تعلیم سے تجارت تک۔۔یوحنا جان

جدید خیالات نے کروٹیں بدلنا شروع کیں تو نئی دنیا , نئے لوگ, نئے رنگ اور نئے خیالات نے ہر طرف اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پرانی تہذیب اور نئی تہذیب کے لوگوں میں اختلاف رائے جنم لینا شروع ہو گیا۔ جس نے ایک چار دیواری کے اندر رہنے والے گھرانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا۔ آج تک اس مسئلے کا حل کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا وجہ ہے ؟ صرف اپنے مفروضے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ سراسر کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ آج سے پچاس یا سو سال پیچھے چلے جائیں تو کوئی تعلیم کوتجارت قرار نہیں دیتا تھا۔ اس زمانے  کے لوگ اس کو خدمت, نسل انسانی کی بقا اور مقدس فریضہ قرار دیتے تھے۔ اسکول, کالج, یونیورسٹی میں استاد کا احترام اولیت کے معنوں میں تھا۔ استاد اس منصب کو خدا کی طرف سے فرض شناسی اور خدا کی طرف سے ایک مقدس عہدہ سمجھتا تھا۔ درسگاہ کی چار دیواری کے باہر بھی استاد بچوں کی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر استاد نے گلی, محلے یا گاؤں میں بچوں کو آوارہ گردی کرتے دیکھا  تو سزا دیتا۔ باپ کو معلوم ہوا کہ استاد سے مار پڑی تب مزید باپ مارتا ،باپ کا بھی نظریہ یہی ہوتا تھا، ضرور اس نے غلط کام کیا ہے تو استاد نےسزا دی ہے۔اس سرگرمی کا اثر یہ تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہمہ وقت ساتھ چلتی تھی۔ استاد, اولاد اور والدین کے مابین ایک نشست ہوتی تھی۔ دوسری جانب ایک چار دیواری میں کئی لوگ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر ایک چنگیر سے روٹی کھاتے تھے۔ پرائمری, مڈل اور میٹرک پاس بھی اہل دانش قرار پاتے تھے۔

افسوس صد افسوس , جب سے اس تعلیم کو دھندہ اور تجارت نے ہاتھ لگا لیے تب سے سب کچھ اُلٹ گیا ہے۔ نہ وہ تعلیم رہی , نہ وہ درسگاہ رہی , نہ وہ استاد رہا ہےاور نہ ہی وہ والدین رہے۔ اب تو حالات اس وقت ایسی کروٹ بدل چکے ہیں کہ نہ وہ اولاد, نہ وہ والدین, نہ وہ درسگاہ رہی, نہ وہ استاد سبھی اپنا اپنا قبلہ لیے بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ جو کبھی استاد کا منصب انبیاء کی میراث تھا آج اس پر تاجر کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اس تاجر نے ذاتی مفاد , ذاتی منافع, اور ذاتی منافع خوری کو اس میراث کے عوض تقویت دی ہے۔ تو پھر اس کا نتیجہ  آپ کے سامنے ہے ۔ہر گلی,  محلے,  شہر اور گاؤں میں اس تعلیم اور علم کے نام پر فیکٹریوں کا جال بچھا کر ذاتی مفاد کی خاک اڑائی جا رہی ہے۔ اس ذاتی مفاد کی خاطر سب اخلاق, تربیت, تعلیم اور علم کو پارہ پارہ کر کے بےعزت کر دیا گیا ہے ۔ یہ تو قدرت کا فیصلہ ہے جب ایک شئے کا خاتمہ ہو تو اس کی جگہ متبادل کسی نہ کسی نے لینی ہوتی ہے۔   آج اس تعلیم کی بجائے ایسی منصوبہ بندی کی کاشت کی جا رہی ہے جس نے ہر گھر میں ایسی نسل کاشت کر رکھی ہے جو باتوں میں تو انبیاء کرام سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ گیارہ سو میں سے گیارہ سے نمبر حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی, محمد بن قاسم اور علامہ اقبال کے حقیقی شاہین نہیں بن پاتے۔ اس گندے اور تجارت کے عالم میں نا وہ علم رہا اور نہ علم دینے والا اور نہ علم لینے والا۔ علامہ اقبال خود اسی بات کا تذکرہ کرتے ہیں:
غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے, ہے وہی زیبا

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تعلیم کی آگ کو تجارت بنا کر فتوؤں کی آگ کو بڑھایا جائے تو پھر ہر طرف اس کا اثر اور حرارت جا پہنچتی ہے۔ اس حرارت کے عوض فساد , نااہل حکمران, بے ضمیر جج, قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد اور صرف خوابوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی بننا رہ جاتا ہے۔ ماضی کے کارناموں پر صرف گزارا کرنا اور خود کچھ نہ کرنا باقی رہ جاتا ہے۔ تب اس قوم کا بیڑا غرق اور مذہبی جوش کے باوجود برائی کا غلبہ ہمیشہ مسلط رہتا ہے۔ ایسی قومیں پورے سال کی کمائی صرف رمضان کے مہینے میں ثواب کی نیت سے کماتی ہیں۔ اقبال تو بتا کر چلے گئے:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مگر اس قوم نے طائرلاہوتی کو اس ہستی سے مٹا ڈالا, تو اس کا اثر براہ راست دودھ میں کیمیکل ملانے ,ضمیر فروشی کرنے, کتاب مقدس کو ہاتھ میں تھام کر, جھوٹ پہ جھوٹ بولنے, فرقہ واریت کو تقویت, محبت کی بجائے نفرت, اتحاد کی بجائے ٹکڑے, علم کی بجائے جاہلیت, قاتلوں کو صادق اور امین بنانا اور ایک ریاست کثیر قانون کو فروغ دینا جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ سب اسی تجارت کا نتیجہ ہے جو علم کے بجائے ظلم برپا کر رہے ہیں۔ تو آخر میں سبھی کہتے ہیں سنا کہ قسمت میں یہ لکھا تھا یہ سب ثمرات اسی تجارت کے نتیجے میں ہیں جتنے مرضی کوئی فلسفے  بنا لے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کیوں کہ میرے نزدیک ایسا صرف طوفانِ  نوع اور سدوم اور عمورہ کی تباہی کا منظر برپا ہونے کےمتبادل ہے۔ آخر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں:
“ہر بولا جانے والا لفظ سننے والے کے معیار کا نہیں ہوتا۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply