وزیر اعلٰی پنجاب کی خدمت میں ایک عرض گزاشت

اٹھائیس اکتوبر کی شام پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے لگنے والی میرٹ لسٹ کسی بہت بڑے دھچکے سےکم نہ تھی – میرٹ کا اتنا اونچا چلا جانا تمام امیدواروں اور ان کے والدین کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھا جو سال ہا سال کی محنت اور ایک خاص درجے کی کامیابی کے بعد اپنی آنکھوں میں کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلے کے سپنے سجاۓ خوشخبری کے منتظر بیٹھے تھے – مگر یہ خوشخبری چند نیک بختوں کو چھوڑ کر باقیوں کے پاس سے ہو کر گزر گئ-

اس سال داخلےکے لیے میرٹ پچھلے تمام سالوں کے مقابلے حد درجہ اوپر چلا گیا- آخری خوش نصیب جسے پنجاب کے دوردراز علاقےڈیرہ غازی خان میں قائم شدہ کالج میں داخلے کا استحقاق ملا اس کے حاصل کردہ اوسط نمبر88.68% ٹھہرے جبکہ اسکے برعکس پچھلے سال یہ تقریباً 84%تھا – لاہور، راولپنڈی ،ملتان اور دیگرقریبی علاقوں میں قائم شدہ کالجوں میں میرٹ 96% سے لے کر 89% کے لگ بھگ رہا- 85% یا اس سے ذیادہ نمبر کسی بھی امتحان میں امتیازی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں- میٹرک، ایف ایس سی اور بھر انٹری ٹیسٹ کی چھلنی سے گزرنے کے بعد اور اتنے سارے نمبر حاصل کرنے کے بعد کثیرتعداد میں طالبعلموں کا داخلے سے محروم رہ جانا ایک قومی سے کم نہیں-

صورتحال شائد مثالی نہ ہو مگر پنجاب حکومت نے طبی سہولیات میں اضافے کی لیے کوششیں ضرور کی ہیں-تاہم آبادی میں اضافے کے تناسب سے سہولتیں بڑھانے کے لیے نیئے ہسپتالوں کی تعمیر اور موجودہ ہسپتالوں کی گنجائش میں بڑھوتی مزید توجہ کی طالب ہے- ان ہر دو اقدام کی کامیابی کے لیے تربیت یافتہ عملے کی موجودگی ازحد ضروری ہے- پنجاب میں نئے کالجوں کا قیام اسی سمت ایک اہم قدم تھا- ان کالجوں میں تعلیمی سرگرمیوں کاآغاز محدود نشستوں سے کیا گیاجو بیشتر کالجز میں سو نشستوں تک تھا- چاہیے یہ تھا کہ یہاں بھی نشستوں کی تعداد بتدریج بڑھا کر دوسرے کالجوں کے برابر لائ جاتی تاکہ ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ آبادی کے تناسب سے طبی سہولتیں بہم پہنچانے میں ممکن ہو سکتا مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا- حکومت پنجاب نے تاہم اس برس اس جانب قدم اٹھایا تھا- راقم الحروف کو انٹرنیٹ پر وزیراعلے سیکریٹیریٹ کی جانب سے پنجاب کے تمام میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کے پرنسپلز اور وائس چانسلرز کو لکھے خط کو پڑھنے کا موقع ملا جس میں اسی صورتحال کا ادراک کرتے ہوۓ کنگ ایڈورڈ اور فاطمہ جناح میڈیکل کالجز میں پجیس پجیس جبکہ دیگر تمام کالجز میں پجاس پچاس نشستوں کے اضافے کی تجویز دی گئ تھی- یہ کل ملا کر 800 نشستیں بنتی تھیں جواونٹ کے منہ میں ذیرہ ہونے کے باوجود غنیمت تھیں مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا- اس کے بعد کے ایک خط میں مجاز سربراہان کی طرف سے بروقت جواب نہ دینے پر ناراضی کا اظہار بھی کیا گیا تھا- افسوس کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی- سنا یہ گیا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے مخالفت کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا گیا-

وزیر اعلے پنجاب ایک متحرک شخصیت کی پہجان رکھتے ہیں- جو ٹھان لیں اس کے راستے کی ہر رکاوٹ کو جائز طریقے سے دور کرنے کی شہرت رکھتے ہیں- اب جبکہ صوبے اور وفاق میں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت ہے، ان کا کسی بھی ادارے کے ہاتھوں یوں بے بس ہو جانا ایک سمجھ نہ آنے والی پہیلی ہے- شنید ہے کہ پی ایم ڈی سی میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے مالکان یا ان کے مفادات کی نگہبانی کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے- پنجاب میں نئےکالجوں کا اجرا یا موجودہ کالجوں میں نشستوں کا اضافہ ان پرائیویٹ کالجوں کے مفاد میں نہیں جبکہ ان پرائیویٹ کالجوں میں تعلیم اور عملی سکھلائ کی صورتحال کسی طور بھی قابل رشک نہیں- ان کالجوں کے مللکان کے ہاتھوں بالواسطہ یا بلا واسطہ ذہین مگر محدود وسائل کے حامل طالب علموں کا استحصال کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہئے-تعلیمی اور طبی سہولتوں میں اضافہ، کرنے والے اصل کاموں میں ہیں- ان کے ادراک کے باوجود قدم اٹھا کر پیچھےہٹ جانا وزیراعلے جیسی متحرک شخصیت کے شایان شان نہیں-

اب صورتحال یوں ہے کہ میٹرک اور ایف ایس سی میں ہزار سے ذیادہ اور انٹری ٹیسٹ میں کافی مناسب مارکس لینے کی باوجود طالب علموں کی کثیر تعداد داخلے سے محروم قرار دی گئ ہے- کیا صوبے کے ذہین ترین بچوں کے ساتھ یہ سلوک قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے- یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں طبی سہولتوں کی حالت قابل رشک نہیں اور بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے- ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے جبکہ صوبے کی کثیر آبادی عطائیوں سے علاج کرانے پہ مجبور- اس کا علاج دیگر سہولتوں میں اضافے کے ساتھ ڈاکٹروں کی تعداد بڑھانا بھی ہے- وزیراعلے کو اس سلسلےمیں ذاتی دلچسپی لیتے ہوۓ نشستوں میں مجوزہ اضافے کا فی الفور اعلان کرکے سینکڑوں طالبعلموں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچا لینا چاہئے-بڑے میڈیکل کالجوں میں دہری شفٹ کی گنجائش ہے اور اس پر بھی عملدرآمد ممکن ہے- یہ سب فوری طور پرکیا جا سکتا ہے اور ایسا کرکے ہزاروں طالب علموں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکتا ہے- طبی سہولتوں میں اضافے اور عطائیت کے خاتمے کی جانب یہ حکومت کا ایک انتہائ اہم قدم گردانا جاۓ گا- آمدورفت کی سہولتوں میں آپ کی ذاتی دلچسپی نےکامیابیوں کی ایک نئ داستان رقم کی ہے- تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی آپ کی کوششیں قابل تحسین ہیں مگر اس میں مزید بہتری آپ کی ذاتی کوشش سے ممکن ہو سکتی ہے- قوم کے بچے آپ کی مہربان نظر کے منتظر ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ یہ عمومی اہمیت کا مسئلہ ہے اور اسے کسی بھی سیاسی وابستگی سے ہٹ کر دیکھا جانا چاہئے- یہ ہمارے بچوں کی ذندگی اور ان کے مستقبل کا سوال ہے – راقم ا لحروف کے چھوٹے بھائ، بیٹی ، بیٹا اور بہو ڈاکٹر ہیں اور پاکستان میں ہی خدمات انجام دے رہے ہیں- ایک بھانجی حالیہ میرٹ لسٹ میں علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ کی حقدار ٹھری ہے- راقم اس سے براہ راست متاثر نہیں مگرایمانداری سے محسوس کرتا ہے کہ بے شمار حقدار داخلے سے محروم ٹھہرے ہیں- ان سے کئ درجہ کم نتائج کے حاملین صرف پیسے کے زور پر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جائینگے-اس استحصال کا خاتمہ ہونا چاہئے- ہمارے بچے ہمارا قومی سرمایہ ہیں ان کے مستقبل کے بارے تشویش ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے- میری سب دوستوں سے گزارش ہے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر اس مسئلے کے بارے میں آواز اٹھائیں اور اپنی آواز ہر طریقے سے جہاں پہنچنی چاہئے پہنچائیں- شائد ہماری آوازیں اس ملک کے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے میں کچھ ممد و معاون ہو سکیں-

Facebook Comments

محمد اسلم خان
ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائرکٹر واپڈا ہوں-ادب ،سماجی علوم اور تاریخ سے دلچسپی کے علاوہ لکھنے پڑھنےسے بھی تعلق ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply