی لاگو سمجھا جائے۔
روشنی ہرساکن و متحرک فریم میں ایک جیسی رفتار(C) یعنی ویکیوم میں تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی ہے۔ اگر ہم روشنی کو ہر فریم میں ’’سی‘‘ مان لیں تو پھر لازم ہوجاتاہے کہ ہم ’’سی ولاسٹی‘‘ کو فاصلہ ماپنے کی مشہور مساوات میں بھی استعمال کریں۔
s=vt
یا
d=vt
یا
x=vt
تینوں طرح سے لکھنا ایک ہی بات ہے۔ یعنی ایس، ڈی اور ایکس تینوں ہی فاصلے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اب اگر ہم ’’سی ولاسٹی ‘‘کو’’ وی ولاسٹی ‘‘ کی جگہ استعمال کریں تو مساوات کی شکل کچھ یوں ہوجاتی ہے۔
x=ct
اور یہ بہت ہی حیران کردینے والی صورت ہے۔ کیونکہ واحد متغیر(variable) وی(v) ہی تھا جسے ہم بدلا کرتے تھے اور میٹر کی لمبائی یعنی ایکس اور سیکنڈ کی لمبائی یعنی ٹی کو ہم نہیں بدل سکتے تھے۔ وی(v) کو بدلنے سے یہ مساوات ہمیں بتایا کرتی تھی کہ کتنے وقت میں کتنا سفر طے ہوا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہوچکی ہے کہ وہی واحد متغیر (ویری ایبل) ہی غیر متغیر ہوگیاہے۔ یعنی سی کو بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ ہر فریم میں ایک جیسی ہے۔ اگر سی کو نہیں بدلنا تو پھر لازمی ہوجائے گا کہ ایکس اور ٹی تبدیل ہوں۔ میٹر کی لمبائی اور سیکنڈ کی لمبائی بدلے جائیں۔اور یوں ٹائم ڈائلیشن اور لینتھ کنٹریکشن کی فزکس شروع ہوئی۔
چنانچہ ہم بہت ہی محتاط اور محفوظ الفاظ میں یوں بھی کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ دراصل روشنی حرکت میں نہیں ہے۔ روشنی ایک غیر متحرک غیر مادی عنصر ہے جو ہرجگہ موجودہے۔ حرکت میں فقط مادہ ہے۔مادہ جہاں کہیں بھی ، جس قسم کے بھی فریم کی صورت موجود ہے،وہ چونکہ خود حرکت میں ہے اس لیے یہ غیر متحرک اور غیر مادی عنصر اسے اپنے اپنے لحاظ اور اعتبار سے متحرک محسوس ہوتاہے۔ اس اخری بات میں اگر قارئین کی مزید دلچسپی ہو تو ہگز بوزانوں کے بارے میں پڑھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply