آزادی مارچ۔۔نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

آزادی مارچ کے حوالے سے حکومت کہتی ہے کہ ہم نے تیاری کرلی ہے، بلڈ شیڈ نہیں ہوگا، مختلف شہروں اور جگہوں میں پانچ سو کمیرے وغیرہ لگائے ہیں۔ دوسری طرف وزیر داخلہ موصوف فرما رہے ہے کہ لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اطلاعات ہے کہ تحریک انصاف، آزادی مارچ کیلئے اسلحہ جمع کر رہے ہیں، آنسو گیس شیلز وغیرہ ساتھ لا رہے ہیں اور کسی صورت عمران خان کو اسلام آباد نہیں آنے دیا جائیگا۔ ریڈ زون سمیت پورے اسلام آباد کی سکیورٹی اہم ہے، ریڈ زون کی فول پروف سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی۔ انتظامیہ نے درخواست کی تو رینجرز اور فوج کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔

سمجھ آرہی ہے کہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے اندر کیا ہونے جارہا ہے؟۔ کس کے کیا کیا منصوبے ہے؟۔ عجیب‏ بات ہے لانگ مارچ پی ٹی آئی کی ہے اور حکومت نے خود پورا ملک بند کر دینے کی ٹھان لی ہے، جگہ جگہ کنٹینرز لگائے ہوئے ہے، پٹرول پمپوں کو بند کردیا ہے حتی کہ کاروبار زندگی مفلوج کردیا ہے۔

درحقیقت میدان میں گرما گرمی بڑھانے کے لئے اور آزادی مارچ کو سبوتاژ کرنے کیلئے حکومت کی طرف بلیک پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔عدالتوںاور لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کو بیچ میں کودنے کیلئے لایا جا رہا ہے۔ آزادی مارچ کے ٹائیگرز فورس اور پی ٹی آئی ورکرز پر تشدد کرنے کی تدابیر سوچی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قانون کے مطابق احتجاج کا حق ہر شہری استعمال کرسکتا ہے۔ حکومت کو عوام کی احتجاج کا حق سبوتاژ نہیں کرنا چاہئے۔

دراصل حکومت کو اقتدار کے نشے کا لت پڑ چکا ہے۔ اور اقتدار کی ایسی خواہش انسان کو نابینا کردیتا ہے۔ اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اقتدار میں طاقت، زور اور زر کے یہی کچھ مضمرات اکثر دیکھنے کو ملتے ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس حکومت (پی ڈی ایم) پارٹی کو اسلئے وجود میں لایا گیا تھا کہ اپنے خواہش کے مطابق اقتدار میں آکر قانون سازی کرسکے اور صاف اور شفاف الیکشن کراسکے۔ لیکن ایسا کہنا گمان ہوگا کہ حکومت، پاکستان کے اداروں کو غیر قانونی طور پر استعمال کرتے عوام کی خواہش کے برعکس اپنے حق میں کرکے الیکشن اور ووٹ کو چوری کرکے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہے۔

اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ حکومت چھوڑنے اور نئے الیکشن کرانا ایک بے بنیاد شوشہ گری تھا۔ اس نسبت، حکومت نے پروپیگنڈا کرکے عوام کو گمراہ کرنے کا ڈھونگ رچایا ہے اور حقیقت اسکے برعکس نکلی ہے۔ حکومت کو ای وی ایم پر قانون بنانا ہے، نیب کے چیئرمین کو ہٹانا اور قانون تبدیل کرنا ہےاور ایف آئی اے سے اپنے مقدمات اور اوور سیز پاکستانیوں کی حق راہی دہی وغیرہ کو ختم کرنا ہیں۔

حکومت عوام کو گمراہ کرنے کیلئے جھوٹے پروپیگنڈے، معاشی ڈیفالٹ، قومی حکومت، میثاق معیشت کے غیر ضروری بحث میں الجھا کر درحقیقت اداروں کو اپنے زیر دست لانے کی مہم پر ہے۔ حکومت نیوٹرل اداروں کو جانبدار بنانے کیلئے پورا زور لگانے کے درپے ہوئے ہیں۔ جو کہ میرا خیال ہے کہ نیوٹرل اداروں کو نیوٹرل ہونا چاہئے۔ سیاست صرف سیاست دانوں کا حق ہے۔ اس طرح چاہئے ایف آئی اے ہو، نیب ہو، قومی سلامتی کونسل ہو، عدالتیں ہو، سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ وغیرہ جتنے بھی ادارے ہو ان کو سیاست زدہ کرتے ہوئے سیاست میں گندا کرنے اور میدان میں لائے جانے کا پروگرام بن چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ دراصل پاکستان کی تباہی اور تقسیم کا منصوبہ ہے۔

اس ضمن میں الیکشن، پی ڈی ایم حکومتی پارٹی کا اہم مطالبہ تھا جو کہ عمران خان کے حکومت میں آتے ہی دیگر پارٹیاں زور اور شور سے کرتی آئی ہے۔ لیکن اس میں ناکام ہوئی اور جب امریکہ اور حکومت(پی ڈی ایم پارٹی) کے توسط سے تحریک انصاف کے منحرف پارٹی اراکین کو کروڑوں روپے پر خریدا گیا تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ مداخلت ہوئی، سازش نہیں ہوئی جیسے امریکہ کی انڈر سٹیٹ اہلکار کی پشت پناہی کی گئی۔ امریکی مداخلت کی تحقیقاتب ہونا تاحال باقی ہے۔ جس میں حکومت کی انٹرسٹ ہے اور نہ ہی اعلی اداروں اور اعلی عدلیہ کی۔!! کیونکہ امریکہ ہمارا مائی باپ ہے۔

عمران خان حکومت کے اتحادیوں کو نئی حکومت میں مراعات، وزارتوں اور آئیندہ سیٹ اپ پر قائل کرنے کے بعد پی ڈی ایم اپنے گھناؤنے منصوبے کے آخری فیز میں داخل ہوچکی ہے۔ پاکستان کے جڑیں کھوکھلی کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ترقی کو رول بیک اور پروگریسیو قانون سازی کے خلاف اقدامات ہوچکے ہے۔

پاکستان کے فیڈریشن، اداروں کو یرغمال بنانے کا اعلان کردیا گیا ہے، آزادی مارچ ایک بہانہ ہے، اصل ملک کا خزانہ ہے، جس پر پی ڈی ایم (حکومت)کی نظریں تادھیر رکی ہوئی ہے، حکومتی اراکین تدبیریں سوچ رہے ہیں۔ ایک شخص عمران خان کے خلاف پورے حکومتی وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت آزادی مارچ کے حوالے سے ایک تیر سے دو شکار کھیلنا چاہتے ہیں، ایک طرف ملک میں انتشار، بے چینی، بے یقینی اور خون بہانا چاہتے ہے اور دوسری طرف عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرنا چاہتے ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اداروں میں ٹکراؤ کی جیسی صورتحال پیدا کردینا چاہتے ہے۔

عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم، الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی چینلز، لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں، دیگر ادارے، سول اور ملثری اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر اس گیم میں حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ آزادی مارچ، عمران خان کے بقول ایک قانونی اور آئینی عمل ہے۔ جو کہ عدم تشدد سے آگے بڑھایا جائیگا۔

حکومت اور تحریک انصاف کی اس سیاسی چپقلش کی ذمہ داران اگر ایک طرف الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے جنگجو ہے تو دوسری طرف اس نازک صورتحال میں سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بھی برابر کی ذمہ داران ہے۔
سیاست دان، سیاست عوام اور معاشرے کی ترقی کیلئے کرتے ہے۔ لہذا سیاست میں کمپرومائز کا عنصر ہر وقت موجود ہونا چاہئے، خون و کشت، الزامی اور طعنہ زنی کی سیاست سے نقصان صرف عوام اور پاکستان کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کیلئے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔ سیاست عوام اور فریقین کے آپس کا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ کسی تیسرے فریق اور ادارے کا صوابدید نہیں۔ سیاست میں ایسے لوگ ہمیشہ موجود ہوتے ہے جو بیچ کی راہ نکالنے کے ماہر ہوتے ہے۔ اسلئے ان ماہرین سے مشاورت کیا جانا چاہئے۔

جب ذہن خطرہ محسوس کرلیتا ہے تو ایسے خیالات کا آنا فطری امر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ حکومت ہی غلط ہو اور تحریک انصاف ہی ٹھیک ہو۔ بحث میں ایک جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو بحث میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ عقلی دلائل اور نصیحت آموز مکالمہ سے دوسرے کے دل میں جگہ بنائی جاسکتی ہے اور اسکو قائل کیا جاسکتا ہے۔

اب بھی وقت ہے، سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کرے، کچھ معاملات پر اتفاق بنانے کیلئے بیٹھنا چاہئے۔ سیاستدان اور عوام دونوں کو سوچنا چاہئے، کہ پاکستان کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے، اسلئے مرکزی نکتہ صرف پاکستان ہونا چاہئے، اسکی ترقی کیسی ہونی چاہئے؟ اسلئے ایک دوسرے کو اپنا موقف کہنے کا موقع دینا چاہئے، حوس اقتدار، لالچ اور طمع سے پاکستان خراب ہوگا، معیشت خراب ہوگی، اور عوام کا اعتماد سیاستدانوں سے اٹھ جائیگا اور بالاخر عوام اور معاشرے کا نقصان ہوگا۔ فائدہ کس کو ہوگا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں!

آئیے، ملکر بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں اور اس بے یقینی اور بے چینی کا حل نکالتے ہیں۔ ان حالات میں عالمی سماج کو جگ ہنسائی کو موقع نہیں دینا چاہئے۔ پاکستانی عوام ایک خودار اور غیرت مند قوم ہے۔ اسلام اور پاکستان کا قانون ہمارے درمیان پیمانے ہے۔پاکستان کو آگے بڑھانے کیلئے سچی لگن اور خلوص دل سے عمل کرتے ہے۔ سمجھداری کا یہی ایک تقاضا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے پاکستان کو اس معاشی ڈیفالٹ سے نکالنے کی تدابیر سوچتے ہیں۔ قوم بننے کی صلاحیت اور خواہش پیدا کرنا ہے۔ ملک ہوگا، تو سیاست ہوگی، جمہوریت ہوگی، رواداری ہوگی، عزت اور احترام ہوگا۔ خدارا سیاستدان ملک اور قوم کی خاطر ملک پر رحم کرےکیونکہ ان حالات میں ملک خداد مزید انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply