دیوالیہ پن۔۔محمد وقاص رشید

پاکستان میں ہوش کی آنکھ تو کھلی نہیں اس لیے ہمیں مجموعی حیثیت کے لیے اس محاورے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہوش کےصرف کان کھلے ہیں جس میں چند جملے اور الفاظ سماعت کے پردوں کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ اسلام خطرے میں ہے ، ملک ایک نازک دور سے گزر رہا  ہے ، پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ، پاکستان کے خلاف مختلف لابیوں کی سازش کے ساتھ ساتھ ایک لفظ اور بھی زندگی بھر تواتر سے سننے کو ملا اور وہ ہے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے اوپر صرف تین ممالک ہیں جو ڈیفالٹ کر جانے کے شدید خطرے سے دو چار ہیں۔ یعنی (خدا نخواستہ) پاکستان Bankruptcy کے شدید خطرے کا شکار ملکوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ ہم سے جڑے مقدس نعروں کو سنا جائے تو وہ تینوں ملک نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔

فرد ہو یا قوم زندگی کا معیار مختلف جہتوں اور پہلوؤں پر پَرکھا جاتا ہے۔ زندگی کی چھت اخلاقی ، سماجی ، سیاسی، انتظامی اور معاشی پہلوؤں کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ آئیے ذرا غور کرتے ہیں کہ ہم ان تمام امور میں کس کس  حوالے سے  دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے  ہیں کہ جس نے آج ہمیں معاشی دیوالیہ پن کے کنارے پر لا کھڑا کیا۔

ہمیں مذکورہ ہر طرح کے دیوالیہ پن سے نکلنے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس وقت ضرورت معاشی دیوالیہ پن سے خود کو بچانے کی ہے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر ملک بھر سے معاشی ماہرین کو بلا کر انکی سفارشات کی روشنی میں ہنگامی بنیادوں پر ایک معاشی پالیسی مرتب کی جائے۔ لیکن یہ کرے گا کون جنہوں نے یہ کرنا ہے وہ تو وزیراعلیٰ وزیراعلیٰ کھیل رہے ہیں۔

ملک کے مایہ ناز مذہبی اور سماجی سکالر جناب غامدی صاحب کہتے ہیں کہ مذہب کا اصل ہدف انسان کی اخلاقی تربیت ہے۔ افسوس اسلام کے نام پر بننے والے ایک ملک میں اخلاقی دیوالیہ پن کا عالم آغاز ہی سے یہ تھا کہ قوم کی ماں یعنی مادرِ ملت کو بندوق کے زور پر الیکشن ہروایا گیا۔ اس اخلاقی دیوالیہ پن نے وہ آئینی بحران پیدا کیا کہ جسکا نتیجہ ہم نے پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں دیکھا اور یہ بات مت بھولیے گا کہ ہمارا ملک جب معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے تو اس سمے ہم سے علیحدہ ہونے والا صوبہ اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ پر ہمیں خصوصی طور پر اپنی معاشی برتری کا آئینہ ہی دکھلاتا ہے۔
“شرم تم کو مگر نہیں آتی”

لوگ کہتے ہیں ناموں کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے۔ ہوتا تو پاکستان میں سب سے زیادہ ناحق کے اندھیرے پھیلانے والے شخص کا نام ضیاءالحق نہ ہوتا۔ جسکے سیاہ دور میں ہر قسم کے اس دیوالیہ پن کا بیج بویا گیا جسکی فصل کو کاٹتے کاٹتے ہم خدانخواستہ اس بھوک کی نہج پر آنے کو ہیں جس سے رسول اللہ ص نے بھی پناہ مانگی تھی۔

پاکستان نے جس ارتقائی سفر کا آغاز اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ساتھ آئینی اور قانونی راستے پر چلتے ہوئے سیاست کے میدان میں کرنا تھا۔ ان میں دیوالیہ کر دیے جانے کے باعث سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہوا اور یہاں سلطانیءِ جمہور کی علمبردار سیاسی جماعتوں میں بھی آمریت کا راج ہے۔

ملت سازی کردار کی متقاضی ہے۔ کردار کے لیے افراد کی تربیت کی جاتی ہے۔ طالبعلم کی نگاہ میں انسانی زندگی میں تین تربیت گاہیں ہیں۔ ماں کی گود اور باپ کی پیروی سے مزئین گھر ، استاد کی تعلیم سے آراستہ درسگاہ اور منبرِ رسول ص پر مبنی مسجد۔ بڑے کرب سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تینوں جگہوں پر موجود افراد اکثر خود اس تربیت سے محروم نظر آتے ہیں جو انہیں ملت سازی میں انکے کردار کی اہمیت اجاگر کروا سکے۔ نتیجہ معلوم کرنے کے لیے دور مت جائیے صرف ایک بار سوسائٹی کے کردار کا عکاس سوشل میڈیا ملاحظہ فرما لیجیے۔ دیکھ لیجیے لائیکس ، شئیرز اور فالوورز کی تعداد کس content پر ہے۔ یہ اسی کردار کا دیوالیہ پن ہے۔

معاشی دیوالیہ پن کا اب تک ہم نے صرف نام سنا ہے۔ نئی حکومتوں نے اپنی منصوبہ سازی کے فقدان اور الیکشن میں بلند و بانگ دعوؤں کو چھپانے کے لیے پچھلی حکومتوں پر الزامات عائد کیے کہ ملک دیوالیہ کر کے چھوڑ گئے۔ ہمیں کیا پتا تھا خزانہ خالی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اب عالم یہ ہے کہ پاکستان کو دسمبر تک اپنے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے جتنے ڈالرز کی ضرورت ہے پاکستانی معیشت اسطر ح سے چلتے ہوئے پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ نتیجہ۔۔طالبعلم کو اپنے ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کی صورت کے بارے میں تصور کر کے ہی خوف آنے لگا ہے، جو کچھ میں نے اپنی تحقیق میں ڈیفالٹر ممالک کے بارے میں پڑھا۔
آئی ایم ایف کے مزید قرضے دینے سے انکار سے شروع ہوتا یہ ڈھلوان کا سفر ۔۔ائیر لائین کے جہاز قبضے میں لیے جانے، عالمی معاہدے منسوخ ہو جانے ، بیرونِ ممالک سے تیل وغیرہ کی سپلائی منقطع ہونے ، فیکٹریاں کارخانے بند ہونے ، ملکی کرنسی کے سڑکوں پر رُلنے ، سرکاری مشینری چلانے کے لیے لوگوں کی تنخواہوں تک کے لیے پیسے نہ ہونے اور عالمی پابندیوں کا شکار ہونے سے آخرِ کار بھوک ، احتیاج ، غربت اور جرائم کی کس کھائی تک محیط ہوتا ہے کون جانے۔

ہمیں مذکورہ ہر طرح کے دیوالیہ پن سے نکلنے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس وقت ضرورت معاشی دیوالیہ پن سے خود کو بچانے کی ہے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر ملک بھر سے معاشی ماہرین کو بلا کر انکی سفارشات کی روشنی میں ہنگامی بنیادوں پر ایک معاشی پالیسی مرتب کی جائے۔ لیکن یہ کرے گا کون جنہوں نے یہ کرنا ہے وہ تو وزیراعلیٰ وزیراعلیٰ کھیل رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید اسی لیے معیشت سمیت مندرجہ بالا ہر ایک دیوالیہ پن کو سمجھنے والی سوشل میڈیا کی ایک ہمہ جہتی شخصیت جناب حاشر ابن ارشاد نے تمام معاشی اقدامات لکھ چھوڑنے کے بعد آخر پر یہ لکھ دیا کہ ” کیونکہ” ایسا ” کوئی کرے گا نہیں اس لیے ڈیفالٹ کا انتظار کیجیے۔ یہ سب سے بڑا بحران ہے کہ جب کسی قوم کے لوگوں کی امیدیں بھی دیوالیہ ہو جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply