دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے اہداف بدلنے کی سازش

” لبرل افراد دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہیں ”
یہ جملہ کسی توپ کے گولے کی طرح سماعت سے ٹکرایا ۔ گو کے ہم صرف لبرل ہی نہیں بہت سے اور سابقے لاحقے بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر ہم خود کو اسلامسٹ بھی کہلواتے ہیں ، سوشلسٹ بھی ، لبرل بھی ، نیشنلسٹ بھی ، روشن خیال بھی ترقی پسند بھی اور بھی شائد کچھ ایسے پہلو ہوں جنکا احاطہ فی الوقت غیر ضروری ہوگا ۔ ہمیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ ہمارے سوشلسٹ دوست بیک وقت لبرل اور سوشلسٹ ہونے پر اپنے نظریات کا خون ہوتے دیکھ کر دل ہی دل میں ہمیں کتنی گالیاں دیں گے مگر بات بہت سادہ سی ہے اور وہ ہے ماخذ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ان تمام تر نظریات کا عمیق ترین جائزہ لیں جس پہلو سے چاہے انھیں پرکھیں اگر انکا ماخذ انسانیت نہ ہو تو آپکی جوتیاں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا چاہے سر ۔۔۔۔۔۔ اپنا سر تو پیش کرنے سے رہے کے اگر آپ کو لبرلز کے سروں پر جوتیاں برسانا ہیں تو بھائی ہم سوشلسٹ ہیں اگر آپ کو سوشلزم سے بھی پرخاش ہے تو چلیں ہم اسلامسٹ ہیں اگر یہ بھی ہضم نہیں کر سکتے تو ہم روشن خیال ہیں اگر آپ کو روشنی سے بھی نفرت ہے تو چلیں ہم ترقی پسند ہیں اگر آپ پتھر کے دور کی طرف واپس لوٹنا چاہتے ہیں اور ترقی کے پر پیراہے سے خدا واسطے کا بیر ہے تو چلیں ہمارا مذہب انسانیت مانیں اور انسان سمجھ کر ہماری جان بخشی کریں اور اگر آپ کو انسانیت سے بھی کوئی سروکار نہیں تو پھر اپنا تعارف کروانے کی ضرورت نہیں آپ طالبان ہوں ، القاعدہ ہوں یا داعش ہوں ناموں سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں آپ کسی بھی روپ میں کسی بھی مقام پر جلوہ افروز ہو سکتے ہیں ۔
بات لبرلز کی ہو رہی تھی تو یاد آیا کچھ عرصہ پہلے جناب وزیر اعظم صاحب پر بھی یہ منکشف ہوا تھا کہ جنرل ضیا سے انکی نیاز مندی کے بعد مرحوم جنرل حمید گل نے آئی جے آئی کے حوالے سے انھیں جس خول میں بند کیا تھا اب دنیا اسے انتہا پسندی کہہ کر اسکے خلاف متحد ہوتی جا رہی ہے اور اب انھیں اپنی پہچان کے پیرا میٹر بدلنا ہونگے سو وہ ایک تواتر کے ساتھ خود کو لبرل کہلوانے لگے ۔ ہمارے وہ لبرل دوست جو سمجھ رہے ہیں کہ دو روز قبل اسلام آباد میں مذکورہ جملے نے جو دھماکہ کیا ہے وہ انکی لبرل دانشوری پر خودکش حملہ ہے وہ خاطر جمع رکھیں یہ آئی جے آئی کے سابق سربراہ اور موجودہ لبرل وزیراعظم کیلئے عمران خان اور پانامہ کے بعد ایک مزید تحفہ ہے ۔
میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کا تحفہ انھیں عمران خان کے دھرنا بھوت کی شکل میں ملا تھا ، ایکسٹینشن نہ دینے کا تحفہ انھیں پانامہ لیکس کی شکل میں ملا تھا اور اب یہ دھماکہ خیز جملہ جس کی بازگشت آنے والے دنوں میں سادہ لوح انسانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر بہت سی نئی راہیں کھولنے جا رہی ہے کہ ” لبرل افراد دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ” یہ تحفہ ہے اچھے اور برے طالبان کے فرق کو مٹاتے ہوئے پختون ظالبان کے ساتھ ساتھ پنجابی طالبان کے خاتمے کی منظوری اور حمایت ، ردالفساد کی شکل میں ، گو کے اس آپریشن نے اب تک ایک حافظ سعید کو نظر بند کرنے کے کوئی بڑا کارنامہ اب تک انجام نہیں دیا مگر ضیا اور ضیا کے بعد حمید گل ڈاکٹرائن پر عمل پیرا و کمر بستہ عناصر کسی صورت ہار مارنے کو تیار نہیں ۔
یہ طرز عمل چار عشروں پر محیط ہے کہ ریفرنڈم میں اگر کہو کے نظام شریعت چاہئے تو مطلب ہوگا ضیا کے حق میں ووٹ اگر کہو کے شریعت نا منظور ہے تو ووٹ ضیا کی مخالفت میں شمار ہوگا ۔ مذہب کی آڑ لیکر شکار کرنے کا یہ آزمودہ نسخہ چار دہائیوں سے رنگ بدل بدل کر اس سادہ لوح قوم کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔
چار مختلف فیس بک صفحات سے متعلق ایک پٹیشن لال مسجد انتظامیہ نے اسلام آباد ہائکورٹ میں جمع کروائی تھی جس میں بدنام زمانہ بھینسا اور موچی پیج بھی شامل تھے جنھیں پاکستان کے طول و عرض میں بول کے اینکر عامر لیاقت کی جانب سے کی جانے والی پبلسٹی سے قبل دو فیصد لوگ بھی نہیں جانتے تھے مگر اس پبلسٹی کے بعد اب انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 98 فیصد لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ ان صفحات کو کھول کر دیکھیں تو سہی ان میں ہے کیا ۔ جبکہ دو دن قبل جب معزز جج صاحب جذباتی انداز میں ریمارکس دے رہے تھے اس سے قبل ہی یہ صفحات بند کیئے جا چکے تھے اور ان ناموں سے اب جو صفحات چل رہے ہیں ان پر صرف قومی ترانے اور احادیث مبارکہ کا ورد جاری ہے ۔
نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اس نوعیت کے صفحات کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان سے اپ لوڈ نہیں ہوتی پی ٹی اے رپورٹ ہونے والے صفحات کے ویوز کو بلاک کر سکتا ہے مگر انھیں بند نہیں کر سکتا ۔
اس میں قطعی دو رائے نہیں ہو سکتیں کے کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا مگر کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مسلمان یہ قبیح فعل کر سکتا ہے ؟
ان صفحات کا قابل عمل راستہ وہی ہے جس پر انٹرنیٹ سرو کرنے والوں کی اکثریت عمل کرتی ہے اور ایسے صفحات نظر میں آتے ہی خود انھیں بلاک کر دیتی ہے یا اگنور کر کے آگے بڑھ جاتی ہے ۔ دیگر مہذب طریقوں میں ایسے صفحات کو انفرادی طورپر بھی رپورٹ کرنا چاہیے اور اجتماعی سطح پر ایک یاداشت سرکاری سطح پر سوشل مڈیا انتظامیہ کو دے دینی چاہئے آپکے اپنے ادارے ان صفحات کی مانیٹرنگ کرکے صرف ان کو آپ کے گیٹ وے سے چلنے والے صارفین کیلئے بلاک کر سکتے ہیں سو پی ٹی اے کو اس کا پابند کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس انداز میں پوری قوم کو جذباتی کر دینا اور ایسا تاثر دینا جیسا کے حکومت ، حکومتی ادارے اور روشن خیال لبرل افراد سب کے سب اس مذموم حرکت میں ملوث ہیں کسی طور آپ کے منصب کے مطابق نہیں ۔
تمام ملکی اور غیر ملکی اداروں نے اس خبر کو کچھ اس طرح رپورٹ کیا کہ ” جج صاحب آرڈر لکھواتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ان صفحات کو بند کروانے کیلئے اگر وزیراعظم کو حاضر کرنا پڑا تو میں انھیں بھی حاضر کروں گا اگر پورا سوشل مڈیا بند کرنا پڑا تو وہ بھی کروں گا اگر پی ٹی اے سے یہ صفحے بند نہیں ہوتے تو پی ٹی اے کو ختم کردو مگر یہ بھینسا ، گینڈا ، کتا اور سور سب بند ہونے چاہئے ہیں ”
یہ ریمارکس ظاہر کررہے ہیں جناب کے آپ کی آبزرویشن پر جذبات کس قدر حاوی ہیں کیا یہ اس منصب کیلئے مناسب ہیں ؟ پھر آپ نے لبرلز کو دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک قرار دیکر گویا روشن خیال اور رواداری پر مبنی سماج کی تشکیل کے خوابوں کو بھی چکنا چور کرنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کر ڈالی اور ان دہشت گردوں کی بلا واسطہ یا بلواسطہ حوصلہ افزائی کی جو انسانیت کو تاراج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے چناچہ تحریک طالبان ، لشکر جھنگوی اور داعش کے حمایت یافتہ گروپ ” تحریک الاحرار ” نے آپ کی رولنگ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ آپ کے نظام عدل کو مانتے ہیں نہ آپکے قانون کو نہ دستور و وطن کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی یہ وہی لوگ ہیں جو آپکے وطن کے محافظوں کی گردنیں کاٹ کر انکے سروں سے فٹبال کھیلتے ہوئے اس منظر کو ریکارڈ کرتے ہیں اور سوشل مڈیا پر چلاتے ہیں کیا انکے لیئے آپ نے کبھی کوئی ریمارکس دیئے ؟ یہ وہی لوگ ہیں جو 134 معصوم بچوں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں اور اس سفاکیت کو سب سے پہلے جائز قرار دینے والے مولوی عبدل عزیز کے ایک عزیز کی پٹیشن پر آپ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ پوری ملکی انتظامیہ اور روشن خیال حلقوں کو ہی توہین رسالت کا بلواسطہ مرتکب قرار دے دیا اور آپکی ستائش میں تحریک الاحرار کے بیانات بھی آنا شروع ہوگئے ۔ ہر مسلمان ان جیسے صفحات سے نفرت کرتا ہے مگر یہ بھی جانتا ہے کہ یہ محض ایک جال ہوتے ہیں اور شکاری کے بچھائے ہوئے جال سے بچ نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ جال سے بچ کر گزر جایا جائے آپ خاطر جمع رکھیئے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اتنا شعور رکھتے ہیں ۔
دکھائی یہی دے رہا ہے کہ کوئی نا دیدہ طاقت دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو اپنے اہداف سے ہٹانے کی احمقانہ کوشش کر رہی ہے اور طریقہ واردات برسوں پرانا اختیار کیا جا رہا ہے کہ عوام کے مذہبی جزبات کو بھڑکا کر انھیں باہم لڑا دیا جائے اور مختلف مکاتب فکر کے افراد کے ہاتھوں میں پکڑی جوتیاں دہشت گردوں انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے سروں پر برسنے کے بجائے ایک دوسرے کے سروں پر برسیں مگر شائد عوامی شعور اب اتنا خوابیدہ نہیں رہا جو ایسی سازشوں کو سمجھ نہ سکے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply