• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • 23 مارچ تاریخ ساز دن اور مملکت خداداد۔۔ارشاد حسین ناصر

23 مارچ تاریخ ساز دن اور مملکت خداداد۔۔ارشاد حسین ناصر

قیام پاکستان کی تاریخی جدوجہد اور کامیابیوں میں اگر کسی دن کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے تو میرے خیال میں وہ دو دن بنتے ہیں، ایک مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے کا تاریخی دن یعنی 14 اگست اور دوسرا 23 مارچ کا دن، جب اس مملکت خداداد کے قیام کی جدوجہد میں سب سے اہم موڑ آیا کہ منٹو پارک لاہور میں اس ملک کے قیام یعنی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کے قیام کی تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ بھلا اس تاریخی دن جب 14 اگست 1947ء کے دن پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور 23 مارچ 1940ء کا دن لاہور میں پاکستان کے قیام یعنی انگریز سامراج کے زیر قبضہ برصغیر میں مسلمانان ہند کیلئے جدا وطن کے قیام کا مطالبہ اور قرارداد کی منظوری ان ایام کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ 23 مارچ 1940ء کے دن لاہور میں اس وقت کے منٹو پارک اور موجودہ مینار پاکستان کی جگہ پر ایک بڑے جلسہ عام جو دراصل آل انڈیا مسلم لیگ کا چونتیسواں سالانہ اجلاس تھا، میں منظور کی گئی۔ اس تاریخی قرارداد کی منظوری سے پہلے بھی ہندوستان کی تقسیم اور جدا وطن کی باتیں منظر عام پر آچکی تھیں، مگر یہ قرارداد ہی قیام پاکستان کی جدوجہد کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ”23 مارچ“ مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ میں کس اہمیت کا حامل دن ہے؟ یہ اہم ترین تاریخ، دراصل وطن عزیز کے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے خدوخال ترتیب دینے کی تاریخ ہے، یہ تاریخ اس قرارداد کے منظور ہو جانے کی تاریخ ہے، جس کے صرف سات سال بعد ہی برصغیر کے مسلمانوں نے عملاً ہندوؤں کے تعصب، تنگ نظریوں اور انگریزوں کی تکالیف اور ظلم و زیادتیوں سے نجات حاصل کر لی۔ آج کے دن ضرورت اس امر کی ہے کہ اکابرین قوم نئی نسل کو بتائیں اور سمجھائیں کہ اس قرارداد کا مآخذ کیا تھا؟ مفہوم اور مقاصد کیا تھے؟ تاکہ وہ صحیح معنوں میں تاریخ پاکستان کی تفصیل سے آگاہ ہوسکے اور وطن عزیز کو قائد کے اقوال اور اقبال کے افکار میں ڈھالنے کا چارہ کرے۔ اس مملکت خداداد کو آج اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس کے قیام کے مقاصد یعنی اقبال و قائد کے خوابوں کی عملی تعبیر ہے، جن کو اپنانا اس مملکت خداداد کی بقاء و استحکام و سلامتی کیلئے از حد لازم ہے۔ اس کے وجود کی بقاء اسی میں مضمر ہے کہ اقبال و قائد (رہ) کے فرامین و اقوال اور عملی کردار کی روشنی میں مملکت کے حکمران، مقتدر حلقے، ادارے اور عوام و خواص اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے اس سے سر مو انحراف نہ کریں۔

ملک کے موجودہ حالات، سیاسی صورت حال، نظام مملکت، مملکت کے ستونوں کی باہمی کشمکش، مقتدر قوتوں میں بیٹھے ہوئے متعصب و تنگ نظر صاحبان اختیار و اقتدار کی حرکات و سکنات اور اقتدار کی کشمکش میں ملکی بنیادوں کو ہلا دینے والے افعال دیکھ کر بے حد دکھ ہوتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اجداد نے، ہمارے مخلص قائدین نے جس تعصب و تنگ نظری سے جان چھڑا کر اس خطہ ارضی کو علیحدہ وطن کے طور پر دنیا کے نقشے پر وجود بخشا، آج ویسے ہی تعصب اور تنگ نظری کا شکار کرکے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے، آج اس مملکت خداداد کیساتھ مخلص ہر شخص یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ آیا جس مقصد و ہدف کیلئے یہ مملکت خداداد حاصل کرنے کا خواب دیکھا گیا تھا، یہی اس کی عملی تعبیر ہے۔؟ آج بہت سے ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر اسی کو آزادی کہتے ہیں تو پھر اس سے وہ غلامی اچھی تھی، جس میں بھوک، ننگ، افلاس، غربت اور استحصال اس قدر نہیں تھا کہ جیسے آج انسانیت سسکتی ہے، روز مرتی ہے، جینا دشوار بلکہ مرنا اس سے بھی مشکل ہو چکا ہے۔

روز بم دھماکے ہوتے ہیں، مسجدیں نمازیوں کے خون سے رنگین ہیں، مائیں اپنے جوانوں کی جدائی برداشت کرتی ہیں، لوگ ایک ایک نوالہ کو ترستے ہیں، بھوک، بے روزگاری، مہنگائی نے ایک طرف جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف سنہرے خوابوں کی تعبیر نہ ملنے اور مایوسی کی وجہ سے نوجوان خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ صبح و شام کرپشن، لوٹ مار، فراڈ حکمران، سیاسی و مذہبی جغادریوں کے سکینڈلز سے عام عوام کا اعتماد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مایوسیوں، محرومیوں اور خودکشیوں کے اس دور کیلئے تو قائد اعظم محمد علی جناح (رہ) نے یہ مملکت بنانے کا عزم نہیں کیا تھا، اس کیلئے تو جدوجہد اور قربانیاں نہیں دی گئی تھیں۔ یہ سب کیوں ہوا، کیسے ہم لوگ اس سطح پر گر گئے، ہم نے جس ملک اور وطن کو لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کیا، اپنی عزتیں گنوائی، گھر بار لٹوائے، زمینیں، جائیدادیں، مال، اولاد نجانے کیا کچھ لٹایا گیا، کیا یہ سب آج کے پاکستان کیلئے قربان کیا گیا تھا؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور اسی کیلئے اتنی بڑی تحریک چلائی گئی تھی۔؟

میرا خیال ہے کہ کوئی بھی اس سے اتفاق نہیں کرے گا، ہم نے یہ وطن ہرگز اس لئے حاصل نہیں کیا تھا کہ بھیڑیوں کے سپرد کر دیا جائے۔ سیاسی گروگھنٹالوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ فوجی طالع آزماؤں نے اسے کس طرح بوٹوں تلے روندا، اس کی تاریخ کس قدر تلخ ہے؟ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کو جمہوریت کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اس پر قیام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فوجی طالع آزما مشق ستم بناتے نظر آئیں گے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کو اتنی بے پناہ قربانیاں دیکر حاصل کیا جا رہا ہے، وہ کچھ ہی عرصہ بعد دولخت ہو جائے گا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کے قیام کا متفقہ مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس میں ہم اس قدر تقسیم کا شکار ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں اور مساجد و مدارس کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکیں گے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کیلئے اتنی بڑی ہجرتیں کی جا رہی ہیں، اس میں بار بار ہجرتیں کرنا پڑیں گی۔ گھروں کو چھوڑنا پڑے گا، اپنی جائیدادیں نیلام کروانا پڑیں گی، اپنی اولادوں کو ذبح ہوتا دیکھنا پڑے گا۔

کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کے قیام کیلئے قراردادیں پاس کی جا رہی ہیں، اس میں اس کے قیام کے مخالفین اس قدر طاقتور ہو جائیں گے کہ قیام پاکستان کیلئے قربانیاں پیش کرنے والوں کو اس ملک سے نکال باہر کرنے کی سازشیں اور مطالبے دہرائیں گے۔ الگ وطن کا مطالبہ کس لئے تھا کہ ہم الگ قوم ہیں، ہمارے رسم و رواج اور عبادات کے طریقے ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمارا آفاقی دین و مذہب ہے، جو ہمیں ایک طرز زندگی و رہن سہن کا طریقہ بتاتا ہے، جس کے مطابق مسلم ایک الگ قوم ہیں، مگر کیا معلوم کہ ہم فرقہ بندی کا شکار کر دیئے جائینگے اور ہمارے عبادت خانے، مساجد و مدارس الگ الگ ہو جائیں گے۔ ایسی تو کوئی یہ تصویر یا تصور نہیں تھا، قائد اعظم محمد علی جناح اور حضرت علامہ محمد اقبال کے تصور پاکستان میں۔

آپ آج یوم قرارداد پاکستان مناتے ہوئے اگرچہ پاکستان کے ہر گوشہ و کنار کے لوگوں کو مسائل و مشکلات اور مایوسیوں نے گھیرا ہوا ہے، مگر پاکستان کے شمالی علاقوں یعنی گلگت بلتستان کے لوگوں کے ابتر حالات اور پیش آمدہ مشکلات کا اندازہ لگائیں تو آپ ششدر و حیران رہ جائیں گے کہ ان کے ساتھ کتنی زیادتی ہو رہی ہے۔ کس طرح پچھتر برسوں سے انہیں بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھ کر انہیں مملکت کے آئینی شہری حقوق سے محروم رکھ کر ان کی جدوجہد کا مذاق اڑایا گیا ہے، ان کے خلوص کا جنازہ نکالا گیا ہے۔ پاکستان کے ان وفا شعار و شجاع فرزندان کو کتنی کٹھن سزا دی جا رہی ہے۔ یہ اس پاک سرزمین کے ساتھ بھی مذاق کے مترادف ہے۔ گلگت بلتستان کے غیور اور وطن دوست عوام کو ان کے احسانات کا بدلہ جس انداز میں دیا جا رہا ہے، اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں کھلواڑ بنا ہوا ہے۔

حیرت کی انتہاء ہے کہ جن لوگوں نے اس ملک میں شامل ہونے کیلئے یہاں کے ارباب اقتدار کو رضاکارانہ آفر کی تھی، ان کے ساتھ ایسا ظلم کہ انہیں پاکستان کا شہری ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انہیں پاکستان کی اسمبلیوں میں نمائندگی ہی نہیں دی جاتی۔ آئین پاکستان میں اتنے برسوں میں ان کو شناخت سے ہی محروم رکھا گیا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اگر اس خطے کا کوئی سپوت کوئی عالمی کارنامہ سرانجام دے تو وہ پاکستان کا کارنامہ بن جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اسے بطور پاکستانی متعارف کروایا جاتا ہے اور اگر یہاں کا کوئی فرد اپنے حقوق کی بات کرے، پارلیمان میں اپنی نمائندگی کا مطالبہ کرے تو اسے پاکستان کا دشمن تصور کر لیا جاتا ہے، اسے غدار تک کہا جاتا ہے۔ اس خطہ ارضی کے سپوتوں کیساتھ اس رویہ کو تبدیل کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ موجودہ حکومت نے بھی اگرچہ اس خطہ یعنی جی بی صوبہ کیلئے بہت سے اعلانات کر رکھے ہیں اور اس کا فائل ورک بھی ہوچکا ہے، اس کی اصولی منظوری بھی ہوچکی ہے، مگر اصل بات ہے کہ عملی طور پر کیا کچھ سامنے آتا ہے۔

اب باتوں سے کچھ بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ اس خطہ کے مخلص و باوفا عوام تو یہ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے ارض وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
ہم سمجھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے مخالفین کی اولادوں اور وارثوں نے اس ملک کے آئین کو تسلیم نہیں کیا، اس کا اظہار وہ برملا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ملک کے غداروں جیسا سلوک ہونا چاہیئے، اگر ان غداروں کو اسی طرح چھوٹ دی جاتی رہی تو پھر ملک کو درپیش یہ مشکلات کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ انہیں عبرت کا نشانہ بنائے بنا یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ہم نے اسے مستحکم اور مضبوط دیکھنا ہے تو اس ملک کے حقیقی محبوں اور وفا شعاروں کو ان کے جائز حقوق دینا ہونگے اور ملک کے آئین کے مخالفین کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ ظالموں کے ہاتھوں کو توڑنا ہوگا، مصلحتوں کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرنا ہوگی، زبان پر پڑے تالے اور قفلوں کو بھی توڑنا ہوگا۔

حق مانگنا، اس کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا کہیں بھی جرم نہیں، اس لئے اپنے حقوق کو پائمال ہوتا دیکھنے کے بجائے اس روز یہ عہد کرنا ہوگا کہ کسی کو اپنے حقوق پر ڈاکہ زنی نہیں کرنے دینگے۔
سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان برا لگتا ہے
ظلم سہتا ہوا انسان برا لگتا ہے
مملکت خداداد پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش اور اقتدار و طاقت کے بھوکے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو اس ملک کے عوام سے زیادہ اپنے اقتدار و طاقت و اختیار، یعنی کرسی کی فکر لاحق ہے، ورنہ اس ملک کو ایک متفق آئین مل چکا ہے، جس کو سبھی مانتے ہیں۔ اگر اس آئین پر عمل کیا جائے تو جمہوری انداز میں ہی مملکت کا کاروبار چلنا چاہیئے، جسے سبھی قبول کریں اور بدلتے ہوئے عالمی و علاقائی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک کی مضبوطی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply