• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی مسیحی کا کھتارسس /کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن ۔۔ اعظم معراج

پاکستانی مسیحی کا کھتارسس /کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن ۔۔ اعظم معراج

کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق ویسی
پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے ۔۔ کے چوتھے اضافہ شدہ کتابچے میں سے ایک اقتباس جس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ۔۔
“قیام پاکستان سے لے کر اب تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن کیوں جیت نہیں سکا۔ ” ۔۔۔۔

“جہاں یہ سارے حقائق و شواہد سیاسی و دانشور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہیں اس پورے 6بار 3 مختلف انتخابی نظام ایک جداگانہ ، دوسرا مخلوط ،تیسرا حالیہ دوہری نمائندگی والا مخلوط بمعہ متناسب نمائندگی والا انتخابی نظام جو پاکستان کی چند افراد پر مبنی سیاسی اشرفیہ کو پاکستان کی تقریباً آج جون 2022ءمیں اندازے کے مطابق ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر ایوانوں میں نمائندگان چننے کا حق دیتا ہے۔ ان تینوں کے بغور مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا جبکہ برصغیر کے مسیحیوں کو عقیدہ پرتگالی،ولندیزی برطانوی ودیگر فاتحین کے ساتھ آنے والے مسیحی مشنریوں کے ذریعے ملا پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں نے صرف برطانوی دور حکومت ہی دیکھا۔ لیکن دیگر مشنریوں کی مذہبی و تعلیمی کوششوں کے اثرات پھر بھی کسی نہ کسی طرح مقامی مسیحیوں پر ضرور ہیں۔ برصغیر کا موجودہ تعلیمی نظام بھی انہی ادوار میں سے ارتقا پذیر ہوا۔اسی نظام کی کی ذیلی پیداوار موجودہ سیاسی نظام ہے۔ جس کی بدولت دلا بھٹی سے بھگت سنگھ تک کا ارتقاءہوا۔
کانگریس کا پہلا صدرِ بھی مسیحی ہی تھا۔مقامی لوگوں میں سب سے پہلے آزادی کی شمع جلانے والا ایک پرتگالی استاد و شاعر تھا۔لیکن یہ ایک المیہ ہے۔ کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا۔ ؟..
جب کہ ایک بدھسٹ ایم این اے ،کئی ہندو ایم پی ایز اور حالیہ الیکشن میں ایک ہندو پاکستانی پہلا جنرل الیکشن جیتنے والا ہندؤ ایم این اے بھی بن چکا ہے۔ لیکن مسیحی جن کی ہزاروں این جی اوز سینکڑوں سیاسی جماعتیں اور چند ایک کو چھوڑ کرتقریبا ًہر مذہبی راہنما سیاست کا شوقین ہے۔ لیکن پھر بھی یہ قحط الرجالی کیوں ہے۔؟
یہ ایک اربوں پاکستانی روپوں کا سوال ہے۔ کیونکہ ہماری این جی اوز کروڑوں بلکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اربوں روپے سیاسی و سماجی ورکروں کی تربیت پر لگا چکی ہیں۔لیکن نتیجہ اب تک صفر ہے۔جو کوئی سیاسی ورکر اپنے سیاسی قائدین کو آج تک یہ باور نہیں کراسکا کہ میں بھی کسی مسلم سیاسی ورکر سے بہتر لوگوں کو پارٹی منشور پر متحرک کرسکتاہوں۔ یاد رہے ،کہ جن حلقوں سے ہندوں جنرل الیکشن جیتتے ہیں۔ وہاں بھی ایک آدھ حلقے کو چھوڑ کر اکثریتی ووٹرز مسلمان ہی ہیں۔ٹکٹ دینے کی وجوہات اور ہیں۔جن پر پاکستانی مسیحیوں کو غور کرکے پھر اپنے معروضی حالات کا جائزہ حقائق و شواہد کی بنیاد پر کرنا چایئے۔کہ اب تک مسیحیوں کو کبھی ان کے قائدین نے اس قابل کیوں نہیں جانا کہ ان کو ایسے حلقوں سے ٹکٹ دی جائے جہاں سے جیتنے کے امکانات 30فیصد بھی ہوں۔کچھ غیر مقبول سیاسی جماعتوں نے ایک آدھ بار اور قومی سیاسی جماعتوں نے بھی ان حلقوں سے جہاں سے جیتنے کے امکانات زمینی حقائق کی بجائے معجزے کی صورت میں ہی ہو،وہاں سے ضرور ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا اپنے ایک مسیحی ورکر عامر شرجیل کواین اے 246 کراچی سینٹرل سے ایم کیو ایم کے گڑھ سے ٹکٹ دینا تھا۔اس بے لوث ورکر نے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک اور اپنی جرات و لگن سے حیران کن ووٹ جو کہ 31875 تھے لے کر کراچی کی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ مرحوم عامر شرجیل جلد ہی کینسر کی موذی مرض کی وجہ سے چل بسے لیکن مجال ہے۔ جو کبھی پی ٹی آئی کی کسی سیاسی تقریب میں اس کا ذکر ہوا ہو۔ مسیحیوں کے معاملے میں ایسی کوئی مثال پہلے نہیں ہے اور یقین جانیئے اگر پی ٹی آئی کی قیادت کو یقین ہوتا کہ یہ سیٹ جیتی جاسکتی ہے۔تو شائد عامر شرجیل یہ ٹکٹ نہ حاصل کرپاتا۔ ورنہ اگر کراچی سے جاکر اسد عمر اسلام آباد کے حلقے سے انتحاب جیت سکتا ہے ۔۔تو اسلام آباد کا اسی طرز کا اسلام آباد کا مقامی ٹیکنوکریٹ بریگیڈیر شرف بھی یہ حلقہ جیت سکتا تھا۔۔۔۔ سیاسی پارٹیوں کی اس بے اعتنائی اور مجموعی طورپر
“آئین نو سے ڈرنا” اور” باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ” ڈاکٹرائن کی پیرو کاری کی روش کے ردِعمل میں بجائے اپنی ذاتی و اجتماعی خود احتسابی کرنے کے اور اپنی انفرادی واجتماعی کمزرویوں کوتاہیوں کا حل سیاسی رجحانات رکھنے والے مسیحی سیاسی ورکروں نے یہ نکالا ہے کہ وہ چند ہزار روپے خرچ کرکے آزاد امیدوار بن جاتے ہیں۔جس کا کمیونٹی کو بظاہرتو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اگر کوئی مخفی فائدہ ہوتا ہوتو کچھ کہہ نہیں سکتے۔
لیکن ایسے امیدوارچند سویا ایک آدھ ہزار ووٹ لے کر اپنے نام کے ساتھ ساری عمر کے لئے یہ اعزاز لکھ لیتے ہیں۔ سابقہ امیدوار حلقہ این اے فلاں فلاں اور پھر اپنی قابلیت کی خود احتسابی کی بجائے اپنے چسکے کے لئے ایک کروڑ لوگوں کو معاشرے سے کاٹ دینے والے جداگانہ انتخابی نظام کا نعرہ لگانے لگتے ہیں۔جو اچھے خاصے آئینی طور پر دو نمبر شہری کو ناپاک سیاسی شودر بنا کر معاشرے میں 99کے نمبر شہری بنا دیتا ہے۔ اور پاکستان کے غیر مسلم یہ انتخابی نظام پانچ بار بھگت چکے ہیں۔ خیر یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر اپنے خرچے پر ہوتو کسی کو کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر سماجی فلاح ،این جی اوزیا گرجے کی بنیاد پر منگوائے گئے چندے پر ہو تو یقیناً یہ قابل اعتراض ہے۔خیر یہ ایک ضمنی بات تھی۔لیکن یہ سوال بہت سنجیدہ ہے۔کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے کسی جیتنے کے امکانات والے حلقے سے کسی مسیحی کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔
حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے لئے خود سوزی کرنے والے 7 لوگوں میں سے ایک یعقوب پرویز کھوکھر بھی مسیحی تھا اسی طرح پی این اے کی تحریک میں جان دینے والوں میں سے بھی ایک مسیحی تھا۔سیاسی سماجی و سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی راہنماو¿ں او رورکروں کے لئے یہ ایک سوال ہے۔ عرق ریزی سے اس پر کہج بحثی نہیں بلکہ سیاسی سائنس سے مزئین بحث کریں انشاللہ نتیجہ نکلے گا۔ہاں امید ہے اس تحریر اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی سنجیدہ بحث کی بدولت مستقبل میں ٹکٹ حاصل کرنے والے ضرور اس کوشش کو یاد رکھیں گے۔ہاں حقائق شواہد، معروضی حالات اور اپنی کمزوریوں اور توانائیوں کا بغور تجزیہ طکمخ بہت ضروری ہے ہم تاریخی طور پر پسے ہوئے ہزاروں سال کی محرومیوں کے مارے ہوئے اور ہماری سیاسی اشرفیہ ہوس و زر کی ماری ہوئی ہے۔ لہٰذا چندے سے چندا دے کر انہیں رام نہیں کیا جاسکتا۔ مقامی منڈی سے وافر کما کر ہی ٹکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔کیس اسٹدی کے طور پر رمیش کی کامیابی اور اسحاق کی ناکامی ماڈل اسٹڈی کریں۔ بلکہ اس سے پہلے ہمیں مشہور مفکر ایرک لو کا فلسفہ طاقت پڑھنا بہت ضروری ہے۔جو بتاتا ہے ۔طاقت کے مراکز سے کن عناصر کے ذریعے اپنا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ہی ہم اپنے تجزیے طکمخ سے یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کن عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور سیاست ہماری ترجیحات میں کس نمبر پر ہونی چاہیئے۔ کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں دلچسپی رکھنے والے حضرات بی ٹی ایل ٹی وی کے پروگرام ”سفر شناخت اعظم معراجکے ساتھ“ پروگرام نمبر 8اور 9 اس موضوع پر تفصیلی بحث سن سکتے ہیں۔
مسیحیوں کی اس سیاسی پسماندگی اور حکمران سیاسی اشرافیہ کی بے عتنائی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً مسیحی تو تاریخی ، سیاسی و معاشی طور پر پسماندہ ہیں جس کی بہت ساری تاریخی وجوہات بھی ہیں لیکن یہ سیاسی اشرافیہ کی بھی بہت بڑی ناکامی ہے۔ جو آج تک اپنے سیاسی پیروکاروں کی تربیت نہیں کر سکی کہ وہ اپنے امیدوار کو سیاسی منشور پر ووٹ دیں نہ کر برادری مذہب رنگ اور نسل کی بنیاد پر اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے ہندوں کے کیس میں 6,7بار اور شاید مسلم لیگ نے 1970کے الیکشن میں رانا چندر سنگھ کے کیس کے علاوہ کبھی بھی اس بات کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنایا ہے ۔ان چھ سات کیسز کو بھی بطور کیس اسٹڈی مسیحیوں کو بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ” سیاسی اشرفیہ کی ناکامی اپنی جگہ لیکن اپنی خود احتسابی بھی بہت ضروری ہے ۔۔کیونکہ صورت حال مینر نیازی کے ان شہرہ آفاق شعروں جیسی ہے ۔۔
کج اونج وی راواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

Advertisements
julia rana solicitors london

اعظم معراج کے اقلیتی طرز انتحاب کے ماضی وحال سے اخذ شدہ دوہرے ووٹ کے لالحے عمل پر مبنی کتابچے/مقالے
پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے ۔؟ سے اقتباس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply