قوم کی بیٹی کا معاملہ ہے۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

ہم دعا زہرہ کے والدین کی تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال ملک و قوم کے بارے کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہی۔ اس طرح کسی صورت بھی نہیں ہونا چاہیے اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس کے سد باب کے لئے ہمیں اس کی وجوہات کو دیکھ کر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا تب بہتری کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔

اس معاملہ میں تمام تر کوششیں قانونی اعتبار سے ہورہی ہیں مگر یہ معاشرتی اور سماجی معاملہ ہے۔ ہمیں اس کوہر زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ماحول اس قدر بدل چکا ہے کہ پردے اور فاصلے ختم ہوچکے ہیں، والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کا بچہ کیا دیکھ رہا ہے، کیا پڑھ دیکھ رہا ہے یا اس کا کس کس کے ساتھ رابطہ ہے یا اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔

سوشل میڈیا نے معاشرہ مخلوط بنا دیا ہے۔ پہلے کھڑکیوں سے جھانک کر لوگ ایک دوسرے کا حال پوچھا کرتے تھے اب موبائلوں کی سکرینوں سے ہزاروں میل دور کا بھی نظارہ ہوجاتا ہے۔

خطرات محض ڈھنڈورا پیٹنے سے نہیں ٹلتے ان کا پیشگی بندوبست کیا جاتا ہے۔ وقت کے تقاضوں میں صرف جدید سہولیات کا بہم پہنچانا ہی ضروری نہیں بلکہ نوجواں اولاد کو اس طرح کے ماحول میں رہنے کی تربیت اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو یہ یقین دہانی کروانے کی ضروت ہے کہ انکو نصیحت اپنے علم وتجربہ اور ان کی بہتری کے سوچ کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہم ان کی خواہشات، پسند و ناپسند، چاہیتں، جذبات اور محسوسات کی قدر کرتے ہیں لہذا ان کو کوئی بھی چیز والدین سے چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اولاد کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کے ساتھ کوئی بھی معاملہ ہوجائے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلا جھجک وہ ہم سے شئیر کریں اور باہمی مشورے سے اس کا کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اس طرح ان کے اندر جرات پیدا ہوگی اور وہ اس طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

ہماری معاشرت اور ثقافت کا جو موجودہ ماحول ہے اس میں ہم نے بچوں کو تفریق کا شکار کردیا ہوا ہے ہم بچیوں کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو بچوں کو دیتے ہیں۔ بچوں کو تو اعتماد دیتے ہیں مگر بچیوں کو ڈرا ڈرا کر نہ صرف بزدل بنا دیتے ہیں بلکہ وہ اتنی خوف زدہ ہوچکی ہیں، سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین اور بھائیوں نے ہر صورت ان کی چاہت، خواہشوں اور فیصلوں کی مزمت اور نفی ہی کرنی ہے۔ اسلئے وہ اس طرح کے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

اگراس طرح کا کوئی الزام لڑکے پر آجائے تو سب کہتے ہیں کوئی بات نہیں اور اگر لڑکی پر آجائے تو معاشرہ کسی بھی صورت اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ کئی ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں والدین نے بچیوں کو پولیس کی تحویل سے لے جا کر قتل کردیا۔ تو اس طرح نظام عدل، اداروں اور بچیوں کا والدیں اور گھر والوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے لہذا پہلے اس اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے

میرے پچھلے کالم میں میں نے ان تمام معاشرتی اور ثقافتی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا تھا اور بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہم اجتماعی طور پر اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں مگر بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوئی۔

اب اس معاملے کو ہی لے لیجئے کہ شروع میں تو ہوسکتا ہے والدین کو خدشہ ہو کہ کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ بچی بلیک میل ہوگئی ہوگی۔ کسی نے اس کو دھمکا کر اس سے اس طرح کروا لیا ہوگا۔ لہذا تمام کوششیں والدین کا حق تھا اور ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ لڑکی کو ڈھونڈ کر حقیقت کو سامنے لائیں۔ مگر جب لڑکی مل گئی اور اس نے عدالت کے سامنے اپنا آزادانہ بیان دے دیا کہ اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا، کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے تو اس سے تمام تر پہلے والی رپورٹس منسوخ ہوجاتی ہیں۔

اب لڑکی کے بیان کے بعد ساری صورتحال ہی تبدیل ہوگئی ہے۔ انہوں نے نکاہ بھی کیا ہوا ہے۔ صوبہ سندھ کے قانون میں بے شک شادی پر قدغن ہونگے مگر شرعی اعتبار سے ان کی شادی میں گنجائش موجود ہے اور چونکہ وہ اکٹھے رہ رہے ہیں لہذا ان کے ملاپ کے بعد معاملہ کی اور صورتیں بھی دیکھنا پڑیں گی۔

اب عدالت کو مجبوراً ان کو میاں بیوی تسلیم کرنا پڑا اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ زہرا انسان ہے اس کے بنیادی حقوق جن میں زندگی، آزادی اظہار رائے، جان کی حفاظت وغیرہ شامل ہیں جن کی پاسداری حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔

تو اس کے لئے ایک تو ہمیں مجموعی صورتحال اور اس سے ابھرنے والے تاثرات کو بدلنا ہوگا اور بچیوں کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔ ان کو فیصلہ کرنے کا اختیار اور اسے قبولیت کا درجہ دینا ہوگا۔ ان کو یہ اعتماد دینا ہوگا کہ ان کی خواہشات، چاہیتں، جذبوں اور فیصلوں کا احترام کیا جائے گا اور ان کو کسی امر کو چھپانے کی ضرورت نہیں۔

اب اس ساری صورتحال کو جاننے کے بعد اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ والدین دونوں کو اعتماد میں لیتے۔ بچے کو بھی اپنے بیٹے کا درجہ دیتے تاکہ بیٹی کو احساس ہوتا کہ وہ اس کی چاہت اور فیصلے کو بھی قبول کرنے کو تیار ہیں دونوں کےوالدین مل کر کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتے تاکہ یہ تشہیر اور رسوائی کا معاملہ ختم ہوجاتا۔

اگر والدین کو اب بھی کوئی اور خدشہ ہے تو پھر پہلے حکمت عملی سے بیٹی کو اپنے گھر کے ماحول میں لائیں اور اس کی آزاد رائے کو جاننے کی کوشش کریں پھر اس کے مطابق مزید فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔

یہ کورٹ میرج کے واقعات کو ختم کرنے کا یہی حل ہے کہ ہم نفسیاتی، معاشرتی، سماجی اور بائیولوجیکل فیکٹرز کو سمجھیں اور ان وجوہات کے مطابق معاشرے کو ضروریات سے ہم آہنگ بنائیں۔ اب شادیوں کو تعلیم اور روزگار کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایک سماجی معاملہ ہے لہذا اس کا سدباب معاشرے کی تعلیم و تربیت، کردارسازی اور اخلاقی معیار کی بلندی سے ہی ممکن ہے۔ اب اس معاملے کو کوئی اور رنگ دینا اس کو مزید الجھانے سے مترادف ہوگا۔ تمام سیاسی، عقلی اور مذہبی بیانیے زہرا کی مرضی اور آزادی کے سامنے نہیں ٹھہر پائیں گے۔ معاشرے کو ہم جو سونپتے ہیں وہی ہمیں لٹاتا ہے لہذا ہمیں اپنی اصلاح کرکے بہترین معاشرے کو پروان چڑھانا چاہیے یہی اس کا بہتریں حل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قوم کی بیٹی کا معاملہ ہے۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

  1. دعا کے تازہ انٹرویو کے مطابق :
    ۔1۔ والدین اس کی شادی کسی اور جگہ کرنا چاہتے تھے۔2۔ اس نے انکار کیا۔3۔اس کو سزا دی گئی ۔4۔ دعا نے لڑکے کے متعلق والدین کو بتا دیا تھا۔ ۔5۔ لڑکی کے برتھ ڈاکومنٹس پر عمر کم لکھوائی گئی ہے کہ پاکستان میں عموماً ایسا ہوتا ہے۔6۔ ان باتوں کا تجزیہ کریں تو اگر والدین نے لڑکی کی زبان سے اس لڑکے کا نام سن لیا تھا تو انہیں ہتھیار ڈال دینے چاہیئےتھے۔7۔لڑکیاں آج نہیں سو سال پہلے بھی اِس نوع کے رِسک لیتی رہی ہیں بلکہ کئی سو سال پہلے مرزا صاحباں نے بھی رسک لیا تھا ۔8۔والدین صرف والدین ہیں، وہ اللہ میاں نہ بنیں اور بچوں کو مکمل انسان سمجھیں ۔9۔ بڑےی عمر کے لوگ غلط فیصلے کر سکتے ہیں تو اسی طرح بچے بھی غلط فیصلے کرکے تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ایک جنرل شکست کے بعد یہی کہتا ہے کہ اب اس کے تجربے میں اضافہ ہو گیا ہے۔10۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جعل سازی سے والدین نے عمر کم لکھوائی تھی، اور اس محبت کے رشتہ میں ان کی انانیّت حائل تھی تو ایک سزا جو ذہنی کوفت کی صورت اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت ان کو مل رہی ہے دوسری عدالت کی طرف سے بھی قانون شکنی کی ملنی چاہیئے۔ 11۔ آخری بات: اب پرانے المیہ محبت کے قصوں سے نجات حاصل کرنی چاہیئے۔ جنکاانجام ہمیشہ ناکامی ہوتا تھا۔ اگر کسی کو محبت ہے تو اسے کامیاب ہونے میں والدین کا پہلا فرض ہے کہ وہ مددگار ہوں۔
    یاد رہے کہ یہ اس فرد کی گزارشات ہیں جو اسلام کی تعلیم سے محبت ہے اور حتی المقدور پوری طرح اس پر عمل پیرا بھی ہے ۔جس کی یورپ میں پرورش پانے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت دیندار سات بیٹیاں ہیں اور اب بعض کے بچے آگے شادیاں کر چکے ہیں۔ charity begins at home ۔ اگر بچوں کے ساتھ سچی محبت نہیں تو ساری دنیا کی دولت اور جھوٹی عزت بیکار ہے۔
    قرآن مجید کا یہ حکم صرف پارلیمنٹ یا پاکستان کی مجلس شوریٰ کے لئے ہی نہیں کہ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ.﴿الشوریٰ۲ ۴: ۸۳﴾ یہ حکم ایک فیملی کےگھر میں بچوں کے ساتھ بھی اس حکم کو لاگو ہونا چاہیئے اور یہی سچی جمہوریت ہے۔ معاشرہ خاندانوں کے مجموعے کا ہی نام ہے ۔

Leave a Reply