بے فیض موسموں کے بگوُلے

بے فیض موسموں کے بگوُلے
سبط حسن گیلانی
میرے چکوال کے مایہ ناز شاعر جناب عابد جعفری صاحب کا ایک شعر ہے۔
بے فیض موسموں نے کتنے بگو لے جنم دیے
زیر زمیں کتنے دفینے اُداس تھے
بعض اوقات شاعر کا ایک شعر پوری کتاب جیسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ فصیح و بلیغ۔ پورے پورے عہد کی کہانی بیان کر دینے والا۔یہ شعر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میری خوش نصیبی کہ شاعر سے راہ و رسم رہی ہے۔ اپنے لہجے جیسا دھیما انسان۔خون بو میں فقیروں جیسا۔جس کے پاس بیٹھنے سے درویش کی کٹیا جیسا سکون ملے۔ اب اس دنیا میں نہیں ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی قیمتی شے کھو گئی ہے۔میں نے اس شعر کی تشریح کی درخواست کی تو کہا جب جبر کا موسم شدید ہو جائے تو شرف آدمیت کا گلستان اُجڑ جاتا ہے۔صلاحیت و قابلیت اور تخلیق کے پھول نہیں کھلتے بس چاروں اور کانٹے اُگ آتے ہیں۔خزانے دبے کے دبے رہ جاتے ہیں اور کھوٹے سکے سکہ رائج الوقت کا روپ دھار کے بازار کی اچھی روایات کو بھی پامال کر دیتے ہیں۔اس حد تک کہ ادنیٰ و اعلیٰ کا فرق مٹ جاتا ہے۔
شرافت منہ چھپاکر کونوں کھُدروں میں دُبک جاتی ہے اور بازاری پن منظر پر چھا جاتا ہے۔ دلیل رسوا ہو جاتی ہے اور گالی منہ چڑاتی ہے۔ عقل و شعور کو فارغ خطی دے دی جاتی ہے اور جہالت مسند نشین ہو جاتی ہے۔علم گمُنامی اختیار کر لیتا ہے اور نتھری ہوئی جہالت کا ڈنکہ بجنے لگتا ہے۔کیا آج کل کا زمانہ ایسا ہی نہیں ہے؟۔ساری دنیا میں تو نہیں مگر ہمارے ہاں کا دستور یہی ہے۔کیا ہم کشور حسین شاد باد کے باسی ایسے ہی ماحول میں جینے پر مجبور نہیں۔ ویسے تو سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مثالیں ہیں جو ہمارے چاروں طرف صبح و شام ہمارا منہ چڑاتی ہیں۔لیکن یہاں ہم ایک ایسی کہانی بیان کرنے چلے ہیں جس کا ذکر آج کل نمایاں ہے۔ یہ ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوے دو کرداروں کی کہانی ہے۔بلکہ دو سگے بھائیوں کی کہانی ہے۔ اس کا ایک حصہ سکرین پر ہے اس لیے سب کا دیکھا بھالا۔دوسرا سکرین سے اوجھل ہے اس لیے قدرے اندھیرے میں ہے۔ جب تک کہانی کے دونوں رخ دیکھ نہ لیے جائیں بات سمجھنا تھوڑا دشوار ہو گا۔ پندرہ بیس برس بیتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں دو سگے بھائیوں نے معاشرے میں اپنے لیے جگہ بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔یہ زیادہ لکھے پڑھے نہیں تھے، واجبی سی تعلیم تھی۔ بس حرف شناسی کی حد تک۔ اتنی نہیں کہ جہاں سے علم وشعور کا درکھلتاہے، اس چیز سے انہیں کوئی غرض بھی نہیں تھی۔نہ وہ اس کے متلاشی تھے۔مگر اتنے سیانے ضرور تھے کہ ناخواندہ اور نیم خواندہ معاشرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔
آپ میں سے کسی نے برصغیر کے بے مثال کہانی کار منشی پریم چند کی مختصر کہانی ’کفن‘ اگر پڑھ رکھی ہے تو ان کی سمجھ میں یہ کہانی زرا جلدی آجائے گی۔ ان دو بھائیوں کو معلوم تھا، اگر حافظہ اچھا ہو اور زبان کی گرہ قدرے کھلی ہوئی ہو تو اس معاشرے میں تیزی سے بلند اور معزز مقام پانے کے لیے مذہب کے استعمال سے بڑھ کر کوئی اور نسخہ کیمیانہیں۔چنانچہ بڑے بھائی کچھ عرصے کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔چند برس بیتا کر لوٹے تو ایک عالم کے بھیس میں۔ سر پر عمامہ جسم عبا قبا سے مزئین۔کہاہم برادر اسلامی ملک سے مذہب کی اعلیٰ تعلیم سے لیس ہو لوٹے ہیں۔ہمارا درجہ اب اس طبقے میں سب سے اونچا ہے۔ اور اپنے نام کے ساتھ آیت اللہ کا سابقہ استعمال کرنے لگے۔ لیکن ان کی بدقسمتی آڑے آئی کہ یہ وہ زمانہ تھا جب غول کے غول وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ موصوف وہاں کہیں نہیں دیکھے گئے،اور جو کچھ یہ بیان فرما رہے ہیں اسلام اور ہمارا فرقہ مکمل طور پر اس سے بری الذمہ ہیں۔جب موصوف نے دال گلتی نہ دیکھی تو ایک اور پینترا بدلا۔عبا قبا اور عمامے سے دست بردار ہوئے بغیر اس مقدس لباس پر کشکول لٹکا لیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جو پاکستان ہی نہیں پورے بر صغیر میں پہلی مرتبہ رونما ہو رہا تھا۔اس کی وضاحت انہوں نے یہ بیان کی کہ میں شہباز قلندر سرکار کی طرف سے باقاعدہ معمور ہوا ہوں کہ دنیا کو بتائوں کہ شریعت اور طریقت دو الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے بہنے والے دو دریا ہیں۔ اور یہ اس کا عملی اظہار ہے۔کچھ عرصہ اس روپ میں رہے مگر دال پھر بھی گلی نہیں۔ وہ اس لیے کہ طریقت کے قافلے کو جُبہ و دستار سے چڑ تھی اور صاحبان شریعت کو کشکول سے۔چناچہ مناسب وقت دیکھ کر خلق خدا کو بشارت دی کہ اب جبہ و دستار کو ترک اور کشکول کو اختیار کرنے کا امر ہوا ہے۔ اور قلندر کے دربار سے ملحقہ ایک احاطہ دیکھ کر پکے ڈیرے لگا لیے اور روحانیت کی اس منزل پر فائض ہیں جہاں مخلوق خدا سے باقاعدہ سجدہ کروا کر روحانی سکون محسوس کرتے ہیں۔ اب چھوٹے بھائی کی سنیے کہ بڑے بھائی سے شکل و صورت بھی اچھی پائی تھی اور قدرت نے زبان کی گرئیں بھی کھول دیں تھیں۔ مقدر نے یاوری کی تو ملکی اُفق پر ٹی وی چینلوں کی قوس وقزح نمودار ہوئی۔ پیشہ ور اور لکھے پڑھے لوگ انگلیوں پر گننے کے قابل تھے۔ چنانچہ ایسے عطائی طبقے کی بن آئی۔مالکوں کو ریٹ اور سودا بکنے سے غرض تھی۔کسی نا اہل کو بہت بڑے منصب پر بٹھا دینے سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں حکومت سمیت کسی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ دھیان کرتا۔یوں چھوٹے بھیا کی بن آئی۔
دولت شہرت گھر کی باندی بنی۔ آمر وقت کی نظرکرم کا اثر تھا کہ کچھ دیر کے لیے جتنی دیر میں کتا ناک چاٹتا ہے وزارت بھی گھر چل کر آئی۔ فرقہ پرست علما جو ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں تھے بھیا کی صحبت میں ٹی وی سکرین پر آپس میں شیرو شکر نظر آئے،بھیا حدیث کی کتابوں کو دائیں بائیں سجا کر اپنی گفتگو میں ان کے حوالے دیتے تو شہرت کے بھوکے ملاوں سمیت عوام نے بھی ان کے’’ علم‘‘ کا اقرار کیا۔ بھیا نے اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔بازار کا رخ دیکھ کرکفر وشرک کے ساتھ ساتھ حب وطن کے فتووں کی دکان بھی سجا لی ۔رمضان شریف کے مواقع پر تو بھیا نے وہ مارکیٹنگ کی کہ عوام کے ساتھ ساتھ مالک بھی ماتھا چوم کر صدقے واری ہوئے، چند دن ہوتے ہیں کہ ایک نئے طلوع ہونے والے چینل پر بھیا جا براجے اور دل کے وہ وہ پھپولے پھوڑے کہ تہذیب شرافت ،دلیل منطق روایات علم وادب اور صحافیانہ اقدار سب اپنے اپنے گریبان پھاڑ کر جس کا جدھر منہ آیا بھاگ نکلا۔ اس بات کو ثابت کیا کہ الفاظ نہ صرف آگ اُگل سکتے ہیں بلکہ جہالت کا کیچڑ بھی پھیلا سکتے ہیں ۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے؟۔ کیا ارباب اقتدار اور میڈیا کے مالکان اور کرتا دھرتا اس نفرت اور جہالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے یا اس کا کوئی سد باب؟۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply