انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس24)

ابن الحکم کے ہاتھ میں گلوب ہے۔اور وہ گلوب دانش ور کو دیکھتا ہے۔دیکھو، اس پر تمام دنیا کا نقشہ بنا ہے۔اس دنیا میں کتنے سمندر اور کتنے ممالک ہیں۔ مسافر اور اجنبی گلوب کو غور سے دیکھنے لگے۔اجنبی حیرانی سے پوچھنے لگا۔ انسان تو ایک ہے۔پھر اس زمین پر اتنے سارے ممالک کیوں ہیں۔ دانش ور سوچ میں پڑ گیا۔
اتنے میں ابوالحسن مجلس میں آئے۔اور اپنی نشت پر بیٹھ گئے۔دانش ور، یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے۔
ابوالحسن، یہ گلوب ہے، دنیا کا نقشہ ہے۔
ابن الحکم سن، یہ زمین انسان کا مسکن ہے۔جائے قرار ہے۔اس میں طرح طرح کی نعمتیں ہیں۔انسان نے نہ صرف زمین کو تقسیم کیا، بلکہ ان نعمتوں کو بھی تقسیم کر دیا۔پھر ملکیت کی بنا پر جنگ وجدل شروع ہوا۔جو اب تک جاری ہے۔
دانش ور، اپنی پہچان تک تو تقسیم ٹھیک ہے۔ مگر جنگ وجدل درست نہیں۔انسان بہت بے وقوف ہے۔وہ اپنی تباہی کا سامان خود کرتا ہے۔زمین ہی کو نہیں اپنے آپ کو بھی برباد کرتا ہے۔ اس پر مطمئن ہے اور ناز بھی کرتا ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا۔اسے بھی مرنا ہے۔کل اسے بھی کوئی مار دے گا۔یہ زمین امانت ہے۔اس پر امانت سمجھ کر رہنا چاہئے۔
دانش ور نے کہا۔انسان کو زمین پر رہنے کا ڈھنگ نہیں آیا۔ابوالحسن بولے۔فنا کا عمل جاری ہے۔اگر انسان یہ سمجھ لے کہ یہ سب عارضی ہے۔ سانس کی مہلت بھی امانت ہے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر دوسروں کا بھی حق ہے۔تو زندگی بدل جائے۔یہی رہنے کا قرینہ ہے۔
یہاں مجلس برخاست ہوئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply